اخبرنا محمد بن سلمة، والحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع، عن ابن القاسم، قال: حدثني مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" يضحك الله إلى رجلين يقتل احدهما الآخر، كلاهما يدخل الجنة يقاتل هذا في سبيل الله، فيقتل، ثم يتوب الله على القاتل، فيقاتل فيستشهد". أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَضْحَكُ اللَّهُ إِلَى رَجُلَيْنِ يَقْتُلُ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ، كِلَاهُمَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُ هَذَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَيُقْتَلُ، ثُمَّ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَى الْقَاتِلِ، فَيُقَاتِلُ فَيُسْتَشْهَدُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ دو آدمیوں کو دیکھ کر ہنستا ہے۔ (دونوں لڑتے ہیں) ایک دوسرے کو قتل کر دیتا ہے۔ لیکن دونوں جنت میں جاتے ہیں، ایک اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے، تو وہ قتل ہو جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ مارنے والے کو توبہ کی توفیق دیتا ہے اور اس کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے۔ پھر وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اور شہادت پا جاتا ہے“۔ (اس طرح دونوں جنت کے مستحق ہو جاتے ہیں)۔
يضحك الله لرجلين يقتل أحدهما الآخر كلاهما يدخل الجنة قالوا كيف يا رسول الله قال يقتل هذا فيلج الجنة ثم يتوب الله على الآخر فيهديه إلى الإسلام ثم يجاهد في سبيل الله فيستشهد
يضحك الله إلى رجلين يقتل أحدهما الآخر كلاهما يدخل الجنة فقالوا كيف يا رسول الله قال يقاتل هذا في سبيل الله فيستشهد ثم يتوب الله على القاتل فيسلم فيقاتل في سبيل الله فيستشهد
يضحك الله لرجلين يقتل أحدهما الآخر كلاهما يدخل الجنة قالوا وكيف يا رسول الله قال يقتل هذا فيلج الجنة ثم يتوب الله على الآخر فيهديه إلى الإسلام ثم يجاهد في سبيل الله فيستشهد
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 7
´صفات الہٰی کا بیان` «. . . 348- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”يضحك الله إلى رجلين يقتل أحدهما الآخر كلاهما يدخل الجنة، يقاتل هذا فى سبيل الله فيقتل، ثم يتوب الله على القاتل فيقاتل فيستشهد“ . . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ دو آدمیوں پر ہنستا ہے (جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے) جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے (اور) دونوں جنت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ شخص فی سبیل اللہ قتال کرتا ہے تو قتل ہو جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ قاتل کو توبہ (اسلام قبول کرنے) کی توفیق دیتا ہے پھر وہ قتال کرتا ہے تو شہید ہو جاتا ہے۔“ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 7]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2826، من حديث مالك، ومسلم 1890، من حديث ابي الزناد به ورواه النسائي 6/38، 39 ح3168، من حديث عبدالرحمٰن بن القاسم به] تفقه: ➊ روایت مذکورہ میں قاتل کافر اور مقتول مسلمان ہے۔ مسلمان میدان جنگ میں کافر کے ہاتھوں شہید ہوا ہے۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے کافر کو مسلمان ہونے کی توفیق بخشی لہٰذا سابق کافر اور حال مسلمان نے اسلام قبول کرنے کے بعد کافروں سے جہاد کیا جس میں اسے بھی شہادت کا رتبہ مل گیا۔ اس لحاظ سے سابقہ قاتل وحال مقتول دونوں جنتی ہیں۔ ➋ اللہ تعالیٰ کا ہنسنا اور استہزاء فرمانا اس کی ایک صفت ہے۔ «كما يليق بجلاله عز وجل»، اسے مخلوق سے مشابہت دینا باطل ومردود ہے۔ ➌ اہلِ ایمان کو ہر وقت جہاد میں مستعد رہنا چاہئے۔ ➍ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین و شہداء کے لئے جنت کے دروازے کھول رکھے ہیں۔ ➎ سچی توبہ کرنے سے سابقہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ ➏ ایمان قول وعمل اور دلی یقین کا نام ہے۔ ➐ حافظ ابن عبدالبر نے اللہ تعالیٰ کے ہنسنے سے اس کا رحم (اور فضل وکرم) مراد لیا ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 18/345] لیکن ابن الجوزی کے نزدیک اس عقیدے کے ساتھ اسے بیان کرنا چاہئے کہ یہ اللہ کی صفت ہے اور مخلوق سے مشابہ نہیں ہے۔ دیکھئے: [فتح الباري 6/40 ح2822] اور یہی راجح ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 348
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3168
´قاتل اور شہید دونوں کے جنت میں جانے کی تفسیر۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ دو آدمیوں کو دیکھ کر ہنستا ہے۔ (دونوں لڑتے ہیں) ایک دوسرے کو قتل کر دیتا ہے۔ لیکن دونوں جنت میں جاتے ہیں، ایک اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے، تو وہ قتل ہو جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ مارنے والے کو توبہ کی توفیق دیتا ہے اور اس کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے۔ پھر وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اور شہادت پا جاتا ہے۔“(اس طرح دونوں جنت کے مستحق ہو ج [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3168]
اردو حاشہ: (1) مندرجہ بالا روایات میں تعجب کرنے‘ ہنسنے اور خوش ہونے کا ذکر ہے‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان الفاظ کا استعمال بلاریب درست ہے۔ مراد جو بھی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کا مسئلہ ہماری عقل سے ماوراء ہے۔ اس کی بحث فضول ہے۔ قرآن وحدیث میں جو الفاظ وصفات اللہ تعا لیٰ کے لیے استعمال کیے گئے ہیں‘ ان کا استعمال جائز ہے کہ رسول اللہﷺ کو لقمے اور ہدایات دے کر فلاں لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا‘ فلاں کرنا چاہیے تھا۔ اللہ اور اس کے رسول سب سے بڑھ کر اور بخوبی علم رکھنے والے ہیں۔ (2) اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل عظیم اور رحمت کا واسعہ کا ذکر ہے کہ قاتل کی توبہ قول فرماکر اسے بھی جنت کا حق دار بنادیا۔ (3) اعمال کا دارومدار خاتمے اور انجام پر ہے۔ اگر خاتمہ بالخیر ہوا ہے تو پہلی زندگی کے گناہ کچھ نقصان نہیں دیں گے۔ اور اگر انجام براءی پر ہوا ہے تو پہلی زندگی کی نیکیاں کچھ کام نہیں آئیں گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3168
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث191
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ان دو افراد کے حال پر ہنستا ہے جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے، اور دونوں جنت میں داخل ہوتے ہیں، ایک اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتال کرتا ہے اور شہید کر دیا جاتا ہے، پھر اس کے قاتل کو اللہ تعالیٰ توبہ کی توفیق دیتا ہے، اور وہ اسلام قبول کر لیتا ہے، پھر اللہ کی راہ میں لڑائی کرتا ہے اور شہید کر دیا جاتا ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 191]
اردو حاشہ: (1) اس سے اللہ کی صفت ضحك (ہنسنا) کا ثبوت ملتا ہے لیکن اللہ کی صفات پر ایمان رکھنے کے باوجود انہیں مخلوق کی صفات سے تشبیہ دینا جائز نہیں۔
(2) اللہ کا ہنسنا اس کی رضا مندی اور خوشنودی کا اظہار ہے اور رضا (خوشنودی) بھی اللہ کی ایک صفت ہے۔
(3) انسانوں کے انجام کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے، بڑے سے بڑے مجرم کے بارے میں یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے نواز دے، اس لیے جب تک کسی شخص کی موت کفر پر نہیں ہوتی اس کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اسے ہدایت نصیب نہیں ہو گی، لہذا اسے تبلیغ کرتے رہنا چاہیے۔
(4) اسلام قبول کرنے کی وجہ سے پہلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، اس لیے دوسرے آدمی کو ایک مومن کے قتل کے باوجود جہنم کی سزا نہیں ملی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 191