الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: مساقات کے بیان میں
The Book of Watering
6. بَابُ سَكْرِ الأَنْهَارِ:
6. باب: نہر کا پانی روکنا۔
(6) Chapter. The dams of rivers.
حدیث نمبر: 2360
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، قال: حدثني ابن شهاب، عن عروة، عن عبد الله بن الزبير رضي الله عنهما، انه حدثه،" ان رجلا من الانصار خاصم الزبير عند النبي صلى الله عليه وسلم في شراج الحرة التي يسقون بها النخل، فقال الانصاري: سرح الماء يمر، فابى عليه، فاختصما عند النبي صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم للزبير: اسق يا زبير، ثم ارسل الماء إلى جارك، فغضب الانصاري، فقال: ان كان ابن عمتك، فتلون وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: اسق يا زبير، ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر، فقال الزبير: والله إني لاحسب هذه الآية نزلت في ذلك فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم سورة النساء آية 65".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ حَدَّثَهُ،" أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ خَاصَمَ الزُّبَيْرَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا النَّخْلَ، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: سَرِّحْ الْمَاءَ يَمُرُّ، فَأَبَى عَلَيْهِ، فَاخْتَصَمَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ: أَسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ، فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ، فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ احْبِسْ الْمَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ، فَقَالَ الزُّبَيْرُ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَحْسِبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ سورة النساء آية 65".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک انصاری مرد نے زبیر رضی اللہ عنہ سے حرہ کے نالے میں جس کا پانی مدینہ کے لوگ کھجور کے درختوں کو دیا کرتے تھے، اپنے جھگڑے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ انصاری زبیر سے کہنے لگا پانی کو آگے جانے دو، لیکن زبیر رضی اللہ عنہ کو اس سے انکار تھا۔ اور یہی جھگڑا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ (پہلے اپنا باغ) سینچ لے پھر اپنے پڑوسی بھائی کے لیے جلدی جانے دے۔ اس پر انصاری کو غصہ آ گیا اور انہوں نے کہا، ہاں زبیر آپ کی پھوپھی کے لڑکے ہیں نا۔ بس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے زبیر! تم سیراب کر لو، پھر پانی کو اتنی دیر تک روکے رکھو کہ وہ منڈیروں تک چڑھ جائے۔ زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا، اللہ کی قسم! میرا تو خیال ہے کہ یہ آیت «فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم‏» اسی باب میں نازل ہوئی ہے ہرگز نہیں، تیرے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے جھگڑوں میں تجھ کو حاکم نہ تسلیم کر لیں آخر تک۔

Narrated `Abdullah bin Az-Zubair: An Ansari man quarreled with Az-Zubair in the presence of the Prophet about the Harra Canals which were used for irrigating the date-palms. The Ansari man said to Az-Zubair, "Let the water pass' but Az-Zubair refused to do so. So, the case was brought before the Prophet who said to Az-Zubair, "O Zubair! Irrigate (your land) and then let the water pass to your neighbor." On that the Ansari got angry and said to the Prophet, "Is it because he (i.e. Zubair) is your aunt's son?" On that the color of the face of Allah's Apostle changed (because of anger) and he said, "O Zubair! Irrigate (your land) and then withhold the water till it reaches the walls between the pits round the trees." Zubair said, "By Allah, I think that the following verse was revealed on this occasion": "But no, by your Lord They can have No faith Until they make you judge In all disputes between them." (4.65)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 40, Number 548

   صحيح البخاري2360عبد الله بن الزبيراسق يا زبير ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر لأحسب هذه الآية نزلت في ذلك فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم
   صحيح مسلم6112عبد الله بن الزبيراسق يا زبير ثم أرسل الماء إلى جارك فغضب الأنصاري فقال يا رسول الله أن كان ابن عمتك فتلون وجه نبي الله ثم قال يا زبير اسق ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر لأحسب هذه الآية نزلت في ذلك فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا
   سنن أبي داود3637عبد الله بن الزبيراسق يا زبير ثم أرسل إلى جارك فغضب الأنصاري فقال يا رسول الله أن كان ابن عمتك فتلون وجه رسول الله ثم قال اسق ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر لأحسب هذه الآية نزلت في ذلك فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك
   سنن النسائى الصغرى5418عبد الله بن الزبيراسق يا زبير ثم أرسل الماء إلى جارك فغضب الأنصاري فقال يا رسول الله أن كان ابن عمتك فتلون وجه رسول الله ثم قال يا زبير اسق ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر أحسب أن هذه الآية نزلت في ذلك فلا وربك لا يؤمنون
   سنن ابن ماجه2480عبد الله بن الزبيراسق يا زبير ثم أرسل الماء إلى جارك فغضب الأنصاري فقال يا رسول الله أن كان ابن عمتك فتلون وجه رسول الله ثم قال يا زبير اسق ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر لأحسب هذه الآية نزلت في ذلك فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2480  
´وادیوں سے آنے والے پانی کا استعمال کیسے کیا جائے۔`
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک انصاری ۱؎ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حرہ کے نالے کے سلسلے میں جس سے لوگ کھجور کے درخت سیراب کرتے تھے، (ان کے والد) زبیر رضی اللہ عنہ سے جھگڑا کیا، انصاری کہہ رہا تھا: پانی کو چھوڑ دو کہ آگے بہتا رہے، زبیر رضی اللہ عنہ نہیں مانے ۲؎ بالآخر دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس معاملہ لے گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زبیر (پانی روک کر) اپنے درختوں کو سینچ لو پھر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑ دو، انصاری نے یہ سنا تو ناراض ہو گیا اور بولا: اللہ کے رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2480]
اردو حاشہ:
فوائد و  مسائل:

(1)
جس طرف سے پانی آ رہا ہو اس طرف کے باغ اور کھیت کو پہلے پانی لینے کا حق ہے۔

(2)
نبئ اکرم ﷺنے پہلے جو فیصلہ دیا تھا اس میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کا جائزحق دین کےساتھ ساتھ فریق ثانی کی ضرورت کوبھی مدنظر رکھتےہوئے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کوتھوڑا سا ایثار کرنے کا مشورہ دیا تھا اس انداز کی صلح شرعاً درست ہے۔

(3)
رسول اللہ ﷺکا دوسرا فرمان انصاف کے مطابق فیصلہ تھا جس میں انصاری کودی گئی رعایت واپس لے لی گئی اس میں اس کو ایک لحاظ سے سزا دیتےہوئے انصاف کو قائم رکھا گیا۔

(4)
غصے کی حالت میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تاہم رسول اللہ ﷺمعصوم تھے وہ غصےکی حالت میں بھی غلط فیصلہ نہیں دیتے تھے۔

(5)
رسول اللہﷺ پرایمان میں صرف ظاہری اطاعت شامل نہیں بلکہ دل کی پوری آمادگی سےاطاعت اورہرقسم کےشک وشبہ سےمکمل اجتناب ضروری ہے۔

(6)
کسی اختلافی مسئلےمیں جب حدیث نبوی آ جائے تو سے تسلیم کرنا فرض ہے۔

(7)
قرآن مجید کی طرح حدیث نبوی کی تعمیل بھی فرض ہے۔

(8)
کھجور کے درخت کے اردگرد پانی کےلیے جگہ بنائی جاتی ہے جسے تھالہ کہتے ہیں۔
درخت کا تھالہ بھر جائے تو پانی دوسرے درخت کی طرف چھوڑ دیا جائے۔
کھیت میں پانی دینے کےلیےاتنا پانی روکنا چاہیے کہ پاوں کےٹخنے تک پانی کھڑا ہو جائے جیسے کہ اگلی حدیث میں صراحت ہے۔

(9)
آیت اس بارے میں نازل ہوئی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ واقعہ اوراس قسم کے دوسرے واقعات اس حکم میں داخل ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2480   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3637  
´قضاء سے متعلق (مزید) مسائل کا بیان۔`
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے زبیر رضی اللہ عنہ سے حرۃ کی نالیوں کے سلسلہ میں جھگڑا کیا جس سے وہ سینچائی کرتے تھے، انصاری نے زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا: پانی کو بہنے دو، لیکن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس سے انکار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم اپنے کھیت سینچ لو پھر پانی کو اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو یہ سن کر انصاری کو غصہ آ گیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! یہ آپ کے پھوپھی کے لڑکے ہیں نا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور آپ نے زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3637]
فوائد ومسائل:

کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین باوجود صحابی ہونے کے بشری خطائوں کے مرتکب ہوجاتے تھے۔
اور وہ کسی طرح معصوم نہ تھے۔
ان جزوی اور انفرادی تقصیرات کے باوجود کرہ ارض پر پائے جانے والے تمام طبقات انسانی میں ان صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا شرف وفضل غیر متنازع ہے۔
کہ اللہ عزوجل نے انھیں اپنے نبی کریمﷺ کی صحبت اور اپنے دین کی نصرت تقویت اور اشاعت کےلئے منتخب فرمایا تھا۔


قدرتی ندی نالوں اور دریائوں کے پانی کی تقسیم کا یہی شرعی حل ہے۔
کہ اولا مصالحت سے تمام شرکاء اعتدال سے استفادہ کریں۔
لیکن اگر کوئی بعد والا ہٹ دھرمی دکھائے تو پھر پہلے والے کا حق فائق ہے۔
اور جائز ہے کہ وہ اپنے کھیتوں کو خوب سیراب کرکے بعد والے کےلئے پانی چھوڑے۔


سورہ نساء کی یہ آیت مبارکہ (فَلَا وَرَبِّكَ) مسلمانو ں کے شرعی اور معاشرتی تمام امور کومحیط اور شامل ہے۔
اور واجب ہے کہ قرآن وسنت کے فیصلوں کو برضا ورغبت تسلیم کیا جائے ورنہ سرے سے ایمان ہی خطرے میں ہوسکتا ہے۔
عافانا اللہ منه و رزقنا اتباعه۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3637   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2360  
2360. حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے انھوں نے بیان کیا کہ ایک انصاری نے حضرت زبیر ؓ کے خلاف نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حرہ کے برساتی نالے کے متعلق مقدمہ پیش کیا جس سے وہ اپنے کھجور کے درختوں کو سیراب کیاکرتے تھے۔ انصاری نے کہا کہ پانی چھوڑے رکھو کہ چلتا رہے لیکن حضرت زبیر ؓ نے اس کامطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ نبی کریم ﷺ کے حضور دونوں مقدمہ لے کرحاضر ہوے تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ سے فرمایا: اے زبیر!(اپنا نخلستان) سیراب کرکے پانی اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑدو۔ یہ سن کر انصاری ناراض ہوکر کہنے لگا: یہ(فیصلہ آپ نے) اس بنا پر(کیا ہے) کہ وہ آپ کا پھوپھی زاد بھائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ متغیر ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا: اے زبیر!اپنے باغ کو سیراب کرو اور پھر پانی روکے رکھو یہاں تک کہ وہ منڈیر تک چڑھ جائے۔ حضرت زبیر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی ہے: نہیں نہیں تیرے رب کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2360]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث اور آیت کریمہ اطاعت رسول کریم ﷺ کی فرضیت پر ایک زبردست دلیل ہے اور اس امر پر بھی کہ جو لوگ صاف صریح واضح ارشاد نبوی سن کر اس کی تسلیم میں پس و پیش کریں وہ ایمان سے محروم ہیں۔
قرآن مجید کی اور بھی بہت سے آیات میں اس اصول کو بیان کیا گیا ہے۔
ایک جگہ ارشاد ہے ﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا﴾ (الأحزاب36)
کسی بھی مومن مرد اور عورت کے لیے یہ زیبا نہیں کہ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ سن لے تو پھر اس کے لیے اس بارے میں کچھ اور اختیار باقی رہے جائے۔
اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلا ہوا گمراہ ہے۔
اب ان لوگوں کو خود فیصلہ کرنا چاہئے جو آیات قرانی و احادیث نبوی کے خلاف اپنی رائے اور قیاس کو ترجیح دیتے ہیں یا وہ اپنے اماموں، پیروں، مرشدوں کے فتاووں کو مقدم رکھتے ہیں۔
اور احادیث صحیحہ کو مختلف حیلوں بہانوں سے ٹال دیتے ہیں۔
ان کو خود سوچنا چاہئے کہ ایک انصاری مسلمان صحابی نے جب آنحضرت ﷺ کے ایک قطعی فیصلہ کے خلاف ناراضگی کا اظہار کیا تو اللہ پاک نے کس غضبناک لہجہ میں اسے ڈانٹا اور اطاعت نبو ی کے لیے حکم فرمایا۔
جب ایک صحابی انصاری کے لیے یہ قانون ہے، تو اور کسی مسلمان کی کیا وقعت ہے کہ وہ کھلے لفظوں میں قرآن و حدیث کی مخالفت کرے اور پھر بھی ایمان کا ٹھیکدار بنا رہے۔
اس آیت شریفہ میں منکرین حدیث کو بھی ڈانٹا گیا ہے اور ان کو بتلایا گیا ہے کہ رسول کریم ﷺ جو بھی امور دینی میں ارشاد فرمائیں آپ کا وہ ارشاد بھی وحی الٰہی میں داخل ہے جس کا تسلیم کرنا اسی طرح واجب ہے جیسا کہ قرآن مجید کا تسلیم کرنا واجب ہے۔
جو لوگ حدیث نبوی کا انکار کرتے ہیں وہ قرآن مجید کے بھی منکر ہیں، قرآن و حدیث میں باہمی طور پر جسم اور روح کا تعلق ہے۔
اس حقیقت کا انکاری اپنی عقل و فہم سے دشمنی کا اظہار کرنے والا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2360   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2360  
2360. حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے انھوں نے بیان کیا کہ ایک انصاری نے حضرت زبیر ؓ کے خلاف نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حرہ کے برساتی نالے کے متعلق مقدمہ پیش کیا جس سے وہ اپنے کھجور کے درختوں کو سیراب کیاکرتے تھے۔ انصاری نے کہا کہ پانی چھوڑے رکھو کہ چلتا رہے لیکن حضرت زبیر ؓ نے اس کامطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ نبی کریم ﷺ کے حضور دونوں مقدمہ لے کرحاضر ہوے تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ سے فرمایا: اے زبیر!(اپنا نخلستان) سیراب کرکے پانی اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑدو۔ یہ سن کر انصاری ناراض ہوکر کہنے لگا: یہ(فیصلہ آپ نے) اس بنا پر(کیا ہے) کہ وہ آپ کا پھوپھی زاد بھائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ متغیر ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا: اے زبیر!اپنے باغ کو سیراب کرو اور پھر پانی روکے رکھو یہاں تک کہ وہ منڈیر تک چڑھ جائے۔ حضرت زبیر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی ہے: نہیں نہیں تیرے رب کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2360]
حدیث حاشیہ:
(1)
نہریں دو قسم کی ہوتی ہیں:
مملوک اور غیر مملوک۔
جو غیر مملوک ہیں ان کی پھر دو قسمیں ہیں:
ایک بڑے دریا جیسے راوی اور چناب وغیرہ اور دوسرے چھوٹے چھوٹے برساتی نالے جو بارش وغیرہ سے بہہ پڑتے ہیں۔
عنوان سے مراد برساتی اور قدرتی نالے ہیں۔
ان میں پانی محض اللہ کے فضل سے آتا ہے۔
اس میں کسی کی محنت کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔
اس میں عوام شریک ہوتے ہیں، بظاہر ان میں کسی کو کسی وقت رکاوٹ پیدا نہیں کرنی چاہیے۔
امام بخاری ؒ نے ان برساتی نالوں کے پانی کو ضرورت کے وقت روکنے کا جواز ثابت کیا ہے۔
(2)
واضح رہے کہ "حرہ" پتھریلی زمین کو کہتے ہیں۔
مدینہ طیبہ کے مشرق و مغرب میں زمین آتش فشانی لاوے پر مشتمل ہے۔
اسی علاقے کو "حرہ" کہتے ہیں۔
وہاں ایک برساتی نالا بہتا تھا جس سے حضرت زبیر ؓ اپنی زمین سیراب کرتے تھے۔
ان کا باغ بالائی علاقے میں تھا اور ایک انصاری کا باغ نشیبی علاقے میں، اس لیے حضرت زبیر ؓ پانی روک کر اپنے باغ کو سیراب کرتے تھے جبکہ انصاری کا مطالبہ تھا کہ پانی روکا نہ جائے بلکہ اسے جاری رکھا جائے۔
اس سے آگے وہی تفصیل ہے جسے حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔
(3)
اس سے معلوم ہوا کہ بالائی علاقے پر واقع باغ کو سیراب کرنے کے لیے برساتی نالے کو روکا جا سکتا ہے تاکہ پانی پودوں کی جڑوں تک پہنچ جائے۔
جو ندی نالے وادیوں سے نکلیں یا بارش آنے سے بہہ پڑیں ان کے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ جس کی زمین اوپر ہو گی، اس کا حق ہے کہ پانی روک کر اپنی زمین کو سیراب کرے، اس قدر بندش کرے کہ پانی فصل کی جڑوں تک کے لیے کافی ہو پھر نیچے والے کے لیے اسے چھوڑ دے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2360   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.