الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
50. بَابُ كَرَاهِيَةِ السَّخَبِ فِي السُّوقِ:
50. باب: بازار میں شور و غل مچانا مکروہ ہے۔
(50) Chapter. The dislike of raising voices in the market.
حدیث نمبر: 2125
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن سنان، حدثنا فليح، حدثنا هلال، عن عطاء بن يسار، قال: لقيت عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنه، قلت:" اخبرني عن صفة رسول الله صلى الله عليه وسلم في التوراة؟ قال: اجل، والله إنه لموصوف في التوراة ببعض صفته في القرآن، يا ايها النبي، إنا ارسلناك شاهدا ومبشرا ونذيرا وحرزا للاميين انت عبدي ورسولي سميتك المتوكل، ليس بفظ، ولا غليظ، ولا سخاب في الاسواق، ولا يدفع بالسيئة السيئة، ولكن يعفو ويغفر، ولن يقبضه الله حتى يقيم به الملة العوجاء بان يقولوا: لا إله إلا الله، ويفتح بها اعينا عميا، وآذانا صما، وقلوبا غلفا"، تابعه عبد العزيز بن ابي سلمة، عن هلال، وقال سعيد، عن هلال، عن عطاء، عن ابن سلام، غلف كل شيء في غلاف سيف اغلف، وقوس غلفاء، ورجل اغلف إذا لم يكن مختونا.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، حَدَّثَنَا هِلَالٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: لَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قُلْتُ:" أَخْبِرْنِي عَنْ صِفَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي التَّوْرَاةِ؟ قَالَ: أَجَلْ، وَاللَّهِ إِنَّهُ لَمَوْصُوفٌ فِي التَّوْرَاةِ بِبَعْضِ صِفَتِهِ فِي الْقُرْآنِ، يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ، إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَحِرْزًا لِلْأُمِّيِّينَ أَنْتَ عَبْدِي وَرَسُولِي سَمَّيْتُكَ المتَوَكِّلَ، لَيْسَ بِفَظٍّ، وَلَا غَلِيظٍ، وَلَا سَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ، وَلَا يَدْفَعُ بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ، وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ، وَلَنْ يَقْبِضَهُ اللَّهُ حَتَّى يُقِيمَ بِهِ الْمِلَّةَ الْعَوْجَاءَ بِأَنْ يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَيَفْتَحُ بِهَا أَعْيُنًا عُمْيًا، وَآذَانًا صُمًّا، وَقُلُوبًا غُلْفًا"، تَابَعَهُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ هِلَالٍ، وَقَالَ سَعِيدٌ، عَنْ هِلَالٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ سَلَامٍ، غُلْفٌ كُلُّ شَيْءٍ فِي غِلَافٍ سَيْفٌ أَغْلَفُ، وَقَوْسٌ غَلْفَاءُ، وَرَجُلٌ أَغْلَفُ إِذَا لَمْ يَكُنْ مَخْتُونًا.
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے فلیح نے بیان کیا، ان سے ہلال بن علی نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے کہ میں عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے ملا اور عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفات توریت میں آئی ہیں ان کے متعلق مجھے کچھ بتائیے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں! قسم اللہ کی! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تورات میں بالکل بعض وہی صفات آئی ہیں جو قرآن شریف میں مذکور ہیں۔ جیسے کہ اے نبی! ہم نے تمہیں گواہ، خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا، اور ان پڑھ قوم کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تم میرے بندے اور میرے رسول ہو۔ میں نے تمہارا نام متوکل رکھا ہے۔ تم نہ بدخو ہو، نہ سخت دل اور نہ بازاروں میں شور غل مچانے والے، (اور تورات میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ) وہ (میرا بندہ اور رسول) برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لے گا۔ بلکہ معاف اور درگزر کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اس کی روح قبض نہیں کرے گا جب تک ٹیڑھی شریعت کو اس سے سیدھی نہ کرا لے، یعنی لوگ «لا إله إلا الله» نہ کہنے لگیں اور اس کے ذریعہ وہ اندھی آنکھوں کو بینا، بہرے کانوں کو شنوا اور پردہ پڑے ہوئے دلوں کو پردے کھول دے گا۔ اس حدیث کی متابعت عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے ہلال سے کی ہے۔ اور سعید نے بیان کیا کہ ان سے ہلال نے، ان سے عطاء نے کہ «غلف» ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو پردے میں ہو۔ «سيف أغلف،‏‏‏‏ وقوس غلفاء» اسی سے ہے اور «رجل أغلف» اس شخص کو کہتے ہیں جس کا ختنہ نہ ہوا ہو۔

Narrated Ata bin Yasar: I met `Abdullah bin `Amr bin Al-`As and asked him, "Tell me about the description of Allah's Apostle which is mentioned in Torah (i.e. Old Testament.") He replied, 'Yes. By Allah, he is described in Torah with some of the qualities attributed to him in the Qur'an as follows: "O Prophet ! We have sent you as a witness (for Allah's True religion) And a giver of glad tidings (to the faithful believers), And a warner (to the unbelievers) And guardian of the illiterates. You are My slave and My messenger (i.e. Apostle). I have named you "Al-Mutawakkil" (who depends upon Allah). You are neither discourteous, harsh Nor a noisemaker in the markets And you do not do evil to those Who do evil to you, but you deal With them with forgiveness and kindness. Allah will not let him (the Prophet) Die till he makes straight the crooked people by making them say: "None has the right to be worshipped but Allah," With which will be opened blind eyes And deaf ears and enveloped hearts."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 335

   صحيح البخاري2125سميتك المتوكل ليس بفظ لا غليظ لا سخاب في الأسواق لا يدفع بالسيئة السيئة يعفو ويغفر لن يقبضه الله حتى يقيم به الملة العوجاء بأن يقولوا لا إله إلا الله ويفتح بها أعينا عميا وآذانا صما وقلوبا غلفا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2125  
2125. حضرت عطاء بن یسار سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے ملااور عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی جو صفت تورات میں ہے، مجھے اس سے مطلع کیجئے۔ انھوں نے فرمایا: اللہ کی قسم!آپ کی بعض صفات تورات میں وہی ہیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں۔ (قرآن کریم کی طرح تورات میں بھی اس قسم کا مضمون ہے)اے نبی ﷺ! یقیناً ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، خوش خبری سنانے والا، ڈرانے والا اور ْأُمِّيِّينَ کی نگہبانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تو میرا بندہ اور میرا رسول ہے۔ میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے، نہ تو بد خلق ہے اور نہ سنگ دل، نہ تو بازاروں میں شوروشغب کرنے والا ہے اور نہ برائی کا بدلہ برائی ہی سے دیتا ہے بلکہ درگزر اور مہربانی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک ہر گز موت سے دوچار نہیں کرے گا، جب تک کہ اس کے ذریعے سے ایک کج رو(ٹیڑھی)قوم کو سیدھا نہ کردے بایں طور کہ وہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2125]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث مرویہ میں کسی نہ کسی پہلو سے آنحضرت ﷺ یا صحابہ کرام ؓ کا بازاروں میں آنا جانا مذکور ہوا ہے۔
نمبر2119 میں بازاروں میں اور مسجد میں نماز باجماعت کے ثواب کے فرق کا ذکر ہے۔
حدیث نمبر2122میں آنحضرت ﷺ کا بازار قینقاع میں آنا اور وہاں سے واپسی پر حضرت فاطمہ ؓ کے گھر پر جانا مذکو رہے جہاں آپ ﷺ نے اپنے پیارے نواسے حضرت حسن ؓ کو پیار کیا، اور ان کے لیے دعائے خیر فرمائی۔
الغرض بازاروں میں آنا جانا، معاملات کرنا یہ کوئی مذموم امر نہیں ہے۔
ضروریات زندگی کے لیے بہرحال ہر کسی کو بازار جائے بغیر گزارہ نہیں، حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد اسی امر کا بیان کرنا ہے۔
کیوں کہ بیع کا تعلق زیادہ تر بازاروں ہی سے ہے۔
اسی سلسلے کے مزید بیانات آگے آرہے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2125   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2125  
2125. حضرت عطاء بن یسار سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے ملااور عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی جو صفت تورات میں ہے، مجھے اس سے مطلع کیجئے۔ انھوں نے فرمایا: اللہ کی قسم!آپ کی بعض صفات تورات میں وہی ہیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں۔ (قرآن کریم کی طرح تورات میں بھی اس قسم کا مضمون ہے)اے نبی ﷺ! یقیناً ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، خوش خبری سنانے والا، ڈرانے والا اور ْأُمِّيِّينَ کی نگہبانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تو میرا بندہ اور میرا رسول ہے۔ میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے، نہ تو بد خلق ہے اور نہ سنگ دل، نہ تو بازاروں میں شوروشغب کرنے والا ہے اور نہ برائی کا بدلہ برائی ہی سے دیتا ہے بلکہ درگزر اور مہربانی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک ہر گز موت سے دوچار نہیں کرے گا، جب تک کہ اس کے ذریعے سے ایک کج رو(ٹیڑھی)قوم کو سیدھا نہ کردے بایں طور کہ وہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2125]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام، بادشاہ اور معزز لوگوں کا بازار جانا مذموم نہیں۔
(2)
اس سے بازاری لوگوں کی مذمت بھی ثابت ہوتی ہے جو بازار میں اپنی چیز کی جھوٹی تعریف اور دوسروں کی بلاوجہ برائی کرتے ہیں، جھوٹی قسمیں اٹھاتے، آوازیں بلند کرتے اور شور مچاتے ہیں۔
غالباً انھی مذموم اوصاف کی بنا پر بازاروں کو زمین کا بدترین خطہ قرار دیا گیا ہے۔
(3)
ٹیڑھی ملت کو سیدھا کرنے کے یہ معنی ہیں کہ وہ لوگوں کو کفر سے نکال کر ایمان کی راہ دکھائیں گے حتی کے وہ اقرار شہادتین سے اسلام میں داخل ہوجائیں گے،الغرض رسول اللہ ﷺ نے واقعی ملتِ ابراہیم کو پاک صاف کرکے اصل صورت میں پیش فرمایا۔
(4)
عبدالعزیز بن ابو سلمہ کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے کتاب التفسیر میں بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4838)
(5)
سعید بن ابو ہلال نے صحابی کی تعیین میں عبدالعزیز اور فلیح کی مخالفت کی ہے کیونکہ انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے بیان کیا ہے جبکہ سعید نے حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت کیا ہے۔
ممکن ہے کہ عطاء بن یسار نے حضرت عبداللہ بن عمرو اور عبداللہ بن سلام ؓ دونوں سے اس روایت کو حاصل کیا ہو۔
(فتح الباري: 434/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2125   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.