الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
The Book of Hajj
34. بَابُ التَّمَتُّعِ وَالإِقْرَانِ وَالإِفْرَادِ بِالْحَجِّ، وَفَسْخِ الْحَجِّ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ:
34. باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔
(34) Chapter.What is said regarding Hajj-at-Tamattu, Hajj-al-Qiran and Hajj-al-Ifrad. And whoever has not brought the Hady with him, he should finish the Ihram of Hajj, and make it as Umra, ( and then assume another Ihram for Hajj form Makkah, etc.).
حدیث نمبر: 1564
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا وهيب، حدثنا ابن طاوس، عن ابيه، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" كانوا يرون ان العمرة في اشهر الحج من افجر الفجور في الارض، ويجعلون المحرم صفرا، ويقولون: إذا برا الدبر وعفا الاثر وانسلخ صفر حلت العمرة لمن اعتمر، قدم النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه صبيحة رابعة مهلين بالحج فامرهم ان يجعلوها عمرة فتعاظم ذلك عندهم، فقالوا: يا رسول الله، اي الحل؟ , قال: حل كله".حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانُوا يَرَوْنَ أَنَّ الْعُمْرَةَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ مِنْ أَفْجَرِ الْفُجُورِ فِي الْأَرْضِ، وَيَجْعَلُونَ الْمُحَرَّمَ صَفَرًا، وَيَقُولُونَ: إِذَا بَرَا الدَّبَرْ وَعَفَا الْأَثَرْ وَانْسَلَخَ صَفَرْ حَلَّتِ الْعُمْرَةُ لِمَنِ اعْتَمَرْ، قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ صَبِيحَةَ رَابِعَةٍ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً فَتَعَاظَمَ ذَلِكَ عِنْدَهُمْ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْحِلِّ؟ , قَالَ: حِلٌّ كُلُّهُ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ عرب سمجھتے تھے کہ حج کے دنوں میں عمرہ کرنا روئے زمین پر سب سے بڑا گناہ ہے۔ یہ لوگ محرم کو صفر بنا لیتے اور کہتے کہ جب اونٹ کی پیٹھ سستا لے اور اس پر خوب بال اگ جائیں اور صفر کا مہینہ ختم ہو جائے (یعنی حج کے ایام گزر جائیں) تو عمرہ حلال ہوتا ہے۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ چوتھی کی صبح کو حج کا احرام باندھے ہوئے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ اپنے حج کو عمرہ بنا لیں، یہ حکم (عرب کے پرانے رواج کی بنا پر) عام صحابہ پر بڑا بھاری گزرا۔ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ! عمرہ کر کے ہمارے لیے کیا چیز حلال ہو گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام چیزیں حلال ہو جائیں گی۔

Narrated Ibn `Abbas: The people (of the Pre-Islamic Period) used to think that to perform `Umra during the months of Hajj was one of the major sins on earth. And also used to consider the month of Safar as a forbidden (i.e. sacred) month and they used to say, "When the wounds of the camel's back heal up (after they return from Hajj) and the signs of those wounds vanish and the month of Safar passes away then (at that time) `Umra is permissible for the one who wishes to perform it." In the morning of the 4th of Dhul- Hijja, the Prophet and his companions reached Mecca, assuming Ihram for Hajj and he ordered his companions to make their intentions of the Ihram for `Umra only (instead of Hajj) so they considered his order as something great and were puzzled, and said, "O Allah's Apostle! What kind (of finishing) of Ihram is allowed?" The Prophet replied, "Finish the Ihram completely like a non-Muhrim (you are allowed everything)."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 635

   صحيح البخاري3832عبد الله بن عباسأمرهم النبي أن يجعلوها عمرة قالوا يا رسول الله أي الحل قال الحل كله
   صحيح البخاري1564عبد الله بن عباسأمرهم أن يجعلوها عمرة فتعاظم ذلك عندهم فقالوا يا رسول الله أي الحل قال حل كله
   صحيح البخاري1731عبد الله بن عباسأن يطوفوا بالبيت وبالصفا و المروة ثم يحلوا ويحلقوا أو يقصروا
   صحيح مسلم3010عبد الله بن عباسمن شاء أن يجعلها عمرة فليجعلها عمرة
   صحيح مسلم3007عبد الله بن عباسأهل النبي بعمرة وأهل أصحابه بحج لم يحل النبي ولا من ساق الهدي من أصحابه وحل بقيتهم فكان طلحة بن عبيد الله فيمن ساق الهدي فلم يحل
   صحيح مسلم3012عبد الله بن عباسيلبون بالحج فأمرهم أن يجعلوها عمرة
   صحيح مسلم3009عبد الله بن عباسأمرهم أن يجعلوها عمرة فتعاظم ذلك عندهم فقالوا يا رسول الله أي الحل قال الحل كله
   صحيح مسلم3013عبد الله بن عباسصلى رسول الله الصبح بذي طوى وقدم لأربع مضين من ذي الحجة وأمر أصحابه أن يحولوا إحرامهم بعمرة إلا من كان معه الهدي
   سنن أبي داود1804عبد الله بن عباسأهل النبي بعمرة وأهل أصحابه بحج
   سنن أبي داود1791عبد الله بن عباسأهل الرجل بالحج ثم قدم مكة فطاف بالبيت و بالصفا
   سنن أبي داود1792عبد الله بن عباسأهل النبي بالحج فلما قدم طاف بالبيت
   سنن النسائى الصغرى2816عبد الله بن عباسأهل رسول الله بالعمرة وأهل أصحابه بالحج وأمر من لم يكن معه الهدي أن يحل وكان فيمن لم يكن معه الهدي طلحة بن عبيد الله ورجل آخر فأحلا
   سنن النسائى الصغرى2815عبد الله بن عباسأمرهم أن يجعلوها عمرة فتعاظم ذلك عندهم فقالوا يا رسول الله أي الحل قال الحل كله
   سنن النسائى الصغرى2873عبد الله بن عباسأمرهم رسول الله أن يحلوا
   سنن النسائى الصغرى2737عبد الله بن عباسأنهاكم عن المتعة وإنها لفي كتاب الله ولقد فعلها رسول الله
   سنن النسائى الصغرى2874عبد الله بن عباسمن شاء أن يجعلها عمرة فليفعل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1804  
´حج قران کا بیان۔`
مسلم قری سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کا تلبیہ پکارا اور آپ کے صحابہ کرام نے حج کا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1804]
1804. اردو حاشیہ: حج قران کے لیے تلبیہ میں یہ جائز ہے کہ کسی وقت «لبیک بحجة» ‏‏‏‏ کہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1804   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1564  
1564. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: لوگ سمجھتے تھے کہ حج کے زمانے میں عمرہ کرنا اس زمین پر بدترین گناہ ہے۔ اور وہ (اپنی طرف سے) ماہ محرم کو صفر بنا لیتے اور کہتے کہ جب اونٹ کی پیٹھ کازخم اچھاہوکر اس کا نشان مٹ جائے اورصفر گزر جائے تو اس وقت عمرہ حلال ہے اس شخص کے لیے جو عمرہ کرنا چاہے۔ جب رسول اللہ ﷺ آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین چار ذوالحجہ کی صبح کو حج کا احرام باندھے ہوئے مکہ پہنچے تو آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ وہ اس حرام کو ختم کرکے اس کے بجائے عمرے کا احرام باندھ لیں۔ یہ بات ان پر بہت گراں گزری اور کہنے لگے: اللہ کے رسول ﷺ!عمرہ کرکے ہمارے لیے کیا چیز حلال ہوگی؟آپ نے فرمایا: سب چیزیں حلال ہوں گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1564]
حدیث حاشیہ:
ہر آدمی کے دل میں قدیمی رسم ورواج کا بڑا اثر رہتا ہے۔
جاہلیت کے زمانہ سے ان کا یہ اعتقاد چلا آتا تھا کہ حج کے دنوں میں عمرہ کرنا بڑا گناہ ہے، اسی وجہ سے آپ کا یہ حکم ان پر گراں گزرا۔
ایمان افروز تقریر! حدیث ہذا کے ذیل حضرت مولانا وحید الزمان صاحب مرحوم نے ایک ایمان افروز تقریر حوالہ قرطاس فرمائی ہے جو اہل بصیرت کے مطالعہ کے قابل ہے۔
صحابہ کرام نے کہا یا رسول اللہ أي الحل قال حل کله یعنی یا رسول اللہ! عمرہ کرکے ہم کو کیا چیز حلال ہوگی۔
آپ نے فرمایا سب چیزیں یعنی جتنی چیزیں احرام میں منع تھیں وہ سب درست ہوجائیں گی۔
انہوں نے یہ خیال کیا کہ شاید عورتوں سے جماع درست نہ ہو۔
جیسے رمی اور حلق اور قربانی کے بعد سب چیزیں درست ہوجاتی ہیں لیکن جماع درست نہیں ہوتا جب تک طواف الزیارۃ نہ کرے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں عورتیں بھی درست ہوجائیں گی۔
دوسری روایت میں ہے کہ بعضے صحابہ کو اس میں تامل ہوا اور ان میں سے بعضوں نے یہ بھی کہا کہ کیا ہم حج کو اس حال میں جائیں کہ ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہو۔
آنحضرت ﷺ کو ان کا یہ حال دیکھ کر سخت ملال ہوا کہ میں حکم دیتا ہوں اور یہ اس کی تعمیل میں تامل کرتے ہیں اور چہ میگوئیاں نکالتے ہیں۔
لیکن جو صحابہ قوی الایمان تھے انہوں نے فوراً آنحضرت ﷺ کے ارشاد پر عمل کیا اور عمرہ کرکے احرام کھول ڈالا۔
پیغمبر ﷺ جو کچھ حکم دیں وہیں اللہ کا حکم ہے اور یہ ساری محنت اور مشقت اٹھانے سے غرض کیا ہے۔
اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی۔
عمرہ کرکے احرام کھول ڈالنا تو کیا چیز ہے۔
آپ جو بھی حکم فرمائیں اس کی تعمیل ہمارے لیے عین سعادت ہے۔
جو حکم آپ دیں اسی میں اللہ کی مرضی ہے گو سارا زمانہ اس کے خلاف بکتا رہے۔
ان کا قول اور خیال ان کو مبارک رہے۔
ہم کو مرتے ہی اپنے پیغمبر ﷺ کے ساتھ رہنا ہے۔
اگر بالفرض دوسرے مجتہد یا امام یا پیرومرشد درویش قطب پیغمبر ؑ کی پیروی کرنے میں ہم سے خفا ہوجائیں تو ہم کو ان کی خفگی کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہے۔
ہم کو قیامت میں ہمارے پیغمبر کا سایہ عاطفت بس کرتا ہے۔
سارے ولی اور درویش اور غوث اور قطب اور مجتہد اور امام اس بارگاہ کے ایک ادنیٰ کفش بردار ہیں۔
کفش برداروں کو راضی رکھیں یا اپنے سردار کو اللهم صل علی محمد وعلی آل محمد وعلی أصحابه وارزقنا شفاعته یوم القیامة واحشرنا في زمرة أتباعه وثبتنا علی متابعته والعمل بسنته امین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1564   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1564  
1564. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: لوگ سمجھتے تھے کہ حج کے زمانے میں عمرہ کرنا اس زمین پر بدترین گناہ ہے۔ اور وہ (اپنی طرف سے) ماہ محرم کو صفر بنا لیتے اور کہتے کہ جب اونٹ کی پیٹھ کازخم اچھاہوکر اس کا نشان مٹ جائے اورصفر گزر جائے تو اس وقت عمرہ حلال ہے اس شخص کے لیے جو عمرہ کرنا چاہے۔ جب رسول اللہ ﷺ آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین چار ذوالحجہ کی صبح کو حج کا احرام باندھے ہوئے مکہ پہنچے تو آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ وہ اس حرام کو ختم کرکے اس کے بجائے عمرے کا احرام باندھ لیں۔ یہ بات ان پر بہت گراں گزری اور کہنے لگے: اللہ کے رسول ﷺ!عمرہ کرکے ہمارے لیے کیا چیز حلال ہوگی؟آپ نے فرمایا: سب چیزیں حلال ہوں گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1564]
حدیث حاشیہ:
(1)
دورِ جاہلیت میں جنگل کا قانون رائج تھا۔
ہر طرف تحکم اور سینہ زوری تھی۔
اپنی مرضی کو قانون کا درجہ دے لیتے تھے۔
ان کالے قوانین میں ایک قانون یہ تھا کہ وہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو بدترین گناہ خیال کرتے تھے، پھر اپنی مرضی سے مہینوں کو آگے پیچھے بھی کرتے، مثلا:
محرم کو صفر قرار دے کر اس میں لوٹ مار کا بازار گرم کرتے۔
حضرت ابن عباس ؓ نے دور جاہلیت کی اندھیر نگری کو آغاز حدیث میں بیان کیا ہے۔
وہ کہتے تھے کہ حج کے بعد عمرہ کرنے کے لیے اتنا وقفہ ہونا چاہیے کہ حج پر کٹے ہوئے اونٹوں کے زخم درست ہو جائیں اور زخموں كے نشانات مٹ کر ان پر اون وغیرہ آ جائے اور صفر کا مہینہ گزر جائے۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو اسی عقیدے کی تردید کے لیے ماہ ذوالحجہ میں عمرہ کرایا تھا، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:
اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو ماہ ذوالحجہ میں عمرہ کرنے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ قریش اور ان کے مسلک پر چلنے والوں کے اس عقیدے کی تردید ہو کہ اس مہینے میں عمرہ کرنا گناہ ہے۔
(صحیح ابن حبان: 31/7) (2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ؓ نے صحابہ کرام ؓ کو حج کا احرام عمرے میں تبدیل کرنے کا حکم دیا۔
اس سے مقصود بھی دور جاہلیت میں رائج اعتقاد فاسد کی تردید تھا۔
چونکہ حج میں دو قسم کی حلت تھی:
ایک حلت صغریٰ کہ دسویں تاریخ کو رمی کرنے کے بعد آدمی محدود پیمانے پر احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو جاتا تھا، یعنی بیوی سے جماع کے علاوہ ہر قسم کی پابندی سے آزاد ہو جاتا، دوسری حلت کبریٰ، طواف افاضہ کرنے کے بعد حاصل ہوتی کہ اس میں بیوی سے جماع بھی کیا جا سکتا تھا۔
جب رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام کو حج کا احرام ختم کر کے عمرے کا احرام باندھنے کے متعلق حکم دیا تو انہوں نے سوال کیا کہ عمرے سے فراغت کے بعد کس قسم کی حلت سے واسطہ پڑے گا؟ آپ نے وضاحت فرمائی کہ فراغت کے بعد تمہارے لیے ہر چیز حلال ہو گئی حتی کہ تم اپنی بیویوں سے جماع بھی کر سکو گے۔
چونکہ صحابہ کرام ؓ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے سے مانوس نہ تھے، اس لیے انہیں وقتی طور پر یہ بات بہت گراں محسوس ہوئی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1564   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.