الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
Marriage (Kitab Al-Nikah)
39. باب فِي الْقَسْمِ بَيْنَ النِّسَاءِ
39. باب: عورتوں کے درمیان باری مقرر کرنے کا بیان۔
Chapter: Dividing (Fairly) Between One’s Wives.
حدیث نمبر: 2134
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن عبد الله بن يزيد الخطمي، عن عائشة، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقسم فيعدل، ويقول:" اللهم هذا قسمي فيما املك، فلا تلمني فيما تملك ولا املك". قال ابو داود: يعني القلب.
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْخَطْمِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ فَيَعْدِلُ، وَيَقُولُ:" اللَّهُمَّ هَذَا قَسْمِي فِيمَا أَمْلِكُ، فَلَا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلَا أَمْلِكُ". قال أَبُو دَاوُدَ: يَعْنِي الْقَلْبَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی بیویوں کی) باری مقرر فرماتے تھے اور اس میں انصاف سے کام لیتے تھے، پھر یہ دعا فرماتے تھے: اے اللہ! یہ میری تقسیم ان چیزوں میں ہے جو میرے بس میں ہے، رہی وہ بات جو میرے بس سے باہر ہے اور تیرے بس میں ہے (یعنی دل کا میلان) تو تو مجھے اس کی وجہ سے ملامت نہ فرمانا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/النکاح 41 (1140)، سنن النسائی/عشرة النساء 2 (3395)، سنن ابن ماجہ/النکاح 47 (1971)، (تحفة الأشراف: 16290)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/144)، سنن الدارمی/النکاح 25 (2253) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (حماد بن زید اور دوسرے زیادہ ثقہ رواة نے اس کو «عن ابی قلابة عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم» مرسلا روایت کیا ہے)

Narrated Aishah, Ummul Muminin: The Messenger of Allah ﷺ used to divide his time equally and said: O Allah, this is my division concerning what I control, so do not blame me concerning what You control and I do not. Abu Dawud said: By it meant the heart.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2129


قال الشيخ الألباني: ضعيف يعني القلب

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
مشكوة المصابيح (3235)
أخرجه الترمذي (1140 وسنده صحيح) والنسائي (3395 وسنده صحيح) وابن ماجه (1971 وسنده صحيح) أبو قلابة برئ من التدليس وباقي السند صحيح
   سنن النسائى الصغرى3395عائشة بنت عبد اللهاللهم هذا فعلي فيما أملك فلا تلمني فيما تملك ولا أملك
   جامع الترمذي1140عائشة بنت عبد اللهاللهم هذه قسمتي فيما أملك فلا تلمني فيما تملك ولا أملك
   سنن أبي داود2134عائشة بنت عبد اللهاللهم هذا قسمي فيما أملك فلا تلمني فيما تملك ولا أملك
   سنن ابن ماجه1971عائشة بنت عبد اللهاللهم هذا فعلي فيما أملك فلا تلمني فيما تملك ولا أملك
   بلوغ المرام905عائشة بنت عبد الله اللهم هذا قسمي فيما أملك ،‏‏‏‏ فلا تلمني فيما تملك ،‏‏‏‏ ولا أملك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 905  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے درمیان باری تقسیم کرتے تھے اور عدل و انصاف کو ملحوظ رکھتے تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرتے تھے الٰہی! جو میرے بس میں ہے اس کے مطابق میں نے یہ تقسیم کی ہے اور جو میرے بس میں نہیں، تیرے اختیار میں ہے، اس میں مجھے ملامت نہ کرنا۔ اسے چاروں نے روایت کی ہے اور ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے، لیکن ترمذی نے اس روایت کے مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 905»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، النكاح، باب في القسم بين النساء، حديث:2134، والترمذي، النكاح، حديث:1140، والنسائي، عشرة النساء، حديث:3395، وابن ماجه، النكاح، حديث:1971، وابن حبان(الموارد)، حديث:1305، والحاكم:2 /187 وصححه علي شرط مسلم، ووافقه الذهبي.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنی بیویوں کے درمیان عدل و انصاف قائم رکھنا چاہیے‘ البتہ دلی میلان اگر کسی کی طرف زیادہ ہو تو اس میں کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا‘ کیونکہ عورتیں سیرت و کردار‘ اخلاق‘ حسن و جمال اور عادات و خصائل کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔
جس عورت میں حسن و جمال ‘ اخلاق و اوصاف اور شوہر کی فرمانبرداری کی خصوصیت زیادہ ہوگی‘ شوہر کا میلان قدرتی طور پر اس کی جانب زیادہ ہوگا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 905   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1140  
´سوکنوں کے درمیان باری کی تقسیم میں برابری کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے درمیان باری تقسیم کرتے ہوئے فرماتے: اے اللہ! یہ میری تقسیم ہے جس پر میں قدرت رکھتا ہوں، لیکن جس کی قدرت تو رکھتا ہے، میں نہیں رکھتا، اس کے بارے میں مجھے ملامت نہ کرنا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1140]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(حماد بن زید اوردیگر زیادہ ثقہ رواۃ نے اس کو ایوب سے «عن أبي قلابة عن النبي ﷺ» مرسلاً بیان کیا ہے،
لیکن حدیث کا پہلا جزء  «اللهم هذا قسمي فيما أملك» حسن ہے،
تراجع الالبانی 346)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1140   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2134  
´عورتوں کے درمیان باری مقرر کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی بیویوں کی) باری مقرر فرماتے تھے اور اس میں انصاف سے کام لیتے تھے، پھر یہ دعا فرماتے تھے: اے اللہ! یہ میری تقسیم ان چیزوں میں ہے جو میرے بس میں ہے، رہی وہ بات جو میرے بس سے باہر ہے اور تیرے بس میں ہے (یعنی دل کا میلان) تو تو مجھے اس کی وجہ سے ملامت نہ فرمانا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2134]
فوائد ومسائل:
مطلب یہ ہے کہ معاشرتی برتاؤ میں میں کوتاہی نہیں کرتا، لیکن دل کا معاملہ میرے اختیار میں نہیں۔
اس لیے قلبی محبت میں کمی بیشی پر مجھے ملامت نہ کرنا۔
اس سے معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنےوالا اگر ظاہری برتاؤ میں عدل وانصاف کا اہتمام کرتا رہے گا تو قلبی میلان کی کمی پیشی پر اس کی گرفت نہیں ہو گی۔
واللہ اعلم
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2134   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.