الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: شکار کے بدلے کا بیان
The Book of Penalty For Hunting
8. بَابُ لاَ يُعْضَدُ شَجَرُ الْحَرَمِ:
8. باب: اس بیان میں کہ حرم شریف کے درخت نہ کاٹے جائیں۔
(8) Chapter. It is not permissible to cut the trees of Haram (the sanctuary of Makkah).
حدیث نمبر: Q1832
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال ابن عباس رضي الله عنه: عن النبي صلى الله عليه وسلم: لا يعضد شوكه.وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ.
‏‏‏‏ (اور) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ حرم کے کانٹے نہ کاٹے جائیں۔

حدیث نمبر: 1832
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابي شريح العدوي، انه قال لعمرو بن سعيد وهو يبعث البعوث إلى مكة: ائذن لي ايها الامير، احدثك قولا قام به رسول الله صلى الله عليه وسلم للغد من يوم الفتح، فسمعته اذناي، ووعاه قلبي، وابصرته عيناي حين تكلم به، إنه حمد الله واثنى عليه، ثم قال:" إن مكة حرمها الله ولم يحرمها الناس، فلا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر ان يسفك بها دما، ولا يعضد بها شجرة، فإن احد ترخص لقتال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقولوا له: إن الله اذن لرسوله صلى الله عليه وسلم، ولم ياذن لكم، وإنما اذن لي ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها بالامس، وليبلغ الشاهد الغائب، فقيل لابي شريح: ما قال لك عمرو؟ قال: انا اعلم بذلك منك يا ابا شريح، إن الحرم لا يعيذ عاصيا، ولا فارا بدم، ولا فارا بخربة خربة بلية".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ، أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ: ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ، أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْغَدِ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ، فَسَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي، وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ، إِنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا، وَلَا يَعْضُدَ بِهَا شَجَرَةً، فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُولُوا لَهُ: إِنَّ اللَّهَ أَذِنَ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ، وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ، وَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ: مَا قَالَ لَكَ عَمْرٌو؟ قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِذَلِكَ مِنْكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ، إِنَّ الْحَرَمَ لَا يُعِيذُ عَاصِيًا، وَلَا فَارًّا بِدَمٍ، وَلَا فَارًّا بِخُرْبَةٍ خُرْبَةٌ بَلِيَّةٌ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید مقبری نے، ان سے ابوشریح عدوی رضی اللہ عنہ نے کہ جب عمرو بن سعید مکہ پر لشکر کشی کر رہا تھا تو انہوں نے کہا امیر اجازت دے تو میں ایک ایسی حدیث سناؤں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی، اس حدیث مبارک کو میرے ان کانوں نے سنا، اور میرے دل نے پوری طرح اسے یاد کر لیا تھا اور جب آپ ارشاد فرما رہے تھے تو میری آنکھیں آپ کو دیکھ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد اور اس کی ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ مکہ کی حرمت اللہ نے قائم کی ہے لوگوں نے نہیں! اس لیے کسی ایسے شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو یہ جائز اور حلال نہیں کہ یہاں خون بہائے اور کوئی یہاں کا ایک درخت بھی نہ کاٹے لیکن اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال (فتح مکہ کے موقع پر) سے اس کا جواز نکالے تو اس سے یہ کہہ دو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے اجازت دی تھی، لیکن تمہیں اجازت نہیں ہے اور مجھے بھی تھوڑی سی دیر کے لیے اجازت ملی تھی پھر دوبارہ آج اس کی حرمت ایسی ہی قائم ہو گئی جیسے پہلے تھی اور ہاں جو موجود ہیں وہ غائب کو (اللہ کا یہ پیغام) پہنچا دیں، ابوشریح سے کسی نے پوچھا کہ پھر عمرو بن سعید نے (یہ حدیث سن کر) آپ کو کیا جواب دیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ عمرو نے کہا ابوشریح! میں یہ حدیث تم سے بھی زیادہ جانتا ہوں مگر حرم کسی مجرم کو پناہ نہیں دیتا اور نہ خون کر کے اور نہ کسی جرم کر کے بھاگنے والے کو پناہ دیتا ہے۔ «خربة» سے مراد «خربة بلية‏» ہے۔

Narrated Sa`id bin Abu Sa`id Al-Maqburi: Abu Shuraih, Al-`Adawi said that he had said to `Amr bin Sa`id when he was sending the troops to Mecca (to fight `Abdullah bin Az-Zubair), "O Chief! Allow me to tell you what Allah's Apostle said on the day following the Conquest of Mecca. My ears heard that and my heart understood it thoroughly and I saw with my own eyes the Prophet when he, after Glorifying and Praising Allah, started saying, 'Allah, not the people, made Mecca a sanctuary, so anybody who has belief in Allah and the Last Day should neither shed blood in it, nor should he cut down its trees. If anybody tells (argues) that fighting in it is permissible on the basis that Allah's Apostle did fight in Mecca, say to him, 'Allah allowed His Apostle and did not allow you.' "Allah allowed me only for a few hours on that day (of the conquest) and today its sanctity is valid as it was before. So, those who are present should inform those who are absent (concerning this fact." Abu Shuraih was asked, "What did `Amr reply?" He said, (`Amr said) 'O Abu Shuraih! I know better than you in this respect Mecca does not give protection to a sinner, a murderer or a thief."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 29, Number 58

   صحيح البخاري4295خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   صحيح البخاري104خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   صحيح البخاري1832خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   صحيح مسلم3304خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   جامع الترمذي809خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   سنن النسائى الصغرى2879خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 104  
´مکہ میں خون ریزی جائز نہیں`
«. . . ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا، وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے) اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ مکہ کو اللہ نے حرام کیا ہے، آدمیوں نے حرام نہیں کیا۔ تو (سن لو) کہ کسی شخص کے لیے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو جائز نہیں ہے کہ مکہ میں خون ریزی کرے، یا اس کا کوئی پیڑ کاٹے، پھر اگر کوئی اللہ کے رسول (کے لڑنے) کی وجہ سے اس کا جواز نکالے تو اس سے کہہ دو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اجازت دی تھی، تمہارے لیے نہیں دی اور مجھے بھی دن کے کچھ لمحوں کے لیے اجازت ملی تھی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 104]

تشریح:
عمرو بن سعید یزید کی طرف سے مدینہ کے گورنر تھے، انھوں نے ابوشریح سے حدیث نبوی سن کر تاویل سے کام لیا اور صحابی رسول حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو باغی فسادی قرار دے کر مکہ شریف پر فوج کشی کا جواز نکالا حالانکہ ان کا خیال بالکل غلط تھا۔ حضرت ابن زبیر نہ باغی تھے نہ فسادی تھے۔ نص کے مقابلہ پر رائے و قیاس و تاویلات فاسدہ سے کام لینے والوں نے ہمیشہ اسی طرح فسادات برپا کر کے اہل حق کو ستایا ہے۔ حضرت ابوشریح کا نام خویلد بن عمرو بن صخر ہے اور بخاری شریف میں ان سے صرف تین احادیث مروی ہیں۔ 68ھ میں آپ نے انتقال فرمایا رحمہ اللہ و رضی اللہ عنہ۔

چونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے یزید کی بیعت سے انکار کر کے حرم مکہ شریف کو اپنے لیے جائے پناہ بنایاتھا۔ اسی لیے یزید نے عمرو بن سعید کو مکہ پر فوج کشی کرنے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے۔ اور حرم مکہ کی سخت بے حرمتی کی گئی  انا للہ وانا الیہ راجعون۔  حضرت زبیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے تھے۔ آج کل بھی اہل بدعت حدیث نبوی کو ایسے بہانے نکال کر رد کر دیتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 104   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1832  
1832. حضرت ابو شریح عدوی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے عمرو بن سعید سے کہا جبکہ وہ مکہ مکرمہ کی طرف لشکر بھیج رہا تھا، اے امیر!اگر مجھے اجازت ہوتو میں تمھیں ایک بات کی خبردوں جسے رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے اگلے دن بیان فرمایا۔ اس بات کو میرے کانوں نے سنا، میرے دل نے یاد کیا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب آپ وہ بات کہہ رہے تھے۔ آپ نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنابیان کی پھر فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو حرام قراردیا ہے، لوگوں نے اسے قابل احترام قرارنہیں دیا۔ کوئی انسان جس کا اللہ پر ایمان اور قیامت پر یقین ہے۔ اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ مکہ مکرمہ میں خونریزی کرے اور اس کا درخت کاٹے۔ اگر کوئی رسول اللہ ﷺ کے جنگ کرنے کی وجہ سے اجازت چاہے تو اسے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی اور تمھیں اجازت نہیں دی۔ میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی کے لیے اجازت دی تھی جبکہ اس کی حرمت آج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1832]
حدیث حاشیہ:
حدیث ہذا میں عمرو بن سعید کی فوج کشی کا ذکر ہے جو خلافت اموی کا ایک حاکم تھا اور حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے مقابلہ پر مکہ شریف میں جنگ کرنے کے لیے فوج بھیج رہا تھا اس موقع پر کلمہ حق بلند کرنے کے لیے حضرت ابوشریح ؓ نے یہ حدیث بیان کی کہ اسے سن کر شاید عمرو بن سعید اپنے اس اقدام سے رک جائے مگر وہ رکنے والا کہاں تھا۔
الٹا حدیث کی تاویل کرنے لگا اور الٹی سیدھی باتوں سے اپنے فعل کا جواز ثابت کرنے لگا جو سراسر اس کا فریب نفس تھا۔
آخر اس نے مکہ شریف پر فوج کشی کی اور حرمت کعبہ کو پامال کرکے رکھ دیا۔
ابوشریح نے اس لیے سکوت نہیں کیا کہ عمرو بن سعید کا جواب معقول تھا بلکہ اس کا جواب سراسر نامعقول تھا بحث تو یہ تھی کہ مکہ پر لشکر کشی اور جنگ جائز نہیں لیکن عمرو بن سعید نے دوسرا مسئلہ چھیڑدیا کہ کوئی حدی جرم کا مرتکب ہو کر حرم میں بھاگ جائے تو اس کو حرم میں پناہ نہیں ملتی۔
اس مسئلہ میں علماءکا اختلاف ہے مگر عبداللہ بن زبیر ؓ نے تو کوئی حدی جرم بھی نہیں کیا تھا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی کنیت ابوبکر ہے، یہ اسدی قریشی ہیں ان کی یہ کنیت ان کے نانا جان حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی کنیت پر خود آنحضرت ﷺ نے رکھی تھی۔
مدینہ میں مہاجرین میں یہ سب سے پہلے بچے تھے جو1ھ میں پیدا ہوئے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ان کے کان میں اذان کہی، مقام قبا میں پیدا ہوئے اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت اسماءبنت ابی بکر صدیق ؓ ان کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں دعائے برکت کے واسطے لے کر حاضر ہوئیں، آپ ﷺ نے ان کو اپنی گود میں بٹھایا اور دہن مبارک میں ایک کھجور چپا کر اس کا لعاب ان کے منہ میں ڈالا اور ان کے تالو سے لگایا، گویا سب سے پہلے چیز جو ان کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ آنحضرت ﷺ کا لعاب مبارک تھا۔
پھر آپ ﷺ نے ان کے لیے دعاءبرکت فرمائی، بالغ ہونے پر یہ بہت ہی بھاری بھرکم بارعب شخصیت کے مالک تھے۔
بکثرت روزہ رکھنے والے، نوافل پڑھنے والے اور حق و صداقت کے علم بردار تھے، تعلقات اور رشتہ کے قائم رکھنے والے، لحاظ و مروت کے پیکر، مجسمہ اخلاق حسنہ تھے۔
ان کی خوبیوں میں سے یہ ہے کہ ان کی والدہ ماجدہ حضرت اسماء ؓ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی صاحبزادی تھیں۔
ان کے نانا ابوبکر صدیق ؓ تھے۔
ان کی دادی صفیہ آنحضرت ﷺ کی سگی پھوپھی ہوئی ہیں اور حضرت عائشہ صدیقہ ان کی خالہ ہیں۔
آٹھ سال کی عمر میں آنحضرت ﷺ کے دست مبارک پر بیعت کی۔
اس جنگ میں جس کا یہاں ذکر ہے حجاج بن یوسف نے ان کو مکہ شریف میں قتل کیا اور 17جمادی الثانی بروز منگل 73ھ میں ان کی لاش کو سولی پر لٹکایا، جس کے کچھ دنوں بعد حجاج بھی بڑی ذلت و خواری کی موت مرا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے لیے 64ھ میں بیعت لی گئی، جس پر بیشتر اہل حجاز، یمن، عراق اور خراسان والوں کا اتفاق تھا۔
حضرت عبداللہ نے اپنی عمر میں آٹھ مرتبہ حج کیا ان سے ایک بڑی جماعت روایت حدیث کرتی ہے۔
مختلف مسائل کا استنباط کے لیے حضرت امام بخاری ؒ اپنی جامع الصحیح میں بہت سے مقامات پر اس حدیث کو لائے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1832   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 809  
´مکہ کی حرمت کا بیان۔`
ابوشریح عدوی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید ۲؎ سے - جب وہ مکہ کی طرف (عبداللہ بن زبیر سے قتال کے لیے) لشکر روانہ کر رہے تھے کہا: اے امیر! مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ سے ایک ایسی بات بیان کروں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن فرمایا، میرے کانوں نے اسے سنا، میرے دل نے اسے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا، جب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: مکہ (میں جنگ و جدال کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے۔ لوگوں نے حرام نہیں کیا ہے، لہٰذا کسی شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 809]
اردو حاشہ:
1؎: (حج کے احکام و مناسک کی وضاحت ہے) حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے اس کی فرضیت 5ھ؁ یا 6ھ؁میں ہوئی اور بعض نے 9ھ؁ یا 10ھ؁کہا ہے،
زادالمعاد میں ابن القیم کا رجحان اسی طرف ہے۔

2؎:
عمرو بن سعید:
یزید کی طرف سے مدینہ کا گونر تھا اور یزید کی حکومت کا عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کی خلافت کے خلاف لشکر کشی کرنا اور وہ بھی مکہ مکرمہ پر قطعا غلط تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 809   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1832  
1832. حضرت ابو شریح عدوی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے عمرو بن سعید سے کہا جبکہ وہ مکہ مکرمہ کی طرف لشکر بھیج رہا تھا، اے امیر!اگر مجھے اجازت ہوتو میں تمھیں ایک بات کی خبردوں جسے رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے اگلے دن بیان فرمایا۔ اس بات کو میرے کانوں نے سنا، میرے دل نے یاد کیا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب آپ وہ بات کہہ رہے تھے۔ آپ نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنابیان کی پھر فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو حرام قراردیا ہے، لوگوں نے اسے قابل احترام قرارنہیں دیا۔ کوئی انسان جس کا اللہ پر ایمان اور قیامت پر یقین ہے۔ اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ مکہ مکرمہ میں خونریزی کرے اور اس کا درخت کاٹے۔ اگر کوئی رسول اللہ ﷺ کے جنگ کرنے کی وجہ سے اجازت چاہے تو اسے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی اور تمھیں اجازت نہیں دی۔ میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی کے لیے اجازت دی تھی جبکہ اس کی حرمت آج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1832]
حدیث حاشیہ:
(1)
مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو شریح ؓ نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کے وقت میں وہاں موجود تھا اور تم اس وقت موجود نہیں تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ پیغام آگے پہنچانے کا حکم دیا جو میں نے تجھے پہنچا دیا۔
(مسندأحمد: 32/4)
اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابو شریح ؓ نے عمرو بن سعید کے اقدام کی موافقت نہیں کی بلکہ بآواز بلند اسے روکنے کی کوشش کی لیکن عمرو بن سعید نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے ایک صحیح بات کو غلط مقصد کے لیے استعمال کیا کیونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کسی صورت میں نافرمان، تخریب کار یا خون خرابا کر کے بھاگنے والے نہیں تھے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حرم کے درختوں کو کاٹنا نہیں چاہیے، لیکن اس سے مراد وہ درخت ہیں جو خود بخود وہاں اُگے ہوں۔
اس میں تمام علماء کا اتفاق ہے، البتہ شاخوں سے مسواک وغیرہ بنانا بعض علماء نے جائز قرار دیا ہے۔
اسی طرح حرم کا درخت خود بخود گر گیا ہو تو اس سے فائدہ اٹھانا بھی جائز ہے، نیز پھل دار درخت سے پھل اتارنا جبکہ اس سے درخت کا نقصان نہ ہو یہ بھی جائز ہے۔
اگر حرم میں لوگ درخت اُگائیں یا باغ وغیرہ کاشت کریں تو ان کے استعمال میں بھی کوئی حرج نہیں۔
(فتح الباري: 58/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1832   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.