الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
The Chapters on Marriage
21. بَابُ : الْغِنَاءِ وَالدُّفِّ
21. باب: (شادی بیاہ میں) گانے اور دف بجانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1897
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يزيد بن هارون ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ابي الحسين اسمه خالد المدني ، قال: كنا بالمدينة يوم عاشوراء، والجواري يضربن بالدف، ويتغنين فدخلنا على الربيع بنت معوذ ، فذكرنا ذلك لها، فقالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم صبيحة عرسي، وعندي جاريتان تتغنيان، وتندبان آبائي الذين قتلوا يوم بدر، وتقولان فيما تقولان: وفينا نبي يعلم ما في غد، فقال:" اما هذا فلا تقولوه ما يعلم ما في غد إلا الله".
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي الْحُسَيْنِ اسْمُهُ خَالِدٌ الْمَدَنِيُّ ، قَالَ: كُنَّا بِالْمَدِينَةِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَالْجَوَارِي يَضْرِبْنَ بِالدُّفِّ، وَيَتَغَنَّيْنَ فَدَخَلْنَا عَلَى الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ ، فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لَهَا، فَقَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَبِيحَةَ عُرْسِي، وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تَتَغَنَّيَانِ، وَتَنْدُبَانِ آبَائِي الَّذِينَ قُتِلُوا يَوْمَ بَدْرٍ، وَتَقُولَانِ فِيمَا تَقُولَانِ: وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ، فَقَالَ:" أَمَّا هَذَا فَلَا تَقُولُوهُ مَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ".
ابوالحسین خالد مدنی کہتے ہیں کہ ہم عاشورہ کے دن مدینہ میں تھے، لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور گا رہی تھیں، پھر ہم ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، ان سے یہ بیان کیا تو انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری شادی کے دن صبح میں آئے، اس وقت میرے پاس دو لڑکیاں گا رہی تھیں، اور بدر کے دن شہید ہونے والے اپنے آباء و اجداد کا ذکر کر رہی تھیں، گانے میں جو باتیں وہ کہہ رہی تھیں ان میں یہ بات بھی تھی: «وفينا نبي يعلم ما في غد» ہم میں مستقبل کی خبر رکھنے والے نبی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا مت کہو، اس لیے کہ کل کی بات اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المغازي 12 (4001)، النکاح 48 (5147)، سنن ابی داود/الأدب 51 (4922)، سنن الترمذی/النکاح 6 (1090)، (تحفة الأشراف: 15832)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/359، 360) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated that Abu Husain, whose name was Khalid Al-Madani, said: “We were in Al-Madinah on the Say of 'Ashura and the girls were beating the Daff and singing. We entered upon Rubai' bint Mu'awwidh and mentioned that to her. She said: 'The Messenger of Allah entered upon me on the morning of my wedding, and there were two girls with me who were singing and mentioning the qualities of my forefathers who were killed on the Day of Badr. One of the things they were saying was: “Among us there is a Prophet who knows what will happen tomorrow.” He said: “Do not say this, for no one knows what will happen tomorrow except Allah.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
   صحيح البخاري4001ربيع بنت معوذوفينا نبي يعلم ما في غد فقال النبي لا تقولي هكذا وقولي ما كنت تقولين
   صحيح البخاري5147ربيع بنت معوذدعي هذه وقولي بالذي كنت تقولين
   جامع الترمذي1090ربيع بنت معوذاسكتي عن هذه وقولي الذي كنت تقولين قبلها
   سنن أبي داود4922ربيع بنت معوذدعي هذه وقولي الذي كنت تقولين
   سنن ابن ماجه1897ربيع بنت معوذأما هذا فلا تقولوه ما يعلم ما في غد إلا الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1897  
´(شادی بیاہ میں) گانے اور دف بجانے کا بیان۔`
ابوالحسین خالد مدنی کہتے ہیں کہ ہم عاشورہ کے دن مدینہ میں تھے، لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور گا رہی تھیں، پھر ہم ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، ان سے یہ بیان کیا تو انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری شادی کے دن صبح میں آئے، اس وقت میرے پاس دو لڑکیاں گا رہی تھیں، اور بدر کے دن شہید ہونے والے اپنے آباء و اجداد کا ذکر کر رہی تھیں، گانے میں جو باتیں وہ کہہ رہی تھیں ان میں یہ بات بھی تھی: «وفينا نبي يعلم ما في غد» ہم میں مستقبل کی خبر رکھنے والے نبی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا مت کہو، اس لیے کہ کل کی با۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1897]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عاشورا دس محرم کو کہتے ہیں۔
اس دن حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو فرعونیوں کے ظلم و ستم سے نجات ملی تھی اور کافر سمندر میں ڈوب مرے تھے، اس لیے اس دن یہودی خوشی مناتے اور شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے تھے۔ (سنن ابن ماجة، حدیث: 1734)
رسول اللہ ﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا اور ممکن ہے خوشی کا اظہار بھی کیا ہو۔
بعد میں عاشورا کے روزے کا وجوب منسوخ ہو گیا اور خوشی کے لیے عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن مقرر ہو گئے۔
اب ہمارے لیے یہی حکم ہے کہ عاشورا کا روزہ رکھیں اور اس کے ساتھ اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھیں تاکہ یہودیوں سے مشابہت نہ رہے۔

(2)
حضرت ربیع کی شادی کا واقعہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہو گا اس لیے رسول اللہ ﷺ ان کے ہاں تشریف لے گئے۔
ورنہ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد صحابیات رضی اللہ عنہن رسول اللہ ﷺ سے بھی پردہ کرتی تھیں۔
نبی ﷺ ان سے بیعت بھی پردے کے پیچھے سے زبانی اقرار کے ساتھ لیتے تھے۔ (صحیح البخاري، الشروط، باب ما یجوز من الشروط فی الإسلام والأحکام والمبایعة، حدیث: 2713)

(3)
شادی کے موقع پر چھوٹی بچیوں کا گیت گانا اور دف بجانا جائز ہے۔

(4)
بزرگوں کو چاہیے کہ خوشی کے موقع پر بچوں اور بچیوں کو جائز حد تک تفریحی مشاغل کی اجازت دیں لیکن جب بچے کوئی ناجائز کام کرنے لگیں تو انہیں توجہ دلائیں کہ یہ درست نہیں۔

(5)
رسول اللہ ﷺ کی تعریف اور نعت گوئی ایک مبارک عمل ہے لیکن غلو جائز نہیں۔
بزرگوں کی وہ صفات بیان کرنا جائز ہیں جو ان میں واقعتا موجود ہوں۔
مبالغے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

(6)
نبی ﷺ عالم الغیب نہیں تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1897   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4922  
´گانے کا بیان۔`
ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس اس صبح آئے، جس رات میرا شب زفاف ہوا تھا تو آپ میرے بستر پر ایسے بیٹھ گئے جیسے تم (خالد بن ذکوان) بیٹھے ہو، پھر (انصار کی) کچھ بچیاں اپنے دف بجانے لگیں اور اپنے غزوہ بدر کی شہید ہونے والے آباء و اجداد کا اوصاف ذکر کرنے لگیں یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے کہا: اور ہمارے بیچ ایک ایسا نبی ہے جو کل ہونے والی باتوں کو بھی جانتا ہے، تو آپ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو اور وہی کہو جو تم پہلے کہہ رہی تھیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4922]
فوائد ومسائل:
1) بچیوں کو انکی خانہ آبادی پر مبارکباد دینے جانا مستحب عمل ہے۔

2) ایسی خوشیوں کے مواقع پر چھوٹی نابالغ بچیوں کا دف بجانا جائز اور مستحب ہے تا کہ نکاح اور شادی کا اعلان ہو۔

3) آلاتِ مو سیقی میں سےصرف دف ہی ایک ایسا آلہ ہے جو شریعت میں جائز قرار دیا گیا ہے اور یہ خود ساختہ سادہ سی ڈھولک ہوتی ہے جس کی ایک جانب کھلی ہوتی ہے۔

4) اسلاف مسلمین کے کارناموں کا ذکر کرنا ممدوح ہے۔

5) شادمانی کا موقع ہو یا کسی غمی کا ایسی بات کہنا یا کرنا جو شرعی اُصول و قواعد کے خلاف ہو ناجائز ہے۔

6) رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہ عقیدہ کہ آپ علمِ غیب جانتے تھے غلط عقیدہ ہے نبی ﷺ نے اس کی تصدیق و تائید نہیں فرمائی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4922   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.