الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
Chapters on Zuhd
31. بَابُ : ذِكْرِ الْمَوْتِ وَالاِسْتِعْدَادِ لَهُ
31. باب: موت کی یاد اور اس کی تیاری کا بیان۔
حدیث نمبر: 4262
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا شبابة , عن ابن ابي ذئب , عن محمد بن عمرو بن عطاء , عن سعيد بن يسار , عن ابي هريرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" الميت تحضره الملائكة , فإذا كان الرجل صالحا , قالوا: اخرجي ايتها النفس الطيبة , كانت في الجسد الطيب , اخرجي حميدة , وابشري بروح وريحان ورب غير غضبان , فلا يزال يقال لها ذلك حتى تخرج , ثم يعرج بها إلى السماء , فيفتح لها , فيقال: من هذا؟ فيقولون: فلان , فيقال: مرحبا بالنفس الطيبة , كانت في الجسد الطيب , ادخلي حميدة , وابشري بروح وريحان ورب غير غضبان , فلا يزال يقال لها ذلك حتى ينتهى بها إلى السماء التي فيها الله عز وجل , وإذا كان الرجل السوء , قال: اخرجي ايتها النفس الخبيثة , كانت في الجسد الخبيث , اخرجي ذميمة , وابشري بحميم وغساق وآخر من شكله ازواج , فلا يزال يقال لها ذلك حتى تخرج , ثم يعرج بها إلى السماء , فلا يفتح لها , فيقال: من هذا؟ فيقال: فلان , فيقال: لا مرحبا بالنفس الخبيثة , كانت في الجسد الخبيث , ارجعي ذميمة , فإنها لا تفتح لك ابواب السماء , فيرسل بها من السماء ثم , تصير إلى القبر".
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا شَبَابَةُ , عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" الْمَيِّتُ تَحْضُرُهُ الْمَلَائِكَةُ , فَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ صَالِحًا , قَالُوا: اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ الطَّيِّبَةُ , كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ , اخْرُجِي حَمِيدَةً , وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ وَرَيْحَانٍ وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ , فَلَا يَزَالُ يُقَالُ لَهَا ذَلِكَ حَتَّى تَخْرُجَ , ثُمَّ يُعْرَجُ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ , فَيُفْتَحُ لَهَا , فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيَقُولُونَ: فُلَانٌ , فَيُقَالُ: مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الطَّيِّبَةِ , كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ , ادْخُلِي حَمِيدَةً , وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ وَرَيْحَانٍ وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ , فَلَا يَزَالُ يُقَالُ لَهَا ذَلِكَ حَتَّى يُنْتَهَى بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ , وَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ السُّوءُ , قَالَ: اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ , كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ , اخْرُجِي ذَمِيمَةً , وَأَبْشِرِي بِحَمِيمٍ وَغَسَّاقٍ وَآخَرَ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٌ , فَلَا يَزَالُ يُقَالُ لَهَا ذَلِكَ حَتَّى تَخْرُجَ , ثُمَّ يُعْرَجُ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ , فَلَا يُفْتَحُ لَهَا , فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ: فُلَانٌ , فَيُقَالُ: لَا مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الْخَبِيثَةِ , كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ , ارْجِعِي ذَمِيمَةً , فَإِنَّهَا لَا تُفْتَحُ لَكِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ , فَيُرْسَلُ بِهَا مِنَ السَّمَاءِ ثُمَّ , تَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مرنے والے کے پاس فرشتے آتے ہیں، اگر وہ نیک ہوتا ہے تو کہتے ہیں: نکل اے پاک جان! جو کہ ایک پاک جسم میں تھی، نکل، تو لائق تعریف ہے، اور خوش ہو جا، اللہ کی رحمت و ریحان (خوشبو) سے اور ایسے رب سے جو تجھ سے ناراض نہیں ہے، اس سے برابر یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ نکل پڑتی ہے، پھر اس کو آسمان کی طرف چڑھا کر لے جایا جاتا ہے، اس کے لیے آسمان کا دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟ فرشتے کہتے ہیں کہ یہ فلاں ہے، کہا جاتا ہے: خوش آمدید! پاک جان جو کہ ایک پاک جسم میں تھی، تو داخل ہو جا، تو نیک ہے اور خوش ہو جا اللہ کی رحمت و ریحان (خوشبو) سے، اور ایسے رب سے جو تجھ سے ناخوش نہیں، اس سے برابر یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ روح اس آسمان تک پہنچ جاتی ہے جس کے اوپر اللہ عزوجل ہے، اور جب کوئی برا شخص ہوتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے: نکل اے ناپاک نفس، جو ایک ناپاک بدن میں تھی، نکل تو بری حالت میں ہے، خوش ہو جا گرم پانی اور پیپ سے، اور اس جیسی دوسری چیزوں سے، اس سے برابر یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ نکل جاتی ہے، پھر اس کو آسمان کی طرف چڑھا کر لے جایا جاتا ہے، لیکن اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا، پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟ جواب ملتا ہے: یہ فلاں ہے، کہا جاتا ہے: ناپاک روح کے لیے کوئی خوش آمدید نہیں، جو کہ ناپاک بدن میں تھی، لوٹ جا اپنی بری حالت میں، تیرے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے، اس کو آسمان سے چھوڑ دیا جاتا ہے پھر وہ قبر میں آ جاتی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13387، ومصباح الزجاجة: 1525) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے اللہ تعالی کا آسمان کے اوپر بلندی میں ہونا ثابت ہے، فاسد عقائد والے اس کا انکار کرتے ہیں، اور اہل حدیث اور اہل حق کو مشبہہ اور مجسمہ کہتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کے آسمان کے اوپر بلندی میں ہونے کے عقیدے پر کتاب و سنت کے بے شمار دلائل ہیں، اور صحابہ و تابعین و تبع تابعین اور ائمہ دین کا اس پر اتفاق ہے، اور یہ چیز انسان کی فطرت میں ہے کہ اپنے خالق و مالک کو پکارتے ہی اس کے ہاتھ اوپر اٹھ جاتے ہیں، اور نگاہیں اوپر دیکھنے لگتی ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
   سنن النسائى الصغرى1834عبد الرحمن بن صخرإذا حضر المؤمن أتته ملائكة الرحمة بحريرة بيضاء فيقولون اخرجي راضية مرضيا عنك إلى روح الله وريحان ورب غير غضبان فتخرج كأطيب ريح المسك حتى أنه ليناوله بعضهم بعضا حتى يأتون به باب السماء فيقولون ما أطيب هذه الريح التي جاءتكم من الأرض فيأتون به أرواح المؤمن
   صحيح مسلم7221عبد الرحمن بن صخرإذا خرجت روح المؤمن تلقاها ملكان يصعدانها ويقول أهل السماء روح طيبة جاءت من قبل الأرض صلى الله عليك وعلى جسد كنت تعمرينه فينطلق به إلى ربه ثم يقول انطلقوا به إلى آخر الأجل قال وإن الكافر إذا خرجت روحه
   سنن ابن ماجه4262عبد الرحمن بن صخرالميت تحضره الملائكة فإذا كان الرجل صالحا قالوا اخرجي أيتها النفس الطيبة كانت في الجسد الطيب اخرجي حميدة وأبشري بروح وريحان ورب غير غضبان فلا يزال يقال لها ذلك حتى تخرج ثم يعرج بها إلى السماء فيفتح لها فيقال من هذا فيقولون فلان فيقال مرحبا بالنفس الطيبة
   مشكوة المصابيح139عبد الرحمن بن صخرإن الميت يصير إلى القبر فيجلس الرجل الصالح في قبره غير فزع ولا مشعوف ثم يقال له فيم كنت فيقول كنت في الإسلام
   سنن ابن ماجه4268عبد الرحمن بن صخرالميت يصير إلى القبر فيجلس الرجل الصالح في قبره غير فزع ولا مشعوف

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 139  
´قبر کے اندرونی مناظر`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْمَيِّتَ يَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ فَيَجْلِسُ الرَّجُلُ الصَّالح فِي قَبره غير فزع وَلَا مشعوف ثمَّ يُقَال لَهُ فِيمَ كُنْتَ فَيَقُولُ كُنْتُ فِي الْإِسْلَامِ فَيُقَالُ لَهُ مَا هَذَا الرَّجُلُ فَيَقُولُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَصَدَّقْنَاهُ فَيُقَالُ لَهُ هَلْ رَأَيْتَ اللَّهَ فَيَقُولُ مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَرَى اللَّهَ فَيُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةً قِبَلَ النَّارِ فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يُحَطِّمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَا وَقَاكَ اللَّهُ ثمَّ يفرج لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا فَيُقَال لَهُ هَذَا مَقْعَدك وَيُقَال لَهُ عَلَى الْيَقِينِ كُنْتَ وَعَلَيْهِ مِتَّ وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِن شَاءَ الله وَيجْلس الرجل السوء فِي قَبره فَزعًا مشعوفا فَيُقَال لَهُ فِيمَ كُنْتَ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي فَيُقَالُ لَهُ مَا هَذَا الرَّجُلُ فَيَقُولُ سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ قولا فقلته فيفرج لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَا صَرَفَ اللَّهُ عَنْك ثمَّ يفرج لَهُ فُرْجَةً قِبَلَ النَّارِ فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يُحَطِّمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيُقَالُ لَهُ هَذَا مَقْعَدُكَ عَلَى الشَّك كنت وَعَلِيهِ مت وَعَلِيهِ تبْعَث إِن شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مردہ قبر میں پہنچ جاتا ہے تو اگر وہ مومن ہے تو قبر میں اطمینان کے ساتھ اٹھ بیٹھتا ہے نہ وہ خوف زدہ ہوتا ہے اور نہ کوئی گھبراہٹ ہوتی ہے۔ پھر اس سے دریافت کیا جاتا ہے تو کس دین میں تھا؟ تو وہ جواب دیتا ہے میں مذہب اسلام کا پابند تھا۔ پھر اس سے پوچھا جاتا ہے ان صاحب کے بارے میں تم کیا کہتے تھے؟ وہ جواب دیتا ہے وہ محمد جو اللہ کے رسول ہیں اور اللہ کے پاس سے ہمارے پاس کھلی کھلی دلیلیں لے کر آئے ہم نے ان کی تصدیق کی۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کیا تم نے اللہ کو دیکھا ہے؟ وہ کہتا ہے دنیا میں کوئی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔ پھر اس کے بعد دوزخ کی طرف کھڑکی کھول دی جاتی ہے وہ اسے دیکھتا ہے کہ آگ کے بعض حصے بعض حصے کو توڑتے ہیں۔ یعنی آگ کے شعلوں کو اس طرح بڑھکتا ہوا دیکھتا ہے کہ ایک کی لپٹ دوسرے کو کھا رہی ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے اس دوزخ کی آگ کو دیکھو اللہ تعالیٰ نے تم کو اس سے بچا لیا ہے (اب دوزخ میں تم نہیں داخل ہو گے)۔ پھر جنت کی طرف ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے وہ جنت کی چیزوں اور اس کی تروتازگی و خوبصورتی و رونق کو دیکھتا ہے اس سے کہا جاتا ہے یہی تیرا ٹھکانہ ہے۔ اسی وجہ سے کہ تو یقینی ایمان پر تھا اور اسی پر مرا ہے اور اسی پر اگر اللہ نے چاہا تو اٹھایا جائے گا۔ اور برا آدمی قبر میں گھبرایا ہوا، پر یشان، خوف زدہ ہو کر اٹھ بیٹھتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے تو کس دین میں تھا؟ یعنی تیرا کیا دین تھا؟ وہ جواب دیتا ہے میں نہیں جانتا، پھر اس سے کہا جاتا ہے ان کے بارے میں تم کیا کہتے تھے جو تمہارے پاس بھیجے گئے تھے؟ وہ جواب دیتا ہے جو لوگوں کو کہتے ہوئے سنتا تھا وہی میں کہتا تھا۔ تو اس کے لیے جنت کی طرف کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور اس کی چیزوں اور اسی کی تروتازگی و خوبصورتی کو دیکھتا ہے۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے اس جنت کو دیکھو جس سے اللہ نے تم کو پھیر لیا ہے اب تم جنت میں نہیں داخل ہو سکتے۔ پھر اس کے لیے دوزخ کی طرف کھڑکی کھول دی جاتی ہے تو وہ جہنم کو دیکھتا ہے کہ اس سے بعض شعلے بعض کو کھائے جا رہے ہیں۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے یہی دوزخ تیرا ٹھکانا ہے تو دنیا میں شک ہی پر تھا اور اسی شک پر تو مرا ہے اور اللہ نے چاہا تو قیامت کے دن اسی شک پر اٹھایا جائے گا۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 139]

تحقیق الحدیث:
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
اسے محدث بوصیری نے بھی صحیح کہا ہے۔

فقہ الحدیث:
➊ قبر میں برزخی اعادۂ روح برحق ہے۔
➋ دنیا میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو حالت بیداری میں نہیں دیکھ سکتا۔
➌ تقلید جائز نہیں ہے۔
➍ خبیث روح کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے۔
➎ عذاب قبر برحق ہے اس کے لئے جو عذاب کا مستحق ہے اور اہلِ ایمان کے لئے اللہ کے فضل و کرم سے ثواب قبر (قبر کی نعمتیں) برحق ہے۔
➏ اللہ تعالیٰ ساتویں آسمان سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔ «كما يليق بجلاله و شانه»
➐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واضح نشانیاں لے کر آئے ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 139   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4262  
´موت کی یاد اور اس کی تیاری کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مرنے والے کے پاس فرشتے آتے ہیں، اگر وہ نیک ہوتا ہے تو کہتے ہیں: نکل اے پاک جان! جو کہ ایک پاک جسم میں تھی، نکل، تو لائق تعریف ہے، اور خوش ہو جا، اللہ کی رحمت و ریحان (خوشبو) سے اور ایسے رب سے جو تجھ سے ناراض نہیں ہے، اس سے برابر یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ نکل پڑتی ہے، پھر اس کو آسمان کی طرف چڑھا کر لے جایا جاتا ہے، اس کے لیے آسمان کا دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟ فرشتے کہتے ہیں کہ یہ فلاں ہے، کہا جاتا ہے: خوش آمدید! پاک جان جو کہ ایک پاک ج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4262]
اردو حاشہ:
فوائدو مسائل:

(1)
فرشتے اللہ کی مقدس مخلوق ہیں۔
جو اللہ کے حکم سے مختلف فرائض انجام دیتے ہیں۔

(2)
انسانوں کی روح قبض کرنے کےلئے بھی فرشتے مقرر ہیں۔
جن کا سردار وہ ہے جس حدیث میں ملک الموت (موت کافرشتہ)
کہا گیا ہے۔
اور عوام میں اس کا نام عزرائیل مشہور ہے۔

(3)
فرشتے قریب الوفات آدمی کے پاس آکر اسے مخاطب کرتے ہیں۔
اس وقت وہ انھیں دیکھتا اور ان کی باتیں سنتا ہے۔
لیکن دوسرے انسان انھیں نہیں دیکھ سکتے۔
اور نہ ہی ان کی بات ہی سن سکتے ہیں۔

(3)
روح ایک غیر مادی وجود ہے۔
جس کی موجودگی میں جسم زندہ کہلاتا ہے۔
لیکن فرشتے اسے نکالتے، پکڑتے، اس سے بات کرتے اور بُرے انسان کی روح کو سزا بھی دیتے ہیں۔

(4)
آسمان ایک ٹھوس وجودہے۔
جس کے دروازے ہیں جو بند ہوتے ہیں اور کھلتے ہیں۔
اور فرشتے ان سے آتے جاتے ہیں۔

(5)
نیک روح کو آسمان پر لے جایاجاتا ہے۔
اوراس کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔
جب کہ بری روح کو آسمان تک لے جایا جاتا ہے۔
لیکن اسے اوپر جانے کی اجازت نہیں ملتی۔

(6)
قبر کا عذاب بھی ان غیبی معاملات میں شامل ہے۔
جس پر ایمان لانا ضروری ہے۔
اگرچہ موجودہ جسمانی حواس کے ساخت اس کا ادراک ممکن نہیں مومن کے لئے راحت بھی اسی قبیل سے ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4262   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.