الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: جہاد کے مسائل
Jihad (Kitab Al-Jihad)
160. باب فِي النَّفْلِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَمِنْ أَوَّلِ مَغْنَمٍ
160. باب: سونے، چاندی اور مال غنیمت سے نفل (انعام) دینے کا بیان۔
Chapter: Regarding The Nafl Of Gold And Silver, And From The Spoils Gained In The Beginning (Of The Battle).
حدیث نمبر: 2753
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا ابو صالح محبوب بن موسى، اخبرنا ابو إسحاق الفزاري، عن عاصم بن كليب، عن ابي الجويرية الجرمي، قال: اصبت بارض الروم جرة حمراء فيها دنانير، في إمرة معاوية وعلينا رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم من بني سليم يقال له معن بن يزيد، فاتيته بها فقسمها بين المسلمين واعطاني منها مثل ما اعطى رجلا منهم، ثم قال: لولا اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لا نفل إلا بعد الخمس لاعطيتك"، ثم اخذ يعرض علي من نصيبه فابيت.
حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاق الْفَزَارِيُّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِي الْجُوَيْرِيَةِ الْجَرْمِيِّ، قَالَ: أَصَبْتُ بِأَرْضِ الرُّومِ جَرَّةً حَمْرَاءَ فِيهَا دَنَانِيرُ، فِي إِمْرَةِ مُعَاوِيَةَ وَعَلَيْنَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ يُقَالُ لَهُ مَعْنُ بْنُ يَزِيدَ، فَأَتَيْتُهُ بِهَا فَقَسَمَهَا بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ وَأَعْطَانِي مِنْهَا مِثْلَ مَا أَعْطَى رَجُلًا مِنْهُمْ، ثُمَّ قَالَ: لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا نَفْلَ إِلَّا بَعْدَ الْخُمُسِ لَأَعْطَيْتُكَ"، ثُمَّ أَخَذَ يَعْرِضُ عَلَيَّ مِنْ نَصِيبِهِ فَأَبَيْتُ.
ابو جویریہ جرمی کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں روم کی سر زمین میں مجھے ایک سرخ رنگ کا گھڑا ملا جس میں دینار تھے ۱؎، اس وقت قبیلہ بنو سلیم کے ایک شخص جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے، ہمارے اوپر حاکم تھے، ان کو معن بن یزید کہا جاتا تھا، میں اسے ان کے پاس لایا، انہوں نے ان دیناروں کو مسلمانوں میں بانٹ دیا اور مجھ کو اس میں سے اتنا ہی دیا جتنا ہر شخص کو دیا، پھر کہا: اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہتے سنا نہ ہوتا کہ نفل خمس ۲؎ نکالنے کے بعد ہی ہے تو میں تمہیں اوروں سے زیادہ دیتا، پھر وہ اپنے حصہ سے مجھے دینے لگے تو میں نے لینے سے انکار کیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11484)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/470) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: دشمن سے جو مال جہاد میں حاصل ہوتا ہے اسے غنیمت کہتے ہیں، غنیمت میں چار حصے غازیوں میں تقسیم کئے جاتے ہیں، اور ایک حصہ امام رکھ لیتا ہے، امام کو اختیار ہے کہ لشکر میں سے کسی خاص جماعت یا کسی خاص شخص کو کسی خاص کام کے سلسلے میں بطور انعام کچھ زیادہ دے دے، اسے نفل کہتے ہیں، یہ لشکر جو نجد کی طرف گیا تھا اس میں چار ہزار آدمی تھے، ہر ایک کے حصہ میں بارہ اونٹ آئے، لیکن پندرہ آدمیوں کی ایک ٹکڑی کو جن میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تھے، ایک ایک اونٹ بطور نفل زیادہ دیا۔
۲؎: یہ غنیمت کا مال نہیں ہے جسے کافروں سے لڑ کر چھینا گیا ہو، بلکہ یہ فیٔ کا مال ہے جس میں خمس نہیں ہوتا لہٰذا اس میں نفل بھی نہیں ہو گا۔

Narrated Maan ibn Yazid: AbulJuwayriyyah al-Jarmi said: I found a red pitcher containing dinars in Byzantine territory during the reign of Muawiyah. A man from the Companions of the Prophet ﷺ belonging to Banu Sulaym was our ruler. He was called Maan ibn Yazid. I brought it to him. He apportioned it among the Muslims. He gave me the same portion which he gave to one of them. He then said: Had I not heard the Messenger of Allah ﷺ say: There is no reward except after taking the fifth (from the booty), I would have given you (the reward). He then presented his own share to me, but I refused.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2747


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
مشكوة المصابيح (4009)
   سنن أبي داود2753معن بن يزيدلا نفل إلا بعد الخمس لأعطيتك
   بلوغ المرام1111معن بن يزيد لا نفل إلا بعد الخمس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1111  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا معن بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے حصہ سے اضافی طور پر جو کچھ دیا جائے گا وہ پانچواں حصہ نکال کر دیا جائے۔ اسے احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور طحاوی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1111»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في النفل من الذهب والفضة ومن أول مغنم، حديث:2753، وأحمد:3 /470.»
تشریح:
1. یہاں دو مسئلے قابل غور ہیں: پہلا یہ کہ یہ اضافی اور زائد حصہ اصل مال غنیمت میں سے دیا جائے گا یا خمس میں سے؟ اس حدیث میں ان دونوں باتوں میں سے کسی کی صراحت نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ نفل (زائد حصہ) دینے سے پہلے غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔
جبکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نفل خواہ اصل غنیمت سے دیا جائے یا خمس سے‘ دونوں طرح جائز ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کیا نفل، خمس سے پہلے دینا جائز ہے یا نہیں؟ اس حدیث کے ظاہر سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی جواز نہیں لیکن حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی سابقہ حدیث (۱۱۰۹) کے ایک دوسرے طریق سے ثابت الفاظ اس کے جواز پر دلالت کرتے ہیں۔
2. اس روایت میں یہ صراحت ہے کہ نجد کی جانب بھیجے جانے والے مجاہدین کو خمس نکالنے سے پہلے نفل دیا گیا تھا۔
ملاحظہ ہو: (سنن أبي داود مع شرح عون المعبود:۳ /۲۲) لہٰذا اس حدیث میں موجود نہی کا ظاہری مفہوم مراد نہیں بلکہ نہی تنزیہی ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت معن بن یزید رضی اللہ عنہما» ‏‏‏‏ معن بن یزید بن اخنس سلمی۔
خود بھی صحابی اور باپ بھی صحابی ہیں۔
فتح دمشق میں یہ بھی حاضر تھے۔
کوفہ میں رہائش اختیار کی‘ پھر مصر میں آئے‘ بعد میں پھر دمشق میں منتقل ہو گئے۔
مرج راہط کی جنگ میں ضحاک بن قیس کے ساتھ ۶۴ ہجری میں شامل ہوئے اور شہید ہو گئے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی لڑائیوں میں شریک رہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1111   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2753  
´سونے، چاندی اور مال غنیمت سے نفل (انعام) دینے کا بیان۔`
ابو جویریہ جرمی کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں روم کی سر زمین میں مجھے ایک سرخ رنگ کا گھڑا ملا جس میں دینار تھے ۱؎، اس وقت قبیلہ بنو سلیم کے ایک شخص جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے، ہمارے اوپر حاکم تھے، ان کو معن بن یزید کہا جاتا تھا، میں اسے ان کے پاس لایا، انہوں نے ان دیناروں کو مسلمانوں میں بانٹ دیا اور مجھ کو اس میں سے اتنا ہی دیا جتنا ہر شخص کو دیا، پھر کہا: اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہتے سنا نہ ہوتا کہ نفل خمس ۲؎ نکالنے کے بعد ہی ہے تو میں تمہیں اوروں سے زیادہ دیتا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2753]
فوائد ومسائل:

چونکہ یہ مال دارالحرب سے بغیر کسی آویزش کے حاصل ہوا تھا اور ایسے مال میں خمس ہوتا ہے نہ نفل۔
کیونکہ خمس اور نفل (اضافی انعام) دونوں ہی قتال سے حاصل ہونے والے مال میں ہوتے ہیں۔
اور یہ گھڑا ویسے ہی ملا تھا۔
اس لئے اس میں سبھی مجاہدین کو برابر کے حصے دیئے۔


اس میں مسئلۃ الباب کا اثبات تو میں تمھیں بھی دیتا سے ہوتا ہے۔
یعنی ان دیناروں میں سے تجھے نفل دیتا۔
اور دینار سونے کا ہوتا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2753   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.