فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1864
´مصیبت میں سر منڈانا منع ہے۔`
عبدالرحمٰن بن یزید اور ابوبردہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب ابوموسیٰ اشعری (کی بیماری) سخت ہوئی، تو ان کی عورت چلاتی ہوئی آئی۔ (ان کی بیماری میں کچھ) افاقہ ہوا، تو انہوں نے کہا: کیا میں تجھے نہ بتاؤں کہ میں ان چیزوں سے بری ہوں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بری تھے، ان دونوں نے ان کی بیوی سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”میں اس شخص سے بری ہوں جو سر منڈائے، کپڑے پھاڑے اور واویلا کرے۔“ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1864]
1864۔ اردو حاشیہ: جن بالوں کو منڈوناجائز ہے، مثلا: سر کے بال، سوگ کے طور پر انہیں مونڈنا بھی ناجائز ہے اور جن بالوں کو مونڈنا ناجائز ہے، مثلا: ڈاڑھی اور ابرو وغیرہ، انہیں سوگ سے مونڈنا تو بدرجۂ اولیٰ ناجائز ہو گا۔ دراصل شریعت کا منشا یہ ہے کہ انسان حوادث سے متاثر تو ہو مگر اس قدر نہیں کہ انسانی وقار مجروح یا ختم ہو جائے، انسانیت قائم رہنی چاہیے۔ مندرجہ بالا کام انسانی وقار کے خلاف ہیں، لہٰذا منع ہیں، البتہ بے اختیار آنکھوں سے آنسوؤں کا نکل آنا اور اسی طرح غم کا اظہار کرنا جائز ہے کیونکہ یہ فطری چیزیں ہیں بلکہ ایسے موقعوں پر ان فطری چیزوں کا بھی اظہار نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ شخص فطری رحمت سے عاری ہے اور فطرت سے بے نیازی (طبعاً ہو یا تکلفاً) انسانیت کے منافی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1864