الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
The Book of Al-Mazalim
18. بَابُ قِصَاصِ الْمَظْلُومِ إِذَا وَجَدَ مَالَ ظَالِمِهِ:
18. باب: مظلوم کو اگر ظالم کا مال مل جائے تو وہ اپنے مال کے موافق اس میں سے لے سکتا ہے۔
(18) Chapter. The retaliation of the oppressed person if he finds the property of his oppressor.
حدیث نمبر: 2461
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، قال: حدثني يزيد، عن ابي الخير، عن عقبة بن عامر، قال: قلنا للنبي صلى الله عليه وسلم: إنك تبعثنا فننزل بقوم لا يقرونا، فما ترى فيه؟ فقال: لنا إن نزلتم بقوم فامر لكم بما ينبغي للضيف فاقبلوا، فإن لم يفعلوا فخذوا منهم حق الضيف".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قُلْنَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ لَا يَقْرُونَا، فَمَا تَرَى فِيهِ؟ فَقَالَ: لَنَا إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأُمِرَ لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِي لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوا، فَإِنْ لَمْ يَفْعَلُوا فَخُذُوا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یزید نے بیان کیا، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا آپ ہمیں مختلف ملک والوں کے پاس بھیجتے ہیں اور (بعض دفعہ) ہمیں ایسے لوگوں کے پاس جانا پڑتا ہے کہ وہ ہماری ضیافت تک نہیں کرتے۔ آپ کی ایسے مواقع پر کیا ہدایت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا، اگر تمہارا قیام کسی قبیلے میں ہو اور تم سے ایسا برتاؤ کیا جائے جو کسی مہمان کے لیے مناسب ہے تو تم اسے قبول کر لو، لیکن اگر وہ نہ کریں تو تم خود مہمانی کا حق ان سے وصول کر لو۔

Narrated `Uqba bin 'Amir: We staid to the Prophet, "You send us out and it happens that we have to stay with such people as do not entertain us. What do you think about it? He said to us, "If you stay with some people and they entertain you as they should for a guest, accept their hospitality, but If they don't do, take the right of the guest from them."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 43, Number 641

   صحيح البخاري2461عقبة بن عامرإن نزلتم بقوم فأمر لكم بما ينبغي للضيف فاقبلوا فإن لم يفعلوا فخذوا منهم حق الضيف
   صحيح البخاري6137عقبة بن عامرإن نزلتم بقوم فأمروا لكم بما ينبغي للضيف فاقبلوا فإن لم يفعلوا فخذوا منهم حق الضيف الذي ينبغي لهم
   صحيح مسلم4516عقبة بن عامرإن نزلتم بقوم فأمروا لكم بما ينبغي للضيف فاقبلوا فإن لم يفعلوا فخذوا منهم حق الضيف الذي ينبغي لهم
   سنن أبي داود3752عقبة بن عامرإن نزلتم بقوم فأمروا لكم بما ينبغي للضيف فاقبلوا فإن لم يفعلوا فخذوا منهم حق الضيف الذي ينبغي لهم
   سنن ابن ماجه3676عقبة بن عامرإن نزلتم بقوم فأمروا لكم بما ينبغي للضيف فاقبلوا وإن لم يفعلوا فخذوا منهم حق الضيف الذي ينبغي لهم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3676  
´مہمان کے حق کا بیان۔`
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: آپ ہم کو لوگوں کے پاس بھیجتے ہیں، اور ہم ان کے پاس اترتے ہیں تو وہ ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے، ایسی صورت میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: جب تم کسی قوم کے پاس اترو اور وہ تمہارے لیے ان چیزوں کے لینے کا حکم دیں جو مہمان کو درکار ہوتی ہیں، تو انہیں لے لو، اور اگر نہ دیں تو اپنی مہمان نوازی کا حق جو ان کے لیے مناسب ہو ان سے وصول کر لو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3676]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سرکاری امور کی انجام کی دہی کےلیے آنے والے سرکاری ملازم کی کھانے پینے اور رہائش کی ضرورت پوری کرنا بستی والوں کے لیے ضروری ہے۔

(2)
آج کل بڑے شہروں میں ایسے ملازمین کے لیے ٹھہرنے کا انتظام سرکاری طور پر ہوتا ہے، افسروں کو وہاں ٹھہرنا چاہیے اور کسی ماتحت پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔

(3)
جب سرکاری ملازم کو حکومت کی طرف سے سفر خرچ وغیرہ (ٹی اے۔
ڈی اے)

مہیا کیا جائے تو ملازم کو چاہیے کہ اس سے مناسب حد تک اپنی ضروریات پوری کرے۔
فضول خرچی کر کے یا غلط بیانی کر کے جائز حد سے زیادہ رقم وصول نہ کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3676   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2461  
2461. حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے کہا: ہم نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ہمیں کسی مہم پر بھیجتے ہیں تو کبھی ہم ایسے لوگوں کے پاس جاتے ہیں جو ہماری ضیافت تک نہیں کرتے تو اس کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم کسی قوم کے پاس جاؤ اور وہ مہمان کی شایان شان میزبانی کا اہتمام کریں تو اسے قبول کر لو اور اگر وہ (مہمانی نوازی) نہ کریں تو زبردستی ان سے اپنی مہمانی کا حق وصول کر سکتے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2461]
حدیث حاشیہ:
مہمانی کا حق میزبان کی مرضی کے خلاف وصول کرنے کے لیے جو اس حدیث میں ہدایت ہے اس کے متعلق محدثین نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں۔
بعض حضرات نے لکھا ہے کہ یہ حکم مخمصہ کی حالت کا ہے۔
بادیہ اور گاؤں کے دور دراز علاقوں میں اگر کوئی مسافر خصوصاً عرب کے ماحول میں پہنچتا تو اس کے لیے کھانے پینے کا ذریعہ اہل بادیہ کی میزبانی کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔
تو مطلب یہ ہوا کہ اگر ایسا موقع ہو اور قبیلہ والے ضیافت سے انکار کردیں، ادھر مجاہد مسافروں کے پاس کوئی سامان نہ ہو تو وہ اپنی جان بچانے کے لیے ان سے اپنا کھانا پینا ان کی مرضی کے خلاف بھی وصول کرسکتے ہیں۔
اس طرح کی رخصتیں اسلام میں مخمصہ کے اوقات میں ہیں۔
دوسری توجیہ یہ کی گئی ہے کہ ضیافت اہل عرب میں ایک عام عرف و عادت کی حیثیت رکھتی تھی۔
اس لیے اس عرف کی روشنی میں مجاہدین کو آپ نے ہدایت دی تھی۔
ایک توجیہ یہ بھی کی گئی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عرب کے بہت سے قبائل سے معاہدہ کیا تھا کہ اگر مسلمانوں کا لشکر ان کے قبیلہ سے گزرے اور ایک دو دن کے لیے ان کے یہاں قیام کرے تو وہ لشکر کی ضیافت کریں۔
یہ معاہدہ حضور اکرم ﷺ کے ان مکاتیب میں موجو دہے جو آپ نے قبائل عرب کے سرداروں کے نام بھیجے تھے۔
اور جن کی تخریج زیلعی نے بھی کی ہے۔
بہرحال مختلف توجیہات اس کی کی گئی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2461   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2461  
2461. حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے کہا: ہم نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ہمیں کسی مہم پر بھیجتے ہیں تو کبھی ہم ایسے لوگوں کے پاس جاتے ہیں جو ہماری ضیافت تک نہیں کرتے تو اس کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم کسی قوم کے پاس جاؤ اور وہ مہمان کی شایان شان میزبانی کا اہتمام کریں تو اسے قبول کر لو اور اگر وہ (مہمانی نوازی) نہ کریں تو زبردستی ان سے اپنی مہمانی کا حق وصول کر سکتے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2461]
حدیث حاشیہ:
(1)
مالی معاملات میں یہ گنجائش ہے کہ زبردستی چھینا ہوا اپنا مال کسی بھی طریقے سے واپس لیا جا سکتا ہے، البتہ بدنی عقوبات میں یہ حکم نہیں بلکہ ایسے حالات میں حاکم وقت، یعنی عدالت کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔
(2)
اس حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ مہمانی واجب ہے۔
اگر کوئی میزبانی نہ کرے تو مہمان زبردستی اپنا حق لے سکتا ہے۔
لیکن جمہور محدثین کے نزدیک ضیافت سنت مؤکدہ ہے اور مذکورہ حدیث ایسے مجبور لوگوں سے متعلق ہے جن کے پاس زادراہ ختم ہو جائے اور ان کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہ ہو۔
ہمارے رجحان کے مطابق اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو مسلمانوں کے مفتوحہ علاقوں میں کسی مقصد کے لیے جاتے تو اس زمانے میں سرکاری طور پر میزبانی کا اہتمام نہیں ہوتا تھا تو وہاں کے باشندے میزبانی کرتے تھے، آج کل چونکہ سرکاری انتظام ہوتا ہے یا عملہ تنخواہ دار ہے، اس لیے اب واجب تو نہیں، البتہ اخلاقی فرض ضرور ہے کہ وہ لوگ ضیافت کا اہتمام کریں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2461   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.