الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
The Book of As-Saum (The Fasting).
69. بَابُ صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ
69. باب: اس بارے میں کہ عاشوراء کے دن کا روزہ کیسا ہے؟
(69) Chapter. Observing Saum (fast) on the day of Ashura (tenth of Muharram).
حدیث نمبر: 2007
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا المكي بن إبراهيم، حدثنا يزيد بن ابي عبيد، عن سلمة بن الاكوع رضي الله عنه، قال:" امر النبي صلى الله عليه وسلم رجلا من اسلم ان اذن في الناس، ان من كان اكل فليصم بقية يومه، ومن لم يكن اكل فليصم، فإن اليوم يوم عاشوراء".حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ أَنْ أَذِّنْ فِي النَّاسِ، أَنَّ مَنْ كَانَ أَكَلَ فَلْيَصُمْ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ أَكَلَ فَلْيَصُمْ، فَإِنَّ الْيَوْمَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ".
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو اسلم کے ایک شخص کو لوگوں میں اس بات کے اعلان کا حکم دیا تھا کہ جو کھا چکا ہو وہ دن کے باقی حصے میں بھی کھانے پینے سے رکا رہے اور جس نے نہ کھایا ہو اسے روزہ رکھ لینا چاہئے کیونکہ یہ عاشوراء کا دن ہے۔

Narrated Salama bin Al-Akwa`: The Prophet ordered a man from the tribe of Bani Aslam to announce amongst the people that whoever had eaten should fast the rest of the day, and whoever had not eaten should continue his fast, as that day was the day of 'Ashura' .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 31, Number 225

   صحيح البخاري7265سلمة بن عمرومن أكل فليتم بقية يومه ومن لم يكن أكل فليصم
   صحيح البخاري1924سلمة بن عمرومن أكل فليتم أو فليصم ومن لم يأكل فلا يأكل
   صحيح البخاري2007سلمة بن عمرومن كان أكل فليصم بقية يومه ومن لم يكن أكل فليصم فإن اليوم يوم عاشوراء
   صحيح مسلم2668سلمة بن عمرومن كان لم يصم فليصم ومن كان أكل فليتم صيامه إلى الليل
   سنن النسائى الصغرى2323سلمة بن عمرومن كان أكل فليتم بقية يومه ومن لم يكن أكل فليصم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2007  
2007. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کرے: جس نے کچھ کھا لیا ہے وہ باقی دن کا روزہ رکھے اور جس نے نہیں کھایا وہ پورے دن کا روزہ رکھے اس لیے کہ آج کا دن عاشوراء کا دن ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2007]
حدیث حاشیہ:
یہاں کتاب الصیام ختم ہوئی جس میں حضر ت امام بخاری ؒ ایک سو ستاون احادیث لائے ہیں جن میں معلق اور موصول اور مکرر سب شامل ہیں اور صحابہ اور تابعین کے ساٹھ اثر لائے ہیں۔
جن میں اکثر معلق ہیں اور باقی موصول ہیں۔
الحمد للہ کہ آج 5 شعبان 1389ھ کو جنوبی ہند کے سفر میں ریلوے پر چلتے ہوئے اس کے ترجمہ وتشریحات سے فارغ ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2007   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2007  
2007. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کرے: جس نے کچھ کھا لیا ہے وہ باقی دن کا روزہ رکھے اور جس نے نہیں کھایا وہ پورے دن کا روزہ رکھے اس لیے کہ آج کا دن عاشوراء کا دن ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2007]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت امیر معاویہ ؓ نے امارت کے بعد پہلا حج 44 ہجری میں کیا اور دوسرا 57 ہجری میں کیا۔
ایسے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ کلمات انہوں نے دوسرے حج کے موقع پر ارشاد فرمائے اور حج کے بعد وہ دس محرم تک مدینہ طیبہ میں ٹھہرے۔
اہل مدینہ اس دن روزے کے متعلق اہتمام نہیں کرتے تھے، اس لیے انہوں نے علماء کے حوالے سے بات کی۔
(2)
سابقہ احادیث سے معلوم ہوا کہ یہودونصاریٰ اور قریش اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کی حیثیت کو برقرار رکھا حتی کہ ہجرت کے پہلے سال مدینہ طیبہ میں نہ صرف خود اس کا اہتمام کیا بلکہ دوسروں کو حکم دیا کہ وہ اس دن کا روزہ رکھیں۔
(3)
تمام احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے عاشوراء کے روزے کے متعلق مندرجہ ذیل حقائق سامنے آتے ہیں:
٭ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشوراء کا روزہ فرض تھا اور یہ فرضیت ایک سال تک رہی کیونکہ رسول اللہ ﷺ ربیع الاول کے مہینے میں مدینہ طیبہ تشریف لائے اور آئندہ سال روزوں کی فرضیت نازل ہوئی۔
٭ عام اعلان کے ذریعے سے اس کی فرضیت کی تشہیر کی جیسا کہ حضرت سلمہ بن اکوع کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے، پھر آپ نے ماؤں کو حکم دیا کہ وہ شیر خوار بچوں کو دودھ نہ پلائیں جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کے آس پاس انصار کی آبادیوں میں عاشوراء کی صبح یہ پیغام بھیجا کہ جس نے آج روزہ رکھا ہے وہ اسے مغرب تک پورا کرے اور جس نے نہیں رکھا وہ بھی بقیہ دن تک کچھ نہ کھائے پیے۔
حضرت ربیع بنت معوذ کہتی ہیں:
اس اعلان کے بعد ہم خود بھی روزہ رکھتیں اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتیں۔
جب ہم اپنے بچوں کو مسجد میں لے جاتیں تو ان کے لیے اون کا کھلونا ساتھ لے جاتیں۔
جب وہ بھوک کی وجہ سے روتے تو انہیں بہلانے کے لیے کھلونے ان کے سامنے کر دیتیں تاکہ شام تک اپنے روزے کو پورا کریں۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2669(1136)
٭ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت کو ختم کر دیا گیا، البتہ اس کے استحباب کو باقی رکھا گیا۔
علمائے اصول کا اس میں اختلاف ہے کہ جب کسی امر کی فرضیت ختم ہو جائے تو اس کی اباحت باقی رہتی ہے یا نہیں؟ امام شافعی ؒ کا موقف ہے کہ اگر کوئی حکم منسوخ ہو جائے تو اس کا جواز باقی رہتا ہے جبکہ احناف کے ہاں اس کا جواز بھی ختم ہو جاتا ہے۔
عاشوراء کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے اس کے جواز کی دلیل ہے، نیز حدیث میں ہے کہ رسول اللھ ﷺ عاشوراء کے روزے کا حکم دیتے تھے۔
جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ نے اس کے متعلق نہ حکم دیا اور نہ اس سے منع ہی کیا۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2652(1128)
بلکہ حضرت معاویہ ؓ کی حدیث سے اس کا استحباب معلوم ہوتا ہے۔
٭ حدیث میں اس دن روزہ رکھنے کی فضیلت بایں الفاظ بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اس دن روزہ رکھنے سے گزشتہ ایک سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2746(1162)
٭ یوم عاشوراء سے مراد دس محرم ہے لیکن ابن عباس ؓ سے ایک روایت ہے کہ وہ عاشوراء سے مراد نو محرم لیتے تھے۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2664(1133)
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ بھی نویں محرم کا روزہ رکھتے تھے۔
(حوالہ مذکور)
لیکن جمہور محدثین کے نزدیک عاشوراء سے مراد دس محرم ہے، البتہ رسول اللہ ﷺ نے یہود کی مخالفت کرتے ہوئے یہ فرمایا تھا کہ اگر میں زندہ رہا تو آئندہ سال نویں کا روزہ رکھوں گا، چنانچہ حدیث میں ہے جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ نے دس محرم کا روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا۔
لوگوں نے کہا کہ یہودی اور عیسائی بھی اس دن کی تعظیم کرتے ہیں (اور روزہ رکھتے ہیں)
۔
آپ نے فرمایا:
آئندہ سال ہم نو محرم کا روزہ رکھیں گے۔
لیکن آئندہ اس دن سے پہلے ہی آپ وفات پا گئے۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2666(1134)
ایک روایت میں ہے کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نو محرم کا ضرور روزہ رکھوں گا۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2667(1134)
امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں:
اس سے مراد دسویں کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنا ہے۔
(السنن الکبرٰی للبیھقي: 278/4)
حضرت ابن عباس ؓ کا فتویٰ بھی ہے کہ نویں اور دسویں کا روزہ رکھو اور اس سلسلے میں یہود کی مخالفت کرو۔
(السنن الکبرٰی للبیھقي: 287/4) (4)
ہمارے نزدیک عاشوراء محرم کے روزے کی تین صورتیں حسب ذیل ہیں:
٭ بہترین صورت یہ ہے کہ نویں اور دسویں کا روزہ رکھا جائے کیونکہ دسویں کا روزہ تو حقیقت ثابتہ ہے لیکن نویں محرم کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے اپنی خواہش کا اظہار فرمایا اگرچہ رفیق اعلیٰ سے ملاقات کی وجہ سے اس کی تکمیل نہ ہو سکی۔
٭ اس سے کم درجہ یہ ہے کہ دسویں اور گیارہویں محرم کا روزہ رکھا جائے۔
٭ سب سے کم درجہ یہ ہے کہ صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔
صرف نویں کا روزہ رکھنا کئی ایک لحاظ سے محل نظر ہے۔
اسلامی اعتبار سے عاشوراء محرم کی یہی حقیقت و اہمیت ہے، لہذا اس دن اظہار تشکر کے لیے روزہ رکھا جائے، البتہ یہود کی مخالفت کرتے ہوئے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ بھی اس کے ساتھ رکھا جائے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2007   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.