الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وضو کے بیان میں
The Book of Wudu (Ablution)
72. بَابُ غَسْلِ الْمَرْأَةِ أَبَاهَا الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ:
72. باب: عورت کا اپنے باپ کے چہرے سے خون دھونا جائز ہے۔
(72) Chapter. Washing blood by a woman off her father’s face.
حدیث نمبر: Q243
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال ابو العالية: امسحوا على رجلي فإنها مريضة.وَقَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ: امْسَحُوا عَلَى رِجْلِي فَإِنَّهَا مَرِيضَةٌ.
ابوالعالیہ نے (اپنے لڑکوں سے) کہا کہ میرے پیروں پر مالش کرو کیونکہ وہ مریض ہو گئے۔

حدیث نمبر: 243
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد، قال: اخبرنا سفيان بن عيينة، عن ابي حازم، سمع سهل بن سعد الساعدي وساله الناس، وما بيني وبينه احد باي شيء دووي جرح النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ما بقي احد اعلم به مني،" كان علي يجيء بترسه فيه ماء، وفاطمة تغسل عن وجهه الدم، فاخذ حصير فاحرق فحشي به جرحه".حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، سَمِعَ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ وَسَأَلَهُ النَّاسُ، وما بيني وبينه أحد بأي شيء دووي جرح النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا بَقِيَ أَحَدٌ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي،" كَانَ عَلِيٌّ يَجِيءُ بِتُرْسِهِ فِيهِ مَاءٌ، وَفَاطِمَةُ تَغْسِلُ عَنْ وَجْهِهِ الدَّمَ، فَأُخِذَ حَصِيرٌ فَأُحْرِقَ فَحُشِيَ بِهِ جُرْحُهُ".
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ابن ابی حازم کے واسطے سے نقل کیا، انہوں نے سہل بن سعد الساعدی سے سنا کہ لوگوں نے ان سے پوچھا، اور (میں اس وقت سہل کے اتنا قریب تھا کہ) میرے اور ان کے درمیان کوئی دوسرا حائل نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (احد کے) زخم کا علاج کس دوا سے کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا جاننے والا (اب) مجھ سے زیادہ کوئی نہیں رہا۔ علی رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال میں پانی لاتے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے خون دھوتیں پھر ایک بوریا کا ٹکڑا جلایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم میں بھر دیا گیا۔

Narrated Abu Hazim: Sahl bin Sa`d As-Sa`idi, was asked by the people, "With what was the wound of the Prophet treated? Sahl replied, "None remains among the people living who knows that better than I. `Ali [??] used to bring water in his shield and Fatima used to wash the blood off his face. Then straw mat was burnt and the wound was filled with it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 244

   صحيح البخاري4075سهل بن سعدأخذت قطعة من حصير فأحرقتها وألصقتها فاستمسك الدم كسرت رباعيته يومئذ وجرح وجهه وكسرت البيضة على رأسه
   صحيح البخاري3037سهل بن سعدأخذ حصير فأحرق ثم حشي به جرح رسول الله
   صحيح البخاري5248سهل بن سعدأخذ حصير فحرق فحشي به جرحه
   صحيح البخاري243سهل بن سعدأخذ حصير فأحرق فحشي به جرحه
   صحيح البخاري5722سهل بن سعدعمدت إلى حصير فأحرقتها وألصقتها على جرح رسول الله فرقأ الدم
   جامع الترمذي2085سهل بن سعدأحرق له حصير فحشا به جرحه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 243  
´عورت کا اپنے باپ کے چہرے سے خون دھونا جائز ہے`
«. . . حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، سَمِعَ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ وَسَأَلَهُ النَّاسُ، وما بيني وبينه أحد بأي شيء دووي جرح النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا بَقِيَ أَحَدٌ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، " كَانَ عَلِيٌّ يَجِيءُ بِتُرْسِهِ فِيهِ مَاءٌ، وَفَاطِمَةُ تَغْسِلُ عَنْ وَجْهِهِ الدَّمَ، فَأُخِذَ حَصِيرٌ فَأُحْرِقَ فَحُشِيَ بِهِ جُرْحُهُ " . . . .»
. . . ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ابن ابی حازم کے واسطے سے نقل کیا، انہوں نے سہل بن سعد الساعدی سے سنا کہ لوگوں نے ان سے پوچھا، اور (میں اس وقت سہل کے اتنا قریب تھا کہ) میرے اور ان کے درمیان کوئی دوسرا حائل نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (احد کے) زخم کا علاج کس دوا سے کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا جاننے والا (اب) مجھ سے زیادہ کوئی نہیں رہا۔ علی رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال میں پانی لاتے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے خون دھوتیں پھر ایک بوریا کا ٹکڑا جلایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم میں بھر دیا گیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ غَسْلِ الْمَرْأَةِ أَبَاهَا الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ:: 243]

تشریح:
اس حدیث سے دوا اور علاج کرنے کا جواز ثابت ہوا اور یہ کہ یہ توکل کے منافی نہیں۔ نیز یہ کہ نجاست دور کرنے میں دوسروں سے مدد لینا درست ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 243   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 243  
243. حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے، لوگوں نے ان سے سوال کیا: نبی ﷺ کے زخم پر کون سی دوا استعمال کی گئی تھی؟ انھوں نے فرمایا: اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی شخص نہیں رہا۔ حضرت علی ؓ اپنی ڈھال میں پانی لاتے تھے اور سیدہ فاطمہ ؓ آپ کے چہرہ مبارک سے خون دھوتی تھیں۔ پھر ایک بوریا لایا گیا اور اسے جلانے کے بعد اس کی راکھ کو آپ کے زخم میں بھر دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:243]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے دوا اور علاج کرنے کا جواز ثابت ہوا اور یہ کہ یہ توکل کے منافی نہیں۔
نیز یہ کہ نجاست دورکرنے میں دوسروں سے مدد لینا درست ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 243   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5248  
´اللہ کا سورۃ النور میں یہ فرمانا اور عورتیں اپنے زینت اپنے شوہر کے سوا کسی پر ظاہر نہ ہونے دیں`
«. . . عَنْ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ:" اخْتَلَفَ النَّاسُ بِأَيِّ شَيْءٍ دُووِيَ جُرْحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ، فَسَأَلُوا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ وَكَانَ مِنْ آخِرِ مَنْ بَقِيَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ، فَقَالَ: وَمَا بَقِيَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، كَانَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام تَغْسِلُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ وعَلِيٌّ يَأْتِي بِالْمَاءِ عَلَى تُرْسِهِ، فَأُخِذَ حَصِيرٌ، فَحُرِّقَ، فَحُشِيَ بِهِ جُرْحُهُ . . .»
. . . ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا کہ اس واقعہ میں لوگوں میں اختلاف تھا کہ احد کی جنگ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کون سی دوا استعمال کی گئی تھی۔ پھر لوگوں نے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا، وہ اس وقت آخری صحابی تھے جو مدینہ منورہ میں موجود تھے۔ انہوں نے بتلایا کہ اب کوئی شخص ایسا زندہ نہیں جو اس واقعہ کو مجھ سے زیادہ جانتا ہو۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے خون دھو رہی تھیں اور علی رضی اللہ عنہ اپنے ڈھال میں پانی بھر کر لا رہے تھے۔ (جب بند نہ ہوا تو) ایک بوریا جلا کر آپ کے زخم میں بھر دیا گیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ: 5248]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5248 کا باب: «بَابُ: {وَلاَ يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلاَّ لِبُعُولَتِهِنَّ} إِلَى قَوْلِهِ: {لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ}

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنی زیبائش و زینت کی چیز اپنے خاوند یا محرم کے سوا کسی اور پر ظاہر نہیں کر سکتی اور اس مسئلے کی تائید کے لیے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ درج فرمایا ہے، لیکن بظاہر باب اور حدیث میں مناسبت دکھائی نہیں دیتی، شارحین نے اس مناسبت کو قائم کرنے کے لئے کچھ معروضات پیش کی ہیں۔

چنانچہ عبدالحق ہاشمی رحمہ اللہ راقم ہیں:
«باشرت ذالك من أبيها مع حضرة بعلها، فيطابق الاية، وهى جواز ابداء زينتها لأبيها وبعلها.» [لب اللباب: 214/4]
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند کی موجودگی میں مرہم پٹی کی اپنے والد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی، پس مطابقت ترجمۃ الباب سے حدیث کا ہونا یہاں سے ثابت ہوا اور یہ جواز ہے کہ عورت اپنی زینت (چہرہ، ہتھیلیاں وغیرہ) اپنے خاوند اور والد کے سامنے کھول سکتی ہے۔

عبدالحق ہاشمی رحمہ اللہ کے اس مفید قول سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود پتہ چلتا ہے کہ عورت اپنے مواقع زینت کو شوہر، اپنے والد اور اپنے بیٹے وغیرہ کے سامنے کھول سکتی ہے۔

محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض آیت اور حدیث سے یہ بتلانا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے لازماً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرہم پٹی کے لیے اپنے ہاتھوں اور چہرے کو کھولا ہو گا، پس یہیں سے ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ [الابواب و التراجم: 578/5]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 97   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:243  
243. حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے، لوگوں نے ان سے سوال کیا: نبی ﷺ کے زخم پر کون سی دوا استعمال کی گئی تھی؟ انھوں نے فرمایا: اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی شخص نہیں رہا۔ حضرت علی ؓ اپنی ڈھال میں پانی لاتے تھے اور سیدہ فاطمہ ؓ آپ کے چہرہ مبارک سے خون دھوتی تھیں۔ پھر ایک بوریا لایا گیا اور اسے جلانے کے بعد اس کی راکھ کو آپ کے زخم میں بھر دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:243]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک پر غزوہ احد کے وقت زخم لگا تھا۔
جب پانی ڈالنے سے خون بند نہ ہوا تو ایک پرانا بوریا جلا کر اس کی راکھ زخم میں بھر دی گئی۔
یہ راکھ اپنے اندر یہ خصوصیت رکھتی ہے کہ اس سے خون فوراً بند ہوجاتاہے۔
یہی وجہ ہے کہ بچوں کا ختنہ کرنے کے بعد اس مقام پر راکھ لگا دی جاتی ہے، لیکن آج کل ترقی یافتہ دور میں جدید سہولیات سے فائدہ اٹھایا جاتاہے۔
ڈاکٹر حضرات سے ختنہ کرانے میں دو فائدے ہیں:
* بچے کوتکلیف نہیں ہوتی، کیونکہ وہ ختنے سے پہلے ٹیکہ لگا کرسن کردیتے ہیں۔
* ایسی ادویات استعمال کی جاتی ہیں جن سے زخم جلدی مندمل ہوجاتا ہے۔

حضرت سہل ؓ نے فرمایا کہ اس وقت مجھ سے زیادہ جاننے والاکوئی نہیں، کیونکہ یہ واقعہ غزوہ احد کے موقع پر پیش آیا اور جب حضرت سہل نے یہ حدیث بیان کی تو اس وقت اس واقعے پر اسی سال سے زائد عرصہ بیت چکا تھا اورحضرت سہل مدینے میں سب سے آخری وفات پانے والے صحابی ہیں۔
انھوں نے 91 ہجری میں وفات پائی۔
جبکہ ان کی عمر سوسال ہوچکی تھی۔
(فتح الباري: 462/1)
علامہ ابن بطال نے اس حدیث سے مندرجہ ذیل فوائد کا استخراج کیا ہے:
۔
* عورت اپنے باپ اور دیگر محارم کی خدمت اور تیمارداری کے پیش نظر ان کا بدن چھوسکتی ہے۔
* دوا اور علاج کا جواز معلوم ہوا اور ایسا کرنا توکل کے منافی نہیں۔
* علاج معالجے میں دوسروں سے مدد لینے کا جواز ثابت ہوا۔
* بوریا جلاکر اس کی راکھ زخموں پر لگانے کی افادیت معلوم ہوئی۔
* مصائب وآلام میں حضرات انبیاء علیہ السلام کو بھی مبتلا کیا جاتارہا ہے۔
* لوگ اگرکسی چیز سے واقف نہ ہوں تو اہل علم سے استفسار کاحق رکھتے ہیں۔
(شرح ابن بطال: 362/1 وعمدة القاري: 689/2)

عنوان میں (عَن وَجهِه)
کا اضافہ صرف مطابقت واقعہ کی رعایت سے کیا گیا ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ اپنے دست مبارک سے رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک دھورہی تھیں۔
یہ مطلب نہیں کہ اگر چہرے کے علاوہ بدن کے کسی اور حصے کو ہاتھ لگائے تو اس کا الگ حکم ہوگا۔
اور اس روایت کو کتاب الوضوء میں لانے کی مناسبت یہ ہے کہ وضو لغوی لحاظ سے وضاءة سے مشتق ہے جس کے معنی حسن ونظافت ہیں، لہذا چہرسے سے خون کی آلائش کو دورکرنا اس میں داخل ہوگا، لیکن ارباب:
تدبر نے توامام بخاری ؒ پر طعن کی ہے، چنانچہ اصلاحی صاحب کہتے ہیں:
اس میں کسی شرعی حکم کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔
اس باب پرباندھنے کی ضرورت نہ تھی۔
(تدبرحدیث: 334/1)
لیکن ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ کی یہ عظمت ہے کہ ان کے مخالفین بھی چاروناچار ان کی دقت نظر کا اعتراف کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں، چنانچہ اصلاحی صاحب امام بخاری کی باریک بینی بایں الفاظ بیان کرتے ہیں:
اگرسیدہ فاطمہ ؓ نے نبی کریم ﷺ کا زخم دھویا تو یہ تاریخ کا بڑا اہم واقعہ ہے۔
دنیا کی تمام خواتین کے لیے اورلڑکیوں کے لیے یہ ایک نمونہ ہے۔
اس حوالے سے امام صاحب یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اعضائے وضو پر زخم وغیرہ کی صورت میں وضو میں کسی دوسرے سے مدد لی جاسکتی ہے۔
(تدبر حدیث: 334/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 243   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.