الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
The Book of Marriage
66. بَابُ : الْقِسْطِ فِي الأَصْدِقَةِ
66. باب: مہر کی ادائیگی میں عدل و انصاف سے کام لینے کا بیان۔
Chapter: Fairness In Giving Dowries
حدیث نمبر: 3351
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا علي بن حجر بن إياس بن مقاتل بن مشمرخ بن خالد، قال: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ايوب، وابن عون، وسلمة بن علقمة، وهشام بن حسان، دخل حديث بعضهم في بعض، عن محمد بن سيرين، قال سلمة: عن ابن سيرين نبئت , عن ابي العجفاء، وقال الآخرون: عن محمد بن سيرين، عن ابي العجفاء، قال: قال عمر بن الخطاب:" الا لا تغلوا صدق النساء، فإنه لو كان مكرمة وفي الدنيا او تقوى عند الله عز وجل، كان اولاكم به النبي صلى الله عليه وسلم، ما اصدق رسول الله صلى الله عليه وسلم امراة من نسائه، ولا اصدقت امراة من بناته اكثر من ثنتي عشرة اوقية، وإن الرجل ليغلي بصدقة امراته حتى يكون لها عداوة في نفسه، وحتى يقول: كلفت لكم علق القربة وكنت غلاما عربيا مولدا، فلم ادر ما علق القربة، قال: واخرى يقولونها لمن قتل في مغازيكم او مات قتل فلان شهيدا او مات فلان شهيدا ولعله ان يكون قد اوقر عجز دابته او دف راحلته ذهبا او ورقا يطلب التجارة فلا تقولوا ذاكم ولكن قولوا كما قال النبي صلى الله عليه وسلم:" من قتل في سبيل الله، او مات فهو في الجنة".
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرِ بْنِ إِيَاسِ بْنِ مُقَاتِلِ بْنِ مُشَمْرِخِ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، وَابْنِ عَوْنٍ، وسلمة بن علقمة، وهشام بن حسان، دخل حديث بعضهم في بعض، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ سَلَمَةُ: عَنْ ابْنِ سِيرِينَ نُبِّئْتُ , عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ، وَقَالَ الْآخَرُونَ: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ:" أَلَا لَا تَغْلُوا صُدُقَ النِّسَاءِ، فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ مَكْرُمَةً وَفِي الدُّنْيَا أَوْ تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، كَانَ أَوْلَاكُمْ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَصْدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ، وَلَا أُصْدِقَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ أَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُغْلِي بِصَدُقَةِ امْرَأَتِهِ حَتَّى يَكُونَ لَهَا عَدَاوَةٌ فِي نَفْسِهِ، وَحَتَّى يَقُولَ: كُلِّفْتُ لَكُمْ عِلْقَ الْقِرْبَةِ وَكُنْتُ غُلَامًا عَرَبِيًّا مُوَلَّدًا، فَلَمْ أَدْرِ مَا عِلْقُ الْقِرْبَةِ، قَالَ: وَأُخْرَى يَقُولُونَهَا لِمَنْ قُتِلَ فِي مَغَازِيكُمْ أَوْ مَاتَ قُتِلَ فُلَانٌ شَهِيدًا أَوْ مَاتَ فُلَانٌ شَهِيدًا وَلَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ قَدْ أَوْقَرَ عَجُزَ دَابَّتِهِ أَوْ دَفَّ رَاحِلَتِهِ ذَهَبًا أَوْ وَرِقًا يَطْلُبُ التِّجَارَةَ فَلَا تَقُولُوا ذَاكُمْ وَلَكِنْ قُولُوا كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ مَاتَ فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ".
ابوالعجفاء کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو سن لو عورتوں کے مہروں میں غلو نہ کرو کیونکہ اگر یہ زیادتی دنیا میں عزت کا باعث اور اللہ کے نزدیک پرہیزگاری کا سبب ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سب سے زیادہ حقدار تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اپنی کسی بیوی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ رکھا اور نہ ہی آپ کی کسی بیٹی کا اس سے زیادہ رکھا گیا، آدمی اپنی بیوی کا مہر زیادہ ادا کرتا ہے جس سے اس کے دل میں نفرت و عداوت پیدا ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ کہنے لگتا ہے کہ میں تو تمہاری وجہ سے مصیبت میں پھنس گیا۔ ابوالعجفاء کہتے ہیں میں خالص عربی النسل لڑکا نہ تھا اس لیے میں «عرق القربہ» کا محاورہ سمجھ نہ سکا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے دوسری بات یہ بتائی کہ جب کوئی شخص تمہاری لڑائیوں میں مارا جاتا ہے یا مر جاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں: وہ شہید کی حیثیت سے قتل ہوا یا شہادت کی موت مرا، جب کہ اس کا امکان موجود ہے کہ اس نے اپنی سواری کے پیچھے یا پہلو میں سونا چاندی لاد رکھا ہے اور مجاہدین کے ساتھ نکلنے سے اس کا مقصود تجارت ہو۔ تو تم ایسا نہ کہو بلکہ اس طرح کہو جس طرح کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے: جو شخص اللہ کی راہ میں مارا جائے یا مر جائے تو وہ جنت میں جائے گا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/النکاح 29 (2106) مختصرا، سنن الترمذی/النکاح 23 (1114) مختصراً، سنن ابن ماجہ/النکاح 17 (1887) مختصراً، مسند احمد (1/40، 41، 48، سنن الدارمی/النکاح 18 (2246) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3351  
´مہر کی ادائیگی میں عدل و انصاف سے کام لینے کا بیان۔`
ابوالعجفاء کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو سن لو عورتوں کے مہروں میں غلو نہ کرو کیونکہ اگر یہ زیادتی دنیا میں عزت کا باعث اور اللہ کے نزدیک پرہیزگاری کا سبب ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سب سے زیادہ حقدار تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اپنی کسی بیوی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ رکھا اور نہ ہی آپ کی کسی بیٹی کا اس سے زیادہ رکھا گیا، آدمی اپنی بیوی کا مہر زیادہ ادا کرتا ہے جس سے اس کے دل میں نفرت و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3351]
اردو حاشہ:
(1) حد سے نہ بڑھو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زیادہ مہر سے منع نہیں فرمایا بلکہ حیثیت سے بڑھ کر مقرر کرنے سے روکا ہے۔ جس طرح کہ بعد والے الفاظ دلالت کرتے ہیں۔
(2) بارہ مراد ساڑھے بارہ ہی ہیں جیسا کہ دوسری حدیث میں گزرا مگر یہاں کسر گرا دی گئی۔ دیکھیے: (صحیح مسلم‘ النکاح‘ حدیث: 1426)
(3) مشکیزے کی رسی مشکیزہ عام طور پر رسی کی مدد سے اٹھایا جاتا ہے حتیٰ کہ اس رسی کے نشان جسم پر پڑ جاتے ہیں۔ مقصود یہ ہے کہ مجھے تیری وجہ سے بہت ذلیل ہونا پڑا ہے اور بڑی مشقت اٹھانی پڑی ہے۔ یہ ایک محاورہ ہے۔
(4) ہوسکتا ہے یعنی ضروری نہیں میدان جنگ میں ہر مارا جانے والا یا مرنے والا شہید ہی ہو کیونکہ شہادت کا مدار تو نیت پر ہے۔ اور نیتیوں کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے‘ لہٰذا تم کسی کو شہید یا جنتی نہ کہو بلکہ اصولی بات کہو کہ جو شخص اللہ کے راستے میں مارا جائے‘ وہ شہید اور جنتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3351   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.