حدثنا مسدد، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا عبد الله بن محمد بن عقيل، عن جابر بن عبد الله، قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى جئنا امراة من الانصار في الاسواق فجاءت المراة بابنتين لها، فقالت: يا رسول الله هاتان بنتا ثابت بن قيس، قتل معك يوم احد وقد استفاء عمهما مالهما وميراثهما كله فلم يدع لهما مالا إلا اخذه، فما ترى يا رسول الله؟ فوالله لا تنكحان ابدا إلا ولهما مال، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يقضي الله في ذلك قال: ونزلت سورة النساء يوصيكم الله في اولادكم سورة النساء آية 11 الآية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ادعوا لي المراة وصاحبها، فقال: لعمهما اعطهما الثلثين، واعط امهما الثمن، وما بقي فلك"، قال ابو داود: اخطا بشر فيه إنما هما ابنتا سعد بن الربيع، وثابت بن قيس قتل يوم اليمامة. حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى جِئْنَا امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ فِي الْأَسْوَاقِ فَجَاءَتِ الْمَرْأَةُ بِابْنَتَيْنِ لَهَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَاتَانِ بِنْتَا ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ، قُتِلَ مَعَكَ يَوْمَ أُحُدٍ وَقَدِ اسْتَفَاءَ عَمُّهُمَا مَالَهُمَا وَمِيرَاثَهُمَا كُلَّهُ فَلَمْ يَدَعْ لَهُمَا مَالًا إِلَّا أَخَذَهُ، فَمَا تَرَى يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَوَاللَّهِ لَا تُنْكَحَانِ أَبَدًا إِلَّا وَلَهُمَا مَالٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَقْضِي اللَّهُ فِي ذَلِكَ قَالَ: وَنَزَلَتْ سُورَةُ النِّسَاءِ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ سورة النساء آية 11 الْآيَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ادْعُوا لِي الْمَرْأَةَ وَصَاحِبَهَا، فَقَالَ: لِعَمِّهِمَا أَعْطِهِمَا الثُّلُثَيْنِ، وَأَعْطِ أُمَّهُمَا الثُّمُنَ، وَمَا بَقِيَ فَلَكَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: أَخْطَأَ بِشْرٌ فِيهِ إِنَّمَا هُمَا ابْنَتَا سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ، وَثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ قُتِلَ يَوْمَ الْيَمَامَةِ.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو اسواف (مدینہ کے حرم) میں ایک انصاری عورت کے پاس پہنچے، وہ عورت اپنی دو بیٹیوں کو لے کر آئی، اور کہنے لگی: اللہ کے رسول! یہ دونوں ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیٹیاں ہیں، جو جنگ احد میں آپ کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ہیں، ان کے چچا نے ان کا سارا مال اور میراث لے لیا، ان کے لیے کچھ بھی نہ چھوڑا، اب آپ کیا فرماتے ہیں؟ اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! ان کا نکاح نہیں ہو سکتا جب تک کہ ان کے پاس مال نہ ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس کا فیصلہ فرمائے گا“، پھر سورۃ نساء کی یہ آیتیں «يوصيكم الله في أولادكم» نازل ہوئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس عورت کو اور اس کے دیور کو بلاؤ“، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں لڑکیوں کے چچا سے کہا: ”دو تہائی مال انہیں دے دو، اور ان کی ماں کو آٹھواں حصہ دو، اور جو انہیں دینے کے بعد بچا رہے وہ تمہارا ہے ۱؎“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس میں بشر نے غلطی کی ہے، یہ دونوں بیٹیاں سعد بن ربیع کی تھیں، ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ تو جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الفرائض 3 (2092)، سنن ابن ماجہ/الفرائض 2 (2720)، (تحفة الأشراف: 2365)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/352) (حسن)» (اس روایت میں ثابت بن قیس کا تذکرہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ مؤلف نے بیان کیا ہے)
وضاحت: ۱؎: لہذا مسئلہ (۲۴) سے ہو گا، (۱۶) دونوں بیٹیوں کے اور (۳) ان کی ماں کے اور (۵) ان کے چچا کے ہوں گے۔
Narrated Jabir ibn Abdullah: We went out with the Messenger of Allah ﷺ and came to a woman of the Ansar in al-Aswaf. The woman brought her two daughters, and said: Messenger of Allah, these are the daughters of Thabit ibn Qays who was killed as a martyr when he was with you at the battle of Uhud, their paternal uncle has taken all their property and inheritance, and he has not left anything for them. What do you think, Messenger of Allah? They cannot be married unless they have some property. The Messenger of Allah ﷺ said: Allah will decide regarding the matter. Then the verse of Surat an-Nisa was revealed: "Allah (thus) directs you as regards your children's (inheritance). " Messenger of Allah ﷺ said: Call to me the woman and her husband's brother. He then said to their paternal uncle: Give them two-thirds and their mother an eighth, and what remains is yours. Abu Dawud said: The narrator Bishr made a mistake. They were the daughters of Saad bin al-Rabi for Thabit bin Qais was killed in the battle of Yamamah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 18 , Number 2885
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2096
´لڑکیوں کی موجودگی میں لڑکوں کی میراث کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کی غرض سے تشریف لائے اس وقت میں بنی سلمہ کے محلے میں بیمار تھا، میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! میں اپنا مال اپنی اولاد ۱؎ کے درمیان کیسے تقسیم کروں؟ آپ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا: پھر یہ آیت نازل ہوئی: «يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين»”اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے“(النساء: ۱۱)۔ [سنن ترمذي/كتاب الفرائض/حدیث: 2096]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اگلی روایت جو صحیحین کی ہے اس میں اولاد کی بجائے بہنوں کا تذکر ہ ہے، اور صحیح واقعہ بھی یہی ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ کی اس وقت تو اولاد تھی ہی نہیں، اس لیے یہ روایت صحیح ہونے کے باوجود ”شاذ“ کی قبیل سے ہوئی (دیکھیے اگلی روایت)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2096
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2891
´صلبی (حقیقی) اولاد کی میراث کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو اسواف (مدینہ کے حرم) میں ایک انصاری عورت کے پاس پہنچے، وہ عورت اپنی دو بیٹیوں کو لے کر آئی، اور کہنے لگی: اللہ کے رسول! یہ دونوں ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیٹیاں ہیں، جو جنگ احد میں آپ کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ہیں، ان کے چچا نے ان کا سارا مال اور میراث لے لیا، ان کے لیے کچھ بھی نہ چھوڑا، اب آپ کیا فرماتے ہیں؟ اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! ان کا نکاح نہیں ہو سکتا جب تک کہ ان کے پاس مال نہ ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2891]
فوائد ومسائل: شیخ البانی نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔ اور مذید فرمایا ہے کہ یہ لڑکیاں ثابت بن قیس کی نہیں ہیں۔ بلکہ سعد بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تھیں۔ جیسا کہ آگے آنے والی روایت میں بھی یہی ہے۔ کہ مذکورہ لڑکیاں حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹیاں تھیں۔ اور اس تقسیم میں اصل مسئلہ 24 سے بنے گا کہ 16 حصے دو تہائی بیٹیوں کے 3 حصے (آٹھواں حصہ) بیوی کا اور باقی 5 حصے چچا کو ملیں گے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2891