الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: وصیت کے احکام و مسائل
Wills (Kitab Al-Wasaya)
17. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَمُوتُ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ وَلَهُ وَفَاءٌ يُسْتَنْظَرُ غُرَمَاؤُهُ وَيُرْفَقُ بِالْوَارِثِ
17. باب: مال چھوڑ کر مرنے والے قرضدار کے وارث کو قرض خواہوں سے مہلت دلانا اور اس کے ساتھ نرمی کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About A Man Who Dies And Leaves Behind A Debt, And He Has What Will Fulfill The Debt, The Creditors Will Be Asked To Defer Repayment For A While, And The Heirs Should Be Treated With Leniency.
حدیث نمبر: 2884
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا محمد بن العلاء، ان شعيب بن إسحاق حدثهم، عن هشام بن عروة، عن وهب بن كيسان، عن جابر بن عبد الله، انه اخبره:ان اباه توفي وترك عليه ثلاثين وسقا لرجل من يهود فاستنظره جابر، فابى فكلم جابر النبي صلى الله عليه وسلم ان يشفع له إليه، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وكلم اليهودي لياخذ ثمر نخله بالذي له عليه فابى عليه، وكلمه رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ينظره فابى، وساق الحديث.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، أَنَّ شُعَيْبَ بْنَ إِسْحَاق حَدَّثَهُمْ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ:أَنَّ أَبَاهُ تُوُفِّيَ وَتَرَكَ عَلَيْهِ ثَلَاثِينَ وَسْقًا لِرَجُلٍ مِنْ يَهُودَ فَاسْتَنْظَرَهُ جَابِرٌ، فَأَبَى فَكَلَّمَ جَابِرٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَشْفَعَ لَهُ إِلَيْهِ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَلَّمَ الْيَهُودِيَّ لِيَأْخُذَ ثَمَرَ نَخْلِهِ بِالَّذِي لَهُ عَلَيْهِ فَأَبَى عَلَيْهِ، وَكَلَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُنْظِرَهُ فَأَبَى، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کے والد انتقال کر گئے اور اپنے ذمہ ایک یہودی کا تیس وسق کھجور کا قرضہ چھوڑ گئے، جابر رضی اللہ عنہ نے اس سے مہلت مانگی تو اس نے (مہلت دینے سے) انکار کر دیا، تو آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی کہ آپ چل کر اس سے سفارش کر دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور یہودی سے بات کی کہ وہ (اپنے قرض کے بدلے میں) ان کے کھجور کے باغ میں جتنے پھل ہیں لے لے لیکن اس نے انکار کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: اچھا جابر کو مہلت دے دو، اس نے اس سے بھی انکار کیا، اور راوی نے پوری حدیث بیان کی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/البیوع 51 (2127)، الاستقراض 8 (2395)، 9 (2396)، 18 (2405)، الھبة 21 (2601)، الصلح 13 (2709)، الوصایا 36 (2781)، المناقب 25 (3580)، المغازي 18 (4053)، سنن النسائی/الوصایا 4 (3670)، سنن ابن ماجہ/الصدقات 20 (2434)، (تحفة الأشراف:3126) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے جابر رضی اللہ عنہ کے باغ کے کھجوروں کو قرض خواہوں کے مابین تقسیم کرنا شروع کر دیا، بفضل الٰہی سب کا قرضہ اداء ہو گیا اور کھجوروں کا ڈھیر ویسا ہی رہا، یہ آپ کا معجزہ تھا۔

Narrated Jabir bin Abdullah: That his father died and left a debt of thirty wasqs of a Jew on him. Jabir asked him to defer, but he refused. Jabir then spoke to the Messenger of Allah ﷺ asking him to mediate to him on his behalf. The Messenger of Allah ﷺ came to the Jew and spoke to him about taking fruit-dates in lieu of the debt that was on him. But he refused. The Messenger of Allah ﷺ asked him to defer (the debt) to him, but he refused. He then narrated the rest of the tradition.
USC-MSA web (English) Reference: Book 17 , Number 2878


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2396)
   صحيح البخاري4053جابر بن عبد اللهوالدي قد استشهد يوم أحد وترك دينا كثيرا وإني أحب أن يراك الغرماء فقال اذهب فبيدر كل تمر على ناحية ففعلت ثم دعوته فلما نظروا إليه كأنهم أغروا بي تلك الساعة فلما رأى ما يصنعون أطاف حول أعظمها بيدرا ثلاث مرات ثم جلس عليه ثم قال ادع لي أصحابك
   صحيح البخاري2395جابر بن عبد اللهأباه قتل يوم أحد شهيدا وعليه دين فاشتد الغرماء في حقوقهم فأتيت النبي فسألهم أن يقبلوا تمر حائطي ويحللوا أبي فأبوا فلم يعطهم النبي حائطي وقال سنغدو عليك فغدا علينا حين أصبح فطاف في النخل ودعا في ثمرها بالبركة فجددت
   صحيح البخاري5443جابر بن عبد اللهامشوا نستنظر لجابر من اليهودي فجاءوني في نخلي فجعل النبي يكلم اليهودي فيقول أبا القاسم لا أنظره فلما رأى النبي قام فطاف في النخل ثم جاءه فكلمه فأبى فقمت فجئت بقليل رطب فوضعته بين يدي النبي فأكل ثم
   صحيح البخاري2781جابر بن عبد اللهوالدي استشهد يوم أحد وترك عليه دينا كثيرا وإني أحب أن يراك الغرماء قال اذهب فبيدر كل تمر على ناحيته ففعلت ثم دعوته
   صحيح البخاري2601جابر بن عبد اللهأباه قتل يوم أحد شهيدا فاشتد الغرماء في حقوقهم فأتيت رسول الله فكلمته فسألهم أن يقبلوا ثمر حائطي ويحللوا أبي فأبوا فلم يعطهم رسول الله حائطي ولم يكسره لهم ولكن قال سأغدو عليك إن شاء الله فغدا علينا حين أصبح
   صحيح البخاري2709جابر بن عبد اللهتوفي أبي وعليه دين فعرضت على غرمائه أن يأخذوا التمر
   صحيح البخاري2396جابر بن عبد اللهأباه توفي وترك عليه ثلاثين وسقا لرجل من اليهود فاستنظره جابر فأبى أن ينظره فكلم جابر رسول الله ليشفع له إليه فجاء رسول الله وكلم اليهودي ليأخذ ثمر نخله بالذي له فأبى فدخل رسول الله النخل فمشى فيها ثم قال لجابر جد له فأوف له الذي له فجده بعدما رجع رسول الل
   سنن أبي داود2884جابر بن عبد اللهأباه توفي وترك عليه ثلاثين وسقا لرجل من يهود فاستنظره جابر فأبى فكلم جابر النبي أن يشفع له إليه فجاء رسول الله وكلم اليهودي ليأخذ ثمر نخله بالذي له عليه فأبى عليه وكلمه رسول الله أن ينظره فأبى
   سنن النسائى الصغرى3670جابر بن عبد اللهتوفي أبي وعليه دين فعرضت على غرمائه أن يأخذوا الثمرة بما عليه فأبوا ولم يروا فيه وفاء فأتيت رسول الله فذكرت ذلك له قال إذا جددته فوضعته في المربد فآذني فلما جددته ووضعته في المربد أتيت رسول الله فجاء ومعه أبو بكر وعمر فجلس عليه ودعا بالبركة ثم قال ادع غرم
   سنن النسائى الصغرى3666جابر بن عبد اللهوالدي استشهد يوم أحد وترك دينا كثيرا وإني أحب أن يراك الغرماء قال اذهب فبيدر كل تمر على ناحية ففعلت ثم دعوته فلما نظروا إليه كأنما أغروا بي تلك الساعة فلما رأى ما يصنعون أطاف حول أعظمها بيدرا ثلاث مرات ثم جلس عليه ثم قال ادع أصحابك فما زال يكيل لهم حتى أد
   سنن ابن ماجه2434جابر بن عبد اللهجد له فأوفه الذي له فجد له بعد ما رجع رسول الله ثلاثين وسقا وفضل له اثنا عشر وسقا فجاء جابر رسول الله ليخبره بالذي كان فوجد رسول الله غائبا فلما انصرف رسول الله جاءه فأخبره أنه قد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2434  
´میت کی طرف سے قرض ادا کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد وفات پا گئے، اور اپنے اوپر ایک یہودی کے تیس وسق کھجور قرض چھوڑ گئے، جابر رضی اللہ عنہ نے اس یہودی سے مہلت مانگی لیکن اس نے انہیں مہلت دینے سے انکار کر دیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ اس سے اس کی سفارش کر دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور آپ نے اس سے بات کی کہ وہ ان کھجوروں کو جو ان کے درخت پر ہیں اپنے قرض کے بدلہ لے لے، لیکن وہ نہیں مانا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے مہلت مانگی، لیکن وہ انہیں مہلت دینے پر بھی راضی نہ ہوا تو رسول اللہ صلی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2434]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد غزوہ احد میں شہید ہوئےتھے۔

(2)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد پر اور بھی بہت سے لوگوں کا قرض تھا۔
ان کے بارے میں دوسری احادیث میں ذکر کیا گیا ہے۔
یہ یہودی ان قرض خواہوں میں سے ایک تھا۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الاستقراض واداء الدیون .......، باب إذا قضی دون حقه أو حلله فھو جائز، حدیث: 2395)

(3)
اس یہودی کےسوا دوسرے قرض خواہوں کو ادائیگی کرتےوقت خود نبیﷺنےماپ کر ہر ایک کو اس كا قرض ادا کیا تھا۔ (صحیح البخاري، الاستقراض، باب الشفاعة فی وضع الدین حدیث: 2405)

(4)
کھانے پینے کی چیزوں میں يہ برکت رسول اللہ ﷺکا معجزہ ہے جو متعدد مواقع پرظاہر ہوا۔

(5)
حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ایمان اتنا زیادہ تھا کہ انھیں معجزہ ظاہر ہونے سے پہلے ہی یقین ہو گیا کہ یہ واقعہ یوں پيشں آئے گا۔
اس سےحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عظمت اورشان کا اظہار ہوتا ہے۔

(6)
وسق ساٹھ صاع کےبرابر ہوتا ہے جس کی کل مقدار ہمارے یہاں کےاعتبار سےتقریباً چار من بنتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2434   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2884  
´مال چھوڑ کر مرنے والے قرضدار کے وارث کو قرض خواہوں سے مہلت دلانا اور اس کے ساتھ نرمی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کے والد انتقال کر گئے اور اپنے ذمہ ایک یہودی کا تیس وسق کھجور کا قرضہ چھوڑ گئے، جابر رضی اللہ عنہ نے اس سے مہلت مانگی تو اس نے (مہلت دینے سے) انکار کر دیا، تو آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی کہ آپ چل کر اس سے سفارش کر دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور یہودی سے بات کی کہ وہ (اپنے قرض کے بدلے میں) ان کے کھجور کے باغ میں جتنے پھل ہیں لے لے لیکن اس نے انکار کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الوصايا /حدیث: 2884]
فوائد ومسائل:

میت کا قرضہ اولین فرصت میں ادا کرنا چاہیے۔
مگر حسب احوال مہلت لینے میں کوئی حرج نہیں۔
اور مسلمان کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ حتی الامکان نرمی کا معاملہ کرے۔
اور اس قسم کے معاملات میں سفارش کرنا بھی مستحب ہے۔


صحیح بخاری میں اس حدیث کا مضمون کچھ اس طرح ہے۔
حضرت جابر بن عبد للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔
کہ میرے والد احد میں شہید ہوگئے۔
اور چھ بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بہت سا قرض بھی چھوڑ گئے۔
جب کھجوریں کاٹنے کا موسم آیا۔
تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں۔
آپ تشریف لائیں تاکہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں۔
(اور مطالبے میں سختی نہ کریں) آپ نے فرمایا: جاؤ اور اپنا تمام پھل ایک جانب ڈھیر کرو۔
چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور پھر آپ کو بلا لایا، جب ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو مجھے غضبناک تیز نظروں سے دیکھنے لگے، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تیور دیکھے تو آپ نے سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین چکر لگائے اور پھر اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا: اپنے قرض خواہوں کی بلائو، چنانچہ میں ان کےلئے کھجوریں بھرتا اور ناپتا رہا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی امانت (قرض) ادا کردی۔
اور اللہ کی قسم میں اس بات پرراضی تھا۔
کہ اللہ میرے باپ کی امانت (قرض) پوری کرا دے۔
خواہ میں اپنی بہنوں کےلئے ایک دانہ بھی نہ لے جائوں۔
چنانچہ اللہ کی قسم وہ سب ڈھیر اسی طرح محفوظ رہے۔
اور گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ڈھیر جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔
ا س میں سے ایک دانہ بھی کم نہ ہوا تھا۔
(صحیح البخاري، الوصایا، حدیث: 2781) اس حدیث میں بیان ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین حقوق العباد کے معاملے میں انتہائی حساس تھے۔
اور پھر اللہ عزوجل بھی اپنے بندوں کی عزتوں کو کس پراسرارانداز میں محفوظ فرماتا ہے۔
اور ان کے رزق میں واضح برکت ڈال دیتا ہے۔
بشرط یہ کہ ایمان وعمل میں اخلاص ہو اور ایک اللہ ہی پر توکل ہو۔
جعلنا اللہ منھم، آمین۔


وسق کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔
کہ ایک وسق ساٹھ صاع کا اور ایک صاع تقریبا ڈھائی کلو کا ہوتا ہے۔
اس حساب سے ایک وسق تقریباً 3 من اور 30 کلو ہو اور 30 وسق کا وزن تقریبا ً 112 من اور 20 کلو ہوا۔
واللہ اعلم
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2884   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.