الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
The Book of Hajj
132. بَابُ الْخُطْبَةِ أَيَّامَ مِنًى:
132. باب: منیٰ کے دنوں میں خطبہ سنانا۔
(132) Chapter. Al-Khutba during the Days of Mina.
حدیث نمبر: 1741
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثني عبد الله بن محمد، حدثنا ابو عامر، حدثنا قرة، عن محمد بن سيرين، قال: اخبرني عبد الرحمن بن ابي بكرة، عن ابي بكرةورجل افضل في نفسي من عبد الرحمن حميد بن عبد الرحمن عن ابي بكرة رضي الله عنه، قال:" خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم يوم النحر، قال: اتدرون اي يوم هذا؟ , قلنا: الله ورسوله اعلم، فسكت حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه، قال: اليس يوم النحر؟ , قلنا: بلى، قال: اي شهر هذا؟ قلنا: الله ورسوله اعلم، فسكت حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه، فقال: اليس ذو الحجة، قلنا: بلى، قال: اي بلد هذا، قلنا: الله ورسوله اعلم، فسكت حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه، قال: اليست بالبلدة الحرام؟ , قلنا: بلى، قال: فإن دماءكم واموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا إلى يوم تلقون ربكم، الا هل بلغت، قالوا: نعم، قال: اللهم اشهد، فليبلغ الشاهد الغائب فرب مبلغ اوعى من سامع، فلا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض".حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَوَرَجُلٌ أَفْضَلُ فِي نَفْسِي مِنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" خَطَبَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ، قَالَ: أَتَدْرُونَ أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟ , قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ؟ , قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: أَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟ قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، فَقَالَ: أَلَيْسَ ذُو الْحَجَّةِ، قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: أَيُّ بَلَدٍ هَذَا، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَتْ بِالْبَلْدَةِ الْحَرَامِ؟ , قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا إِلَى يَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ، أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: اللَّهُمَّ اشْهَدْ، فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ، فَلَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر نے بیان کیا، ان سے قرہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے کہا کہ مجھے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے اور ایک اور شخص نے جو میرے نزدیک عبدالرحمٰن سے بھی افضل ہے یعنی حمید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں تاریخ کو منیٰ میں خطبہ سنایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا لوگو! معلوم ہے آج یہ کون سا دن ہے؟ ہم نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خاموش ہو گئے اور ہم نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ قربانی کا دن نہیں۔ ہم بولے ہاں ضرور ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ مہینہ کون سا ہے؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے لیے۔ آپ اس مرتبہ بھی خاموش ہو گئے اور ہمیں خیال ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینہ کا نام کوئی اور نام رکھیں گے، لیکن آپ نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟ ہم بولے کیوں نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ شہر کون سا ہے؟ ہم نے عرض کی اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح خاموش ہو گئے کہ ہم نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ حرمت کا شہر نہیں ہے؟ ہم نے عرض کی کیوں نہیں ضرور ہے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بس تمہارا خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے اس دن کی حرمت اس مہینہ اور اس شہر میں ہے، تاآنکہ تم اپنے رب سے جا ملو۔ کہو کیا میں نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! تو گواہ رہنا اور ہاں! یہاں موجود غائب کو پہنچا دیں کیونکہ بہت سے لوگ جن تک یہ پیغام پہنچے گا سننے والوں سے زیادہ (پیغام کو) یاد رکھنے والے ثابت ہوں گے اور میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی (ناحق) گردنیں مارنے لگو۔

Narrated Abu Bakra: The Prophet delivered to us a sermon on the Day of Nahr. He said, "Do you know what is the day today?" We said, "Allah and His Apostle know better." He remained silent till we thought that he might give that day another name. He said, "Isn't it the Day of Nahr?" We said, "It is." He further asked, "Which month is this?" We said, "Allah and His Apostle know better." He remained silent till we thought that he might give it another name. He then said, "Isn't it the month of Dhul-Hijja?" We replied: "Yes! It is." He further asked, "What town is this?" We replied, "Allah and His Apostle know it better." He remained silent till we thought that he might give it another name. He then said, "Isn't it the forbidden (Sacred) town (of Mecca)?" We said, "Yes. It is." He said, "No doubt, your blood and your properties are sacred to one another like the sanctity of this day of yours, in this month of yours, in this town of yours, till the day you meet your Lord. No doubt! Haven't I conveyed Allah's message to you? They said, "Yes." He said, "O Allah! Be witness. So it is incumbent upon those who are present to convey it (this information) to those who are absent because the informed one might comprehend it (what I have said) better than the present audience, who will convey it to him. Beware! Do not renegade (as) disbelievers after me by striking the necks (cutting the throats) of one another."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 797

   صحيح البخاري67نفيع بن الحارثدماءكم وأموالكم وأعراضكم بينكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا يبلغ الشاهد الغائب الشاهد عسى أن يبلغ من هو أوعى له منه
   صحيح البخاري7078نفيع بن الحارثدماءكم وأموالكم وأعراضكم وأبشاركم عليكم حرام كحرمة يومكم
   صحيح البخاري1741نفيع بن الحارثدماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا إلى يوم تلقون ربكم ألا هل بلغت اللهم اشهد يبلغ الشاهد الغائب رب مبلغ أوعى من سامع لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض
   صحيح البخاري105نفيع بن الحارثدماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا ألا فليبلغ الشاهد منكم الغائب
   بلوغ المرام637نفيع بن الحارثخطبنا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يوم النحر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 67  
´شاگرد کو چاہئیے کہ استاد کی تشریح و تفصیل کا انتظار کرے`
«. . . ذَكَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَعَدَ عَلَى بَعِيرِهِ وَأَمْسَكَ إِنْسَانٌ بِخِطَامِهِ أَوْ بِزِمَامِهِ، قَالَ: أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟ . . .»
. . . (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص نے اس کی نکیل تھام رکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا آج یہ کون سا دن ہے؟ ہم خاموش رہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 67]

تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ضرورت کے وقت امام خطیب یا محدث یا استاد سواری پر بیٹھے ہوئے بھی خطبہ دے سکتا ہے، وعظ کہہ سکتا ہے۔ شاگردوں کے کسی سوال کو حل کر سکتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ شاگرد کو چاہئیے کہ استاد کی تشریح و تفصیل کا انتظار کرے اور خود جواب دینے میں عجلت سے کام نہ لے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض شاگرد فہم اور حفظ میں اپنے استادوں سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ چیز استاد کے لیے باعث مسرت ہونی چاہئیے۔ یہ حدیث ان اسلامی فلاسفروں کے لیے بھی دلیل ہے جو شرعی حقائق کو فلسفیانہ تشریح کے ساتھ ثابت کرتے ہیں۔ جیسے کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں احکام شرع کے حقائق و فوائد بیان کرنے میں بہترین تفصیل سے کام لیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 67   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 105  
´جو لوگ موجود ہیں وہ غائب شخص کو علم پہنچائیں `
«. . . أَلَا لِيُبَلِّغ الشَّاهِدُ مِنْكُمُ الْغَائِبَ . . .»
. . . سن لو! یہ خبر حاضر غائب کو پہنچا دے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 105]

تشریح:
مقصد یہ کہ میں اس حدیث نبوی کی تعمیل کرچکا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں یہ فرمایا تھا، دوسری حدیث میں تفصیل سے اس کا ذکر آیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 105   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1741  
1741. حضرت ابو بکر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں قربانی کے دن خطبہ دیا اور فرمایا: تم جانتے ہو یہ دن کون سا ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی جانتے ہیں۔ آپ تھوڑی دیر خاموش رہے۔ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام تجویز کریں گے تاہم آپ ﷺ نے فرمایا: کیا یہ قربانی کا دن نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں!اس کے بعد آپ نے فرمایا: یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی جانتے ہیں۔ آپ تھوڑی دیر چپ رہے۔ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام تجویز کریں گے۔ آپ نے فرمایا: کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟ ہم نے عرض: کیوں نہیں، یہ ذوالحجہ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ ہی جانتے ہیں آپ تھوڑی دیر خاموش رہے، ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام ذکر کریں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1741]
حدیث حاشیہ:
یہ حجۃ الوداع میں آپ ﷺ کا وہ عظیم الشان خطبہ ہے جسے اساس الاسلام ہونے کی سند حاصل ہے اور یہ کافی طویل ہے جسے مختلف راویوں نے مختلف الفاظ میں نقل کیا ہے۔
حضرت امام بخاری ؒ نے ترجمۃ الباب کے تحت یہ روایات یہاں نقل کی ہیں، پورے خطبے کا احصار مقصد نہیں ہے۔
و أراد البخاري الرد علی من زعم أن یوم النحر لا خطبة فیه للحاج و أن المذکور في هذا الحدیث من قبیل الوصایا العامة لا علی أنه من شعار الحج فأراد البخاري أن یبین أن الراوي سماها خطبة کما سمی التي وقعت في عرفات خطبة۔
(فتح)
یعنی کچھ لوگ یوم نحر کے خطبہ کے قائل نہیں ہیں اور اس خطبہ کووصایا سے تعبیر کرتے ہیں، امام بخاری نے ان کا رد کیا اور بتلایا کہ راوی نے اسے لفظ خطبہ سے ذکر کیا ہے جیسے عرفات کے خطبہ کو خطبہ کہا ایسا ہی اسے بھی، لہٰذا یوم النحر کو بھی خطبہ سنت نبوی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1741   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 637  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے روز خطبہ دیا اور ساری حدیث ذکر کی۔ (بخاری ومسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 637]
637فائدہ:
حج کے دوران میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی خطبے ثابت ہیں۔ مالکیہ اور احناف کے نزدیک ایک خطاب ساتویں ذی الحجہ کو اور دوسرا عرفہ میں، 9 تاریخ کو اور تیسرا گیارھویں ذی الحجہ کو ہو گا۔ دسویں ذی الحجہ، یعنی قربانی کے دن کے خطاب کو مالکیہ اور حنفیہ خطبہ نہیں کہتے بلکہ صرف چند نصیحتیں کہتے ہیں۔ یہ عید کا خطبہ نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید تو ادا ہی نہیں فرمائی تھی۔ بعض اسے خطبہ ہی کہتے ہیں، اس طرح چار خطبے مسنون ہو جاتے ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 637   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.