الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جمعہ کے فضائل و مسائل
The Book of Jumu\'ah (Friday Prayer)
15. بَابُ : الأَذَانِ لِلْجُمُعَةِ
15. باب: جمعہ کی اذان کا بیان۔
حدیث نمبر: 1393
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا محمد بن سلمة، قال: حدثنا ابن وهب، عن يونس، عن ابن شهاب، قال: اخبرني السائب بن يزيد،" ان الاذان كان اول حين يجلس الإمام على المنبر يوم الجمعة في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر وعمر، فلما كان في خلافة عثمان وكثر الناس , امر عثمان يوم الجمعة بالاذان الثالث، فاذن به على الزوراء فثبت الامر على ذلك".
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ،" أَنَّ الْأَذَانَ كَانَ أَوَّلُ حِينَ يَجْلِسُ الْإِمَامُ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، فَلَمَّا كَانَ فِي خِلَافَةِ عُثْمَانَ وَكَثُرَ النَّاسُ , أَمَرَ عُثْمَانُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِالْأَذَانِ الثَّالِثِ، فَأُذِّنَ بِهِ عَلَى الزَّوْرَاءِ فَثَبَتَ الْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ".
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کے زمانے میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جس وقت امام منبر پر بیٹھتا، پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا، اور لوگ بڑھ گئے تو انہوں نے جمعہ کے دن تیسری اذان کا حکم دیا ۱؎، وہ اذان مقام زوراء پر دی گئی، پھر اسی پر معاملہ قائم رہا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجمعة 21 (912)، 22 (913)، 24 (915)، 25 (916)، سنن ابی داود/الصلاة 225 (1087، 1088، 1089)، سنن الترمذی/الصلاة 255 (الجمعة 20) (516)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 97 (1135)، (تحفة الأشراف: 3799)، مسند احمد 3/449، 450 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: تکبیر کو شامل کر کے تیسری اذان ہوئی، یہ ترتیب میں پہلی اذان ہے جو خلیفہ راشد عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سنت ہے، دوسری اذان اس وقت ہو گی جب امام خطبہ دینے کے لیے منبر پر بیٹھے گا، اور تیسری اذان تکبیر ہے، اگر کوئی صرف اذان اور تکبیر پر اکتفا کرے تو اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کی سنت کی اتباع کی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
   صحيح البخاري913سائب بن يزيدالذي زاد التأذين الثالث يوم الجمعة عثمان بن عفان حين كثر أهل المدينة ولم يكن للنبي مؤذن غير واحد وكان التأذين يوم الجمعة حين يجلس الإمام يعني على المنبر
   صحيح البخاري912سائب بن يزيدالنداء يوم الجمعة أوله إذا جلس الإمام على المنبر على عهد النبي وأبي بكر وعمر ما فلما كان عثمان وكثر الناس زاد النداء الثالث على الزوراء
   جامع الترمذي516سائب بن يزيدالأذان على عهد رسول الله وأبي بكر وعمر إذا خرج الإمام وإذا أقيمت الصلاة فلما كان عثمان زاد النداء الثالث على الزوراء
   سنن أبي داود1087سائب بن يزيدالأذان كان أوله حين يجلس الإمام على المنبر يوم الجمعة في عهد النبي وأبي بكر وعمر ما فلما كان خلافة عثمان وكثر الناس أمر عثمان يوم الجمعة بالأذان الثالث فأذن به على الزوراء فثبت الأمر على ذلك
   سنن النسائى الصغرى1393سائب بن يزيدالأذان كان أول حين يجلس الإمام على المنبر يوم الجمعة في عهد رسول الله وأبي بكر وعمر فلما كان في خلافة عثمان وكثر الناس أمر عثمان يوم الجمعة بالأذان الثالث فأذن به على الزوراء فثبت الأمر على ذلك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1393  
´جمعہ کی اذان کا بیان۔`
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کے زمانے میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جس وقت امام منبر پر بیٹھتا، پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا، اور لوگ بڑھ گئے تو انہوں نے جمعہ کے دن تیسری اذان کا حکم دیا ۱؎، وہ اذان مقام زوراء پر دی گئی، پھر اسی پر معاملہ قائم رہا۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1393]
1393۔ اردو حاشیہ:
➊ اس روایت میں پہلی اذان سے مراد وہ اذان ہے جو خطبۂ جمعہ کے آغاز میں کہی جاتی ہے۔ آج کل اسے دوسری اذان کہا جاتا ہے۔ حدیث میں مذکور تیسری اذان سے مراد وہ اذان ہے جو خطبے کی اذان سے کچھ دیر قبل کہی جاتی ہے تاکہ لوگ جمعے کی تیاری کر لیں۔ آج کل اسے پہلی اذان کہا جاتا ہے۔ اس روایت میں اقامت کو بھی اذان کہا گیا ہے تبھی خطبے کی اذان کو پہلی اذان کہا گیا ہے۔ گویا اقامت دوسری اذان تھی۔
لوگ زیادہ ہو گئے مدینہ منورہ کی آبادی آہستہ آہستہ بڑھ گئی اور مسلمانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا تھا جب کہ خطبۂ جمعہ صرف مسجد نبوی ہی میں ہوتا تھا۔ اگر ایک ہی اذان (اذان خطبہ) ہوتی تو شہر کے اطراف سے آنے والے نمازی خطبۂ جمعہ بلکہ نماز جمعہ سے بھی محروم رہ جاتے۔ پھر جمعے کے دن بازار لگتا تھا، لوگ خرید و فروخت میں مشغول ہوتے۔ گھڑیاں تھی نہیں۔ جمعے کے وقت کا محق اندازہ کرتے تھے، اس میں غلطی اور تاخیر کے قوی احتمالات تھے، لہٰذا وہیں بازار میں زوراء پر وقت سے اتنی دیر پہلے اذان کہی جاتی تھی کہ اسے سن کر خریدار جلدی جلدی ضرورت کی چیز خرید کر اور دکاندار سامان سمیٹ کر گھر واپس جائیں۔ پھر غسل اور وضو کریں، کپڑے بدلیں، خوشبو لگائیں اور خطبے سے پہلے پہلے مسجد نبوی میں آکر حسب توفیق نماز پڑھیں۔ ان تفصیلات کو سامنے رکھتے ہئے آج کل خطبے کی اذان سے صرف 15، 20 منٹ پہلے، وہ بھی مسجد کے اندر کہی جاتی ہے، اس کے بارے میں غور کریں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اذان سے اس کا کیا تعلق ہے؟ اور دونوںمیں کون سی مناسبت ہے؟ مزید یہ کہ آج کل گھڑیوں وغیرہ سے یہ ضرورت پوری ہوتی ہے۔ بہرحال حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مذکورہ ضرورت کے تحت ایک اذان کا اضافہ فرمایا اور ان کے پاس اس اذان کی نظیر موجود تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں صبح کی دو اذانیں ہوتی تھیں۔ ایک وقت پر اور ایک وقت سے پہلے تاکہ زیادہ مصروفیت والے لوگ پہلی اذان پر اٹھ کھڑے ہوں اور جماعت کے ساتھ مل سکیں۔ ایک اذان کی صورت میں بہت سے لوگ جماعت سے رہ جاتے، لہٰذا ایک اذان وقت سے کچھ دیر قبل کہی جاتی تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسی کو مدنظر رکھ کر خطبے سے پہلے ایک اذان کا اضافہ فرمایا جسے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے قبول فرمایا اور آہستہ آہستہ یہ تمام عالم اسلام میں رائج ہو گئی۔ اور یہ سنت المسلمین بن گئی جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر ہر دور کے مجتہدین اور ائمہ کا اجماع میسر رہا ہے۔ گویا یہ اذان ضرورت ہے، خلیفۂ راشد کی سنت ہے اور اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر اب تک اجماع ہے، لہٰذا مذکورہ بالا پس منظر مدنظر رکھ کر اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ «فعلیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین» (سنن أبي داود، السنۃ، حدیث: 4607)، البتہ اگر کہیں ضرورت محسوس نہ ہو تو ایک ہی اذان پر اکتفا کرنا بہتر ہے کیونکہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خلیفہ اول و ثانی، ابوبکر اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کا عمل بھی یہی تھا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اس (پہلی اذان) کو بدعت کہنا لغوی معنی کے لحاظ سے ہے، جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کی جماعت کو بدعت کہا: تھا، حالانکہ انہوں نے خود اس کو مستقلاً رائج کیا تھا۔ واللہ أعلم۔
زوراء بازار میں ایک بلند مکان تھا۔ وہاں یہ اذان کہی جاتی تھی تاکہ بلندی کی وجہ سے سارے مدینہ منورہ میں اذان سنائی دے کیونکہ اس (جمعہ) میں سب اہل مدینہ کی شمولیت ضروری تھی بخلاف دیگر نمازوں کے کہ وہ ہر محلے کی مقامی مساجد میں بھی باجماعت پڑھی جاتی تھیں۔
جاری ہو گیا کیونکہ وہ خلیفۂ راشد تھے، لہٰذا لوگوں نے اسے قبول کر لیا۔ بعض روایات کے مطابق مکہ مکرمہ میں حجاج کے دور میں شروع ہوئی اور بصرہ میں زیاد کے دور میں۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1393   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1087  
´جمعہ کے دن اذان دینے کا بیان۔`
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا، پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت ہوئی، اور لوگوں کی تعداد بڑھ گئی تو جمعہ کے دن انہوں نے تیسری اذان کا حکم دیا، چنانچہ زوراء ۱؎ پر اذان دی گئی پھر معاملہ اسی پر قائم رہا ۲؎۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1087]
1087۔ اردو حاشیہ:
اصل اذان جو کہ امام کہ منبر پر بیٹھنے کے وقت کی ہے پہلی اذان ہے۔ اور اقامت یعنی جماعت کے لئے تکبیر کو دوسری اذان کہا گیا ہے اور خطبہ شروع ہونے سے کچھ وقت پہلے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے جو اذان شروع کرائی گئی وہ تیسری اذان ہوئی۔ جو کہ عملاً پہلی مگر رتبہ میں تیسری ہے اسے عرف عام میں دوسری اذان اور تاریخی لحاظ سے اذان عثمانی کہتے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی اکثریت نے اسے قبول کیا ہے اور یہ عالم اسلام میں اسی دور سے جاری و ساری ہے۔ یہ اذان لوگوں کو متنبہ کرنے کے لئے تھی جیسے کہ اذان فجر سے کچھ پہلے متنبہ کرنے کے لئے دور نبوت میں اذان کہلوائی گئی۔ ابن ابی شیبہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اس اذان کو بدعت کہا ہے۔ اصحاب الحدیث کے ہاں ایسے مسائل میں توسع ہے افضل اور راحج یہی ہے کہ دور نبوت کا عمل اختیار کیا جائے۔ حسب ضرورت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا معمول اپنا لینے میں بھی کوئی حرج نہیں، ویسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ اذان مسجد نبوی سے ایک میل دور مقام زورا میں کہلوائی تھی، وہاں بازار لگتا تھا اور لوگوں کو نماز کے وقت کا علم نہیں ہوتا تھا۔ یہ اذان اتنی پہلے کہی جاتی تھی کہ لوگ یہ اذان سن کر سامان سمیٹتے، گھر جاتے، غسل اور وضو کر کے لباس بدل کر خطبہ شروع ہونے سے پہلے مسجد نبوی میں آ جاتے۔ لہٰذا اگر، اذان عثمانی ہی کہلانی ہو تو اس پس منظر کو ملحوظ رکھنا چاہیے، ورنہ خطبے سے چند منٹ پہلے امام کے منہ کے سامنے کھڑے ہو کر اذان کہنا اذان عثمانی کی متابعت ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ یہ طبع زاد اور ایجاد بند ہ ہے۔
«زورا» زاء کی فتحہ واؤ ساکن اور آخر میں الف ممدودہ۔ زورا بازار مدینہ کے قریب ایک جگہ کا نام تھا جو مسجد نبوی سے کوئی ایک میل کے فاصلے پر تھی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1087   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 516  
´جمعہ کی اذان کا بیان۔`
سائب بن یزید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے زمانے میں (پہلی) اذان اس وقت ہوتی جب امام نکلتا اور (دوسری) جب نماز کھڑی ہوتی ۱؎ پھر جب عثمان رضی الله عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے زوراء ۲؎ میں تیسری اذان کا اضافہ کیا ۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجمعة/حدیث: 516]
اردو حاشہ:
1؎:
یہاں دوسری اذان سے مراد اقامت ہے۔

2؎:
زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ کا نام تھا۔

3؎:
عثمان رضی اللہ عنہ نے مسجد سے دور بازار میں پہلی اذان دلوائی،
اور فی زمانہ لوگوں نے یہ اذان مسجد کے اندر کر دی ہے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اذان عثمان رضی اللہ عنہ کی سنت ہے،
اگر کہیں واقعی اس طرح کی ضرورت موجود ہو تو اذان مسجد سے باہر دی جائے،
ویسے اب مائک کے انتظام اور اکثر لوگوں کے ہاتھوں میں گھڑیوں کی موجودگی کے سبب اس طرح کی اذان کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ گئی،
جس ضرورت کے تحت عثمان رضی اللہ عنہ یہ زائد اذان دلوائی تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 516   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.