الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
The Book of Gifts and The Superiority of Giving Gifts and The Exhortation for Giving Gifts
6. بَابُ قَبُولِ الْهَدِيَّةِ:
6. باب: ہدیہ کا قبول کرنا۔
(6) Chapter. The acceptance of a gift.
حدیث نمبر: 2573
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا إسماعيل، قال: حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، عن عبد الله بن عباس، عن الصعب بن جثامة رضي الله عنهم، انه اهدى لرسول الله صلى الله عليه وسلم حمارا وحشيا وهو بالابواء او بودان فرد عليه، فلما راى ما في وجهه، قال:" اما إنا لم نرده عليك، إلا انا حرم".حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، أَنَّهُ أَهْدَى لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِمَارًا وَحْشِيًّا وَهُوَ بِالْأَبْوَاءِ أَوْ بِوَدَّانَ فَرَدَّ عَلَيْهِ، فَلَمَّا رَأَى مَا فِي وَجْهِهِ، قَالَ:" أَمَا إِنَّا لَمْ نَرُدَّهُ عَلَيْكَ، إِلَّا أَنَّا حُرُمٌ".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ابن شہاب سے، وہ عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اور اور وہ صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گورخر کا تحفہ پیش کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مقام ابواء یا مقام ودان میں تھے (راوی کو شبہ ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا تحفہ واپس کر دیا۔ پھر ان کے چہرے پر (رنج کے آثار) دیکھ کر فرمایا کہ میں نے یہ تحفہ صرف اس لیے واپس کیا ہے کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔

Narrated As-Sa'b bin Jath-thama: An onager was presented to Allah's Apostle at the place called Al-Abwa' or Waddan, but Allah's Apostle rejected it. When the Prophet noticed the signs of sorrow on the giver's face he said, "We have not rejected your gift, but we are in the state of Ihram." (i.e. if we were not in a state of Ihram we would have accepted your gift, Fath-ul-Bari page 130, Vol. 6)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 47, Number 747

   صحيح البخاري2596صعب بن جثامةليس بنا رد عليك ولكنا حرم
   صحيح البخاري2573صعب بن جثامةلم نرده عليك إلا أنا حرم
   صحيح البخاري1825صعب بن جثامةلم نرده عليك إلا أنا حرم
   صحيح مسلم2845صعب بن جثامةلم نرده عليك إلا أنا حرم
   جامع الترمذي849صعب بن جثامةليس بنا رد عليك ولكنا حرم
   سنن النسائى الصغرى2821صعب بن جثامةلم نرده عليك إلا أنا حرم
   سنن النسائى الصغرى2822صعب بن جثامةإنا حرم لا نأكل الصيد
   سنن ابن ماجه3090صعب بن جثامةليس بنا رد عليك ولكنا حرم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم310صعب بن جثامةإنا لم نرده عليك إلا انا حرم
   بلوغ المرام600صعب بن جثامة‏‏‏‏إنا لم نرده عليك إلا انا حرم
   مسندالحميدي801صعب بن جثامةإنه ليس بنا رد عليك، ولكنا حرم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 310  
´حالت احرام میں خشکی کا شکار کرنا یا کروانا حلال نہیں`
«. . . عن ابن عباس عن الصعب بن جثامة الليثي انه اهدى لرسول الله صلى الله عليه وسلم حمارا وحشيا وهو بالابواء او بودان، فرده عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال: فلما راى رسول الله صلى الله عليه وسلم ما فى وجهي قال: إنا لم نرده عليك إلا انا حرم . . .»
. . . سیدنا ابن عبا س رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ سیدنا صعب بن جثامہ اللیثی رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابواء یا ودان ایک مقام کے پاس رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گورخر ایک حلال جانور کے گوشت کا تحفہ پیش کیا جسے انہوں نے شکار کیا تھا، تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رد کر دیا۔ (صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے چہرے کی حالت دیکھی تو فرمایا: ہم نے اسے اس لئے قبول نہیں کیا کہ ہم حالت احرام میں ہیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 310]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1825، ومسلم 1193، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ حالت احرام میں خشکی کا شکار کرنا یا کروانا یا شکار کیا ہوا خریدنا حلال نہیں ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 58/9، اور سورة المائدة آيت: 96]
➋ جو شخص احرام میں نہیں ہے اگر اپنے لئے شکار کرے اور بعد میں احرام والوں کو تحفہ دے تو اس کا کھانا حلال ہے۔ دیکھئے: [الموطأ حديث:492]
➌ عبداللہ بن عامر بن ربیعہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو عرج (کے مقام) پر گرمی کے دن میں دیکھا، آپ حالت احرام میں تھے، آپ نے سرخ کمبل سے اپنا چہرہ ڈھانپ رکھا تھا۔ پھر شکار کا گوشت لایا گیا تو آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کھاؤ، انہوں نے پوچھا: آپ نہیں کھاتے؟ تو انہوں نے فرمایا: میری حالت تمہاری حالت جیسی نہیں ہے، یہ میرے لئے شکار کیا گیا ہے۔ (اس وجہ سے میں اسے نہیں کھاتا) [الموطأ رواية ابي مصعب الزهري 452/1 ح 1147، وسنده صحيح، وللحديث لون آخرفي موطأ يحييٰ 354/1 ح 802]
➍ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اگر (حالت احرام میں) تمھارے دل میں کوئی چیز کھٹکے (مثلاً شکار کا گوشت کھانا) تو اسے چھوڑ دو۔ [الموطا رواية يحييٰ354/1 ح 803 وسنده صحيح]
➎ اگر کسی کام سے دوسرے بھائی کا غلط فہمی میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو تو اس کی وضاحت کر دینی چاہئے تاکہ دل ایک دوسرے کے لئے صاف رہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 53   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3090  
´محرم کو کون سا شکار منع ہے؟`
صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس گزرے، میں ابواء یا ودان میں تھا، میں نے آپ کو ہدیہ میں ایک نیل گائے دی، آپ نے اسے لوٹا دیا، پھر جب آپ نے میرے چہرہ پر ناگواری دیکھی تو فرمایا: ہم یہ تمہیں نہیں لوٹاتے، لیکن ہم احرام باندھے ہوئے ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3090]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
گورخر ایک جنگلی جانور ہوتا ہےجو گدھے سے کچھ مشابہت رکھتا ہےاس لیے اسے حمار وحشی یعنی جنگلی گدھا کہتے ہیں۔
یہ حلال جانور ہے۔

(2)
تحفہ دینا اور قبول کرنا مسنون ہے۔
اس سے محبت کا اظہار ہوتا ہے اور محبت بڑھتی ہے تاہم تحفہ دیتے وقت یہ خواہش نہیں ہونی چاہیے۔
کہ جواب میں بھی کوئی تحفہ پیش کیا جائےگا۔

(3)
اگر مجبوراً کسی سے ایسا معاملہ کرنا پڑے جو اسے ناگوار گزرے تو عذر بیان کردینا چاہیے تاکہ دل صاف ہوجائے۔

(4)
احرام والا اس جانور کا گوشت نہیں کھا سکتا جو اس کے لیے شکار کیا گیا ہو۔

(5)
احرام میں پالتو جانور کا گوشت کھانا منع نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3090   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 600  
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان`
سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک وحشی گدھا بطور تحفہ بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابواء یا ودان مقام پر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ انہیں واپس کر دیا اور فرمایا کہ ہم نے یہ اس لئے واپس کیا کہ ہم احرام والے ہیں۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 600]
600 لغوی تشریح:
«حِمَارًا وَّحْشِياً» اس سے مراد وحشی گدھے کا ایک ٹکڑا ہے کیونکہ صحیح مسلم میں ایک روایت کے الفاظ ہیں: وحشی گدھے کا گوشت اور دوسری میں ہے:
وحشی گدھے کا سرین اور تیسری روایت میں ہے:
شکار کے گوشت میں سے ایک ٹکڑا۔ ملاحظہ ہو: صحیح مسلم، باب تحریم الصید للمحرم۔
«بِالَّابْوَاءِ» ہمزہ پر زبر اور با ساکن ہے۔ یہ مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کے مابین ایک پہاڑ کا نام ہے جس کے پاس ایک بستی آبا ہے اور وہ بستی بھی اسی کی طرف منسوب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کا انتقال اسی جگہ پر ہوا۔ اس کے اور جحفہ کے مابین بیس یا تیس میل کی مسافت ہے۔
«وَدَّان» واؤ پر زبر اور دال مشدد ہے۔ یہ ابواء کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔
«حُرُمٌ» حا او را دونوں پر پیش ہے، یعنی ہم محرم ہیں۔

فائدہ:
یہ حدیث بظاہر پہلی حدیث کے معارض ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محرم کے لیے شکار کا گوشت مطلق طور پر حرام ہے، خواہ اس کی اجازت یا اشارے وغیرہ سے شکار نہ بھی کیا گیا ہو جبکہ پہلی حدیث میں اس کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔ ان دونوں کے درمیان تطبیق یہ دی گئی ہے کہ شکار جب محرم کے لیے کیا گیا ہو، یعنی محرم کو شکار کا گوشت کھلانے کی نیت سے شکار کیا گیا ہو تو اس کا کھانا بھی محرم کے لیے حرام ہے گو اس نے اس کا اشارہ وغیرہ نہ بھی کیا ہو کیونکہ سنن ابن ماجہ میں صحیح سند کے ساتھ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی اسی حدیث میں مروی ہے کہ جب میں نے آپ سے عرض کیا کہ جناب یہ شکار میں نے آپ کے لیے کیا ہے تو آپ نے اس میں سے کچھ بھی تناول نہ فرمایا۔ [سنن ابن ماجه، المناسك، حديث: 3093]
اسی طرح ترمذی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حالت احرام میں زمین کا شکار تمہارے لیے حلال ہے بشرطیکہ تم نے اسے شکار نہ کیا ہو یا تمہارے لیے وہ شکار نہ کیا گیا ہو۔ [جامع الترمذي، الحج باب ماجاء فى اكل الصيد للمحرم، حديث: 846]
جس سے معلوم ہوا کہ شکار جب محرم کے حکم سے یا اس کے اشارے وغیرہ سے کیا گیا ہو یا شکار محرم کی ضیافت کے لیے کیا گیا ہو تو اس کا کھانا ناجائز ہے۔ اگر یہ صورت نہ ہو تو محرم شکار کا گوشت کھا سکتا ہے۔

روای حدیث:
حضرت صعب رضی اللہ عنہ، صاد پر زبر اور عین ساکن ہے۔ والد کا نام جثامہ (جیم پر زبر اور ثا مشدد) ہے۔ لیث قبیلے سے تھے۔ ودان اور ابواء میں رہتے تھے۔ ان کی حدیث حجازیوں میں شمار ہوتی ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ان کا انتقال ہوا۔ بعض کا قول ہے کہ خلاف عثمان رضی اللہ عنہ تک زندہ رہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 600   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2573  
2573. حضرت صعب بن جثامہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک گورخر بطور ہدیہ بھیجا جبکہ آپ ابواء یا ودان مقام میں تشریف فرماتھے۔ آپ نے اسے واپس کردیا۔ پھر جب آپ نے اس کے چہرے کار نگ دیکھا تو فرمایا: ہم نے یہ تجھے صرف اس لیے واپس کیا ہے کہ ہم حالت احرام میں ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2573]
حدیث حاشیہ:
إنما قبل الصید من أبي قتادہ وردہ علی الصعب مع أنه صلی اللہ علیه وسلم کان في الحالین محرما لأن المحرم لایملك الصید و یملك مذبوح الحلال لأنه کقطعة لحم لم یبق في حکم الصید (عینی)
آنحضرت ﷺ نے ابوقتادہ ؓ کا شکار قبول فرمالیا اور صعب بن جثامہ ؓ کا واپس فرمادیا۔
حالانکہ آپ ہر دو حالتوں میں محرم تھے۔
اس کی وجہ یہ کہ محرم شکار محض کو ملکیت میں نہیں لے سکتا اور حلال ذبیحہ کو ملکیت میں لے سکتا ہے۔
اس لیے کہ وہ گوشت کے ٹکڑے کی مانند ہے جو شکار کے حکم میں باقی نہیں رہا۔
پس صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کا پیش کردہ گوشت شکار محض تھا اور آپ محرم تھے لہٰذا آپ ﷺ نے اسے واپس فرمادیا۔
(صلی اللہ علیه وسلم)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2573   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2573  
2573. حضرت صعب بن جثامہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک گورخر بطور ہدیہ بھیجا جبکہ آپ ابواء یا ودان مقام میں تشریف فرماتھے۔ آپ نے اسے واپس کردیا۔ پھر جب آپ نے اس کے چہرے کار نگ دیکھا تو فرمایا: ہم نے یہ تجھے صرف اس لیے واپس کیا ہے کہ ہم حالت احرام میں ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2573]
حدیث حاشیہ:
محرم آدمی کے لیے شکار پیش کرنے کی دو صورتیں ہیں:
ایک تو یہ ہے کہ اسے گوشت کا کچھ حصہ پیش کیا جائے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ پورا شکار زندہ شکل میں پیش کیا جائے۔
ان دونوں کی نوعیت میں فرق ہے۔
گوشت کا کچھ حصہ قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ شکار کا زندہ جانور قبول کرنا قابل اعتراض ہے کیونکہ احرام والا شخص شکار کا مالک نہیں ہو سکتا اور جب اسے غیر محرم ذبح کر دے تو اس کا مالک ہو سکتا ہے کیونکہ وہ گوشت ہے جو شکار کے حکم میں نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو قتادہ ؓ کا تحفہ قبول فرمایا کیونکہ انہوں نے گوشت حاضر خدمت کیا تھا جبکہ حضرت صعب ؓ کا شکار واپس کر دیا کیونکہ انہوں نے اسے زندہ شکل میں پیش کیا تھا۔
رسول اللہ ﷺ ہر دو وقت احرام کی حالت میں تھے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2573   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.