الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
Zakat (Kitab Al-Zakat)
20. باب كَمْ يُؤَدَّى فِي صَدَقَةِ الْفِطْرِ
20. باب: صدقہ فطر کتنا دیا جائے؟
Chapter: How Much Sadaqah Should Be Given At The End Of Ramadan.
حدیث نمبر: 1614
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا الهيثم بن خالد الجهني، حدثنا حسين بن علي الجعفي، عن زائدة، حدثنا عبد العزيز بن ابي رواد، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، قال:" كان الناس يخرجون صدقة الفطر على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم صاعا من شعير او تمر او سلت او زبيب"، قال: قال عبد الله: فلما كان عمر رضي الله عنه وكثرت الحنطة، جعل عمر نصف صاع حنطة مكان صاع من تلك الاشياء.
حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ خَالِدٍ الْجُهَنِيُّ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رَوَّادٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ:" كَانَ النَّاسُ يُخْرِجُونَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ تَمْرٍ أَوْ سُلْتٍ أَوْ زَبِيبٍ"، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَلَمَّا كَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَثُرَتِ الْحِنْطَةُ، جَعَلَ عُمَرُ نِصْفَ صَاعٍ حِنْطَةً مَكَانَ صَاعٍ مِنْ تِلْكَ الْأَشْيَاءِ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ صدقہ فطر میں ایک صاع جو یا کھجور یا بغیر چھلکے کا جو، یا انگور نکالتے تھے، جب عمر رضی اللہ عنہ کا دور آیا اور گیہوں بہت زیادہ آنے لگا تو انہوں نے ان تمام چیزوں کے بدلے گیہوں کا آدھا صاع (صدقہ فطر) مقرر کیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/ الزکاة 41 (2518)، (تحفة الأشراف:7760) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (عمر رضی اللہ عنہ کا ذکر وہم ہے صحیح یہ ہے کہ ایسا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کیا، عبدالعزیز بن أبی رواد سے یہاں وھم ہو گیا ہے ان سے وہم ہو بھی جایا کرتا تھا)

Narrated Abdullah ibn Umar: The people during the lifetime of the Messenger of Allah ﷺ used to bring forth the sadaqah at the end of Ramadan when closing the fast one sa' of barley whose straw is removed, or of raisins. Abdullah said: When Umar (Allah be pleased with him) succeeded, and the wheat became abundant, Umar prescribed half a sa' of wheat instead of all these things.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1610


قال الشيخ الألباني: ضعيف خ مختصرا نحوه

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
أخرجه النسائي (2518 وسنده حسن)
   صحيح البخاري1504عبد الله بن عمرزكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير على كل حر أو عبد ذكر أو أنثى من المسلمين
   صحيح البخاري1512عبد الله بن عمرصدقة الفطر صاعا من شعير أو صاعا من تمر على الصغير والكبير والحر والمملوك
   صحيح البخاري1511عبد الله بن عمرصدقة الفطر على الذكر والأنثى والحر والمملوك صاعا من تمر أو صاعا من شعير فعدل الناس به نصف صاع من بر
   صحيح البخاري1507عبد الله بن عمرزكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير
   صحيح البخاري1503عبد الله بن عمرزكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير على العبد والحر والذكر والأنثى والصغير والكبير من المسلمين أمر بها أن تؤدى قبل خروج الناس إلى الصلاة
   صحيح مسلم2278عبد الله بن عمرزكاة الفطر من رمضان على الناس صاعا من تمر أو صاعا من شعير على كل حر أو عبد ذكر أو أنثى من المسلمين
   صحيح مسلم2280عبد الله بن عمرصدقة رمضان على الحر والعبد والذكر والأنثى صاعا من تمر أو صاعا من شعير
   صحيح مسلم2282عبد الله بن عمرزكاة الفطر من رمضان على كل نفس من المسلمين حر أو عبد أو رجل أو امرأة صغير أو كبير صاعا من تمر أو صاعا من شعير
   صحيح مسلم2284عبد الله بن عمرزكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير على كل عبد أو حر صغير أو كبير
   صحيح مسلم2281عبد الله بن عمرأمر بزكاة الفطر صاع من تمر أو صاع من شعير
   جامع الترمذي675عبد الله بن عمرصدقة الفطر على الذكر والأنثى والحر والمملوك صاعا من تمر أو صاعا من شعير
   جامع الترمذي676عبد الله بن عمرزكاة الفطر من رمضان صاعا من تمر أو صاعا من شعير على كل حر أو عبد ذكر أو أنثى من المسلمين
   سنن أبي داود1611عبد الله بن عمرصاع من تمر أو صاع من شعير على كل حر أو عبد ذكر أو أنثى من المسلمين
   سنن أبي داود1614عبد الله بن عمرصاعا من شعير أو تمر أو سلت أو زبيب
   سنن أبي داود1613عبد الله بن عمرصاعا من شعير أو تمر على الصغير والكبير والحر والمملوك
   سنن ابن ماجه1826عبد الله بن عمرصدقة الفطر صاعا من شعير أو صاعا من تمر على كل حر أو عبد ذكر أو أنثى من المسلمين
   سنن ابن ماجه1825عبد الله بن عمرأمر بزكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير
   سنن النسائى الصغرى2502عبد الله بن عمرزكاة رمضان على الحر والعبد والذكر والأنثى صاعا من تمر أو صاعا من شعير فعدل الناس به نصف صاع من بر
   سنن النسائى الصغرى2503عبد الله بن عمرصدقة الفطر على الذكر والأنثى والحر والمملوك صاعا من تمر أو صاعا من شعير قال فعدل الناس إلى نصف صاع من بر
   سنن النسائى الصغرى2504عبد الله بن عمرزكاة رمضان على كل صغير وكبير حر وعبد ذكر وأنثى صاعا من تمر أو صاعا من شعير
   سنن النسائى الصغرى2505عبد الله بن عمرزكاة الفطر من رمضان على الناس صاعا من تمر أو صاعا من شعير على كل حر أو عبد ذكر أو أنثى من المسلمين
   سنن النسائى الصغرى2506عبد الله بن عمرزكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير على الحر والعبد والذكر والأنثى والصغير والكبير من المسلمين أمر بها أن تؤدى قبل خروج الناس إلى الصلاة
   سنن النسائى الصغرى2507عبد الله بن عمرصدقة الفطر على الصغير والكبير والذكر والأنثى والحر والعبد صاعا من تمر أو صاعا من شعير
   سنن النسائى الصغرى2518عبد الله بن عمرصاعا من شعير أو تمر أو سلت أو زبيب
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم279عبد الله بن عمرفرض زكاة الفطر فى رمضان على الناس، صاعا من تمر، او صاعا من شعير، على كل حر او عبد، ذكر او انثى من المسلمين
   بلوغ المرام505عبد الله بن عمرزكاة الفطر صاعا من تمر او صاعا من شعير على العبد والحر والذكر والانثى والصغير والكبير من المسلمين وامر بها
   مسندالحميدي718عبد الله بن عمرصدقة الفطر صاع من شعير، أو صاع من تمر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 279  
´صدقہ فطر کا بیان`
«. . . 211- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم فرض زكاة الفطر فى رمضان على الناس، صاعا من تمر، أو صاعا من شعير، على كل حر أو عبد، ذكر أو أنثى من المسلمين. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں لوگوں پر مسلمانوں میں سے ہر آدمی پر کھجور کا ایک صاع یا جَو کا ایک صاع فرض قرار دیا ہے، چاہے آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 279]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1504، ومسلم 984، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ یہ صدقہ فطر مسلمانوں پر فرض ہے۔ دیکھئے: [ح211]
➋ ایک روایت میں آیا ہے کہ ہم صدقہ فطر ادا کرتے تھے۔۔۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان ہوتے تھے۔ [صحيح مسلم: 985 2284]
◈ معلوم ہوا کہ درج بالا حدیث مرفوع ہے۔
➌ صاع کے وزان کے بارے میں اختلاف ہے - راجح یہی ہے کہ ڈھائی کلووزن کے مطابق صاع نکالا جائے تاکہ آدمی کسی شک میں نہ رہے۔
➍ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے گندم کا آدھا صاع ثابت ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ وغیرہ سے پورا صاع ثابت ہے لہٰذا راجح یہی ہے کہ پورا صاع ادا کیا جائے۔
➎ بہتر اور افضل یہی ہے کہ گندم، جو، کھجور اور انگور وغیرہ پھلوں، غلے اور کھانے سے صاع نکالا جائے لیکن اگر مجبوری یا کوئی شرعی عذر ہو تو صاع کی مروجہ رقم سے ادائیگی بھی جائز ہے۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بصرہ میں عدی کی طرف حکم لکھ کر بھیجا تھا کہ اہلِ دیوان کے عطیات میں سے ہر انسان کے بدلے آدھا درہم لیا جائے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 3/174 ح10368، وسنده صحيح]
◈ ابواسحاق السبیعی فرماتے تھے کہ میں نے لوگوں کو رمضان میں صدقہ فطر میں طعام (کھانے) کے بدلے دراہم دیتے ہوئے پایا ہے۔ [ابن ابئ شيبه ح 10371، و سنده صحيح]
➏ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ صدقۂ فطر صرف کھجور میں سے دیتے تھے سوائے ایک دفعہ کے (جب کھجوریں نہ ملیں تو) آپ نے جَو دیئے۔ [الموطأ 1/284 ح635، وسنده صحيح]
➐ صدقہ فطر صرف مساکین کا حق ہے۔ [ديكهئے سنن ابي داؤد: 1609، وسنده حسن]
◈ لہٰذا اسے آٹھ قسم کے مستحقینِ زکوٰۃ میں تقسیم کرنا غلط ہے۔ دیکھئے: زاد المعاد [2/22] اور عبادات میں بدعات اور سنت نبوی سے ان کا رد [ص212]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 211   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1614  
´صدقہ فطر کتنا دیا جائے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ صدقہ فطر میں ایک صاع جو یا کھجور یا بغیر چھلکے کا جو، یا انگور نکالتے تھے، جب عمر رضی اللہ عنہ کا دور آیا اور گیہوں بہت زیادہ آنے لگا تو انہوں نے ان تمام چیزوں کے بدلے گیہوں کا آدھا صاع (صدقہ فطر) مقرر کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1614]
1614. اردو حاشیہ: علامہ منذری نے اس حدیث کے راوی عبد لعزیز بن ابی رو اد کو ضعیف لکھا ہے۔نیز حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زکر اس روایت میں وہم ہے۔صحیح یہ ہے کہ وہ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔(علامہ البانیرحمۃ اللہ علیہ)تاہم صحابہ کی ایک جماعت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی والدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے گندم کا آدھا صاع دینا ثابت ہے۔ لیکن اس اختیار پر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ثابت نہیں۔بلکہ اختلاف رہا ہے اس لئے ااسے حجت نہیں بنایا جاسکتا۔(الروضۃ الندیہ)جیسے کہ مندرجہ زیل دو احادیث میں حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عمل کا زکر آرہا ہے لہذا صحیح اور راحج یہی ہے کہ ایک صاع دیا جائے گندم ہویا کچھ اور۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1614   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1611  
´صدقہ فطر کتنا دیا جائے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کھجور سے ایک صاع اور جو سے ایک صاع فرض کیا ہے، جو مسلمانوں میں سے ہر آزاد اور غلام پر، مرد اور عورت پر (فرض) ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1611]
1611. اردو حاشیہ:
➊ جناب عبد اللہ بن مسلمہ کی یہ حدیث امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے د و طرح سے حاصل ہوئی ہے۔ایک بطور تحدیث کے امام صاحب نے طلبہ کی جماعت میں بیان فرمائی یا ان پر پڑھی گئی۔اوردوسرے خاص عبد اللہ بن مسلمہ کو پڑھ کر سنائی۔اور اس دوسری صورت میں (من رمضان) کی صراحت بھی کی۔
(صاع) غلہ نا پنے کا برتن ہوتا ہے۔جس میں چار مد ہوتے ہیں۔اور ایک مد متوسط ہاتھوں والے انسان کے دونوں ہاتھ ملا کر بھرنے کی مقدار کو کہتے ہیں۔اور اس سلسلے میں معیا ر اہل مدینہ کا ہی ناپ ہے۔ جیسے کہ حدیث میں ہے <حدیث>۔(الوزن وزن اهل مكة والميكال ميكال اهل المدينه)(سنن ابی دائود۔البیوع حدیث 3340) یعنی وزن اہل مکہ کا معتبر ہے۔اور کیل(کسی چیز کا بھر کر ماپ)اہل مدینہ کا اور یہ گزر چکا ہے کہ گند م کا ایک صاع کم وبیش ڈھائی کلو کے برابر ہوتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1611   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1825  
´صدقہ فطر کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور اور جو سے ایک ایک صاع صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: پھر لوگوں نے دو مد گیہوں کو ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو کے برابر کر لیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1825]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صاع ایک پیمانہ ہے جیسے ہمارے ہاں ٹوپہ ہوتا ہے۔
جو چیز عام خوراک کے طور پر استعمال ہوتی ہو اسے اس پیمانے سے ماپ کر صدقہ فطر ادا کرنا چاہیے۔

(2)
اس پیمانے کا اندازہ 5 اور 1/3 رطل، یعنی تقریبا ڈھائی کلو ہے اور بعض کے نزدیک 2100 گرام ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر نے اس اجتہاد سے اتفاق نہیں کیا کہ گندم کا نصف صاع کھجوروں کے ایک صاع کے برابر ہے۔
گندم کا آدھا صاع کافی ہونے کا قول حضرت معاویہ کا ہے جیسے کہ حدیث 1829 میں آ رہا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1825   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 505  
´صدقہ فطر کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے غلام، آزاد، مرد، عورت، بچے، بوڑھے سب پر صدقہ فطر واجب کیا ہے۔ ایک صاع (ٹوپا) کھجوروں سے یا ایک صاع جو سے اور اس کے متعلق حکم دیا ہے کہ یہ فطرانہ نماز کیلئے نکلنے سے پہلے ادا کر دیا جائے۔ (بخاری و مسلم) ابن عدی اور دارقطنی میں ضعیف سند سے ہے کہ اس روز غرباء کو در بدر پھرنے سے بے نیاز کر دو۔ [بلوغ المرام/حدیث: 505]
لغوی تشریح:
بَابُ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ رمضان کے اختتام پر فطرانہ دینا۔ امام قسطلانی رحمہ الله کے بقول فطرانے کی فرضیت رمضان المبارک میں عید سے صرف دو روز پہلے دو ہجری میں ہوئی۔ ٘فَرَضَ اسے واجب اور لازم قرار دیا گیا۔ یہ صدقۂ فطر (فطرانے) کے وجوب کی واضح دلیل ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ فَرَضَ قَدَرَ کے معنی میں استعمال ہوا ہے لیکن یہ ظاہر کے سراسر خلاف ہے۔
مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ یعنی کافروں میں سے نہ ہو، اس لیے کافر غلام کا صدقۂ فطر نہیں نکالا جاتا۔
أُغْنُوھُمْ إغناء سے امر کا صیغہ ہے۔ ضمیر جمع جو مفعول ہونے کی وجہ سے نصبی حالت میں ہے، فقراء کی طرف راجع ہے، یعنی ھم ضمیر سے مراد محتاج اور ضرورت مند لوگ ہیں۔
عَنِ الطَّوَافِ دست دراز سوال کرنے کے لیے گلی کوچوں اور بازاروں میں گھومنے پھرنے سے بے نیاز کر دیں اور لوگوں کے سامنے اپنی معاشی ضروریات طلب کرنے کے لیے ہاتھ پھیلانے سے روک دیں۔ یہ بے نیازی اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے کہ فطرانہ عید کی نماز ادا کرنے سے پہلے پہلے ادا کر دیا جائے۔

فوائد و مسائل 505: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فطرانہ مسلمانوں کے تمام افراد پر واجب ہے اور اس کی ادائیگی کا حکم بھی نماز سے پہلے پہلے ہے تاکہ معاشرے کے ضرورتمند افراد اس روز مانگنے سے بے نیاز ہو کر عام مسلمانوں کے ساتھ خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانے کی مقدار ایک صاع مقرر فرمائی ہے۔
➌ صدقۂ فطر میں نقدی ادا کرنے کا مؤقف بعض علماے کرام نے اپنایا ہے لیکن فرامینِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے اسوۂ حسنہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ صدقۂ فطر میں وہ جنس ادا کرنی چاہیے جو اہل خانہ کی عمومی غذا ہو، مثلاً: گندم، چاول اور کھجور وغیرہ۔
➍ غیرمسلم غلام کا فطرانہ نہیں، البتہ جن افراد کی کفالت کسی کے ذمہ ہو ان سب کا فطرانہ وہ خود ادا کرے گا۔
➎ حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صدقۂ فطرکے لیے نصاب کا مالک ہونا بھی ضروری نہیں۔
➏ فرض کا لفظ بتارہا ہے کہ فطرانہ ادا کرنا نہایت ضروری اور لازمی ہے۔ امام اسحٰق بن راہویہ رحمہ الله نے تو فطرانے کے وجوب پر اجماع کا دعوٰی کیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 505   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 676  
´صدقہ فطر کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو مسلمانوں میں سے ہر آزاد اور غلام، مرد اور عورت پر فرض کیا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 676]
اردو حاشہ: 1؎:
اس روایت میں لفظ ((فَرَضَ)) استعمال ہوا ہے جس کے معنی فرض اور لازم ہونے کے ہیں،
اس سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر فرض ہے بعض لوگوں نے((فَرَضَ)) کو قَدَّرَ کے معنی میں لیا ہے لیکن یہ ظاہر کے سراسر خلاف ہے۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ روایت میں ((مِنْ الْمُسْلِمِينَ)) کی قید اتفاقی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 676   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.