الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
The Book of Gifts and The Superiority of Giving Gifts and The Exhortation for Giving Gifts
35. بَابُ فَضْلِ الْمَنِيحَةِ:
35. باب: تحفہ «منيحة» کی فضیلت کے بارے میں۔
(35) Chapter. The superiority of the Maniha, i.e., a milch she-camel or a sheep lent to somebody to use its milk and return it to its owner afterwards.
حدیث نمبر: 2630
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا ابن وهب، حدثنا يونس، عن ابن شهاب، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال:" لما قدم المهاجرون المدينة من مكة وليس بايديهم يعني شيئا، وكانت الانصار اهل الارض والعقار، فقاسمهم الانصار على ان يعطوهم ثمار اموالهم كل عام ويكفوهم العمل والمئونة، وكانت امه ام انس ام سليم كانت ام عبد الله بن ابي طلحة، فكانت اعطت ام انس رسول الله صلى الله عليه وسلم عذاقا، فاعطاهن النبي صلى الله عليه وسلم ام ايمن مولاته ام اسامة بن زيد". قال ابن شهاب: فاخبرني انس بن مالك، ان النبي صلى الله عليه وسلم لما فرغ من قتل اهل خيبر فانصرف إلى المدينة، رد المهاجرون إلى الانصار منائحهم التي كانوا منحوهم من ثمارهم، فرد النبي صلى الله عليه وسلم إلى امه عذاقها، واعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم ام ايمن مكانهن من حائطه. وقال احمد بن شبيب: اخبرنا ابي، عن يونس بهذا، وقال: مكانهن من خالصه.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" لَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ الْمَدِينَةَ مِنْ مَكَّةَ وَلَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ يَعْنِي شَيْئًا، وَكَانَتْ الْأَنْصَارُ أَهْلَ الْأَرْضِ وَالْعَقَارِ، فَقَاسَمَهُمْ الْأَنْصَارُ عَلَى أَنْ يُعْطُوهُمْ ثِمَارَ أَمْوَالِهِمْ كُلَّ عَامٍ وَيَكْفُوهُمُ الْعَمَلَ وَالْمَئُونَةَ، وَكَانَتْ أُمُّهُ أُمُّ أَنَسٍ أُمُّ سُلَيْمٍ كَانَتْ أُمَّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، فَكَانَتْ أَعْطَتْ أُمُّ أَنَسٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِذَاقًا، فَأَعْطَاهُنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّ أَيْمَنَ مَوْلَاتَهُ أُمَّ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ". قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا فَرَغَ مِنْ قَتْلِ أَهْلِ خَيْبَرَ فَانْصَرَفَ إِلَى الْمَدِينَةِ، رَدَّ الْمُهَاجِرُونَ إِلَى الْأَنْصَارِ مَنَائِحَهُمُ الَّتِي كَانُوا مَنَحُوهُمْ مِنْ ثِمَارِهِمْ، فَرَدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أُمِّهِ عِذَاقَهَا، وَأَعْطَى رَسُولُ اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّ أَيْمَنَ مَكَانَهُنَّ مِنْ حَائِطِهِ. وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبٍ: أَخْبَرَنَا أَبِي، عَنْ يُونُسَ بِهَذَا، وَقَالَ: مَكَانَهُنَّ مِنْ خَالِصِهِ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ابن وہب نے خبر دی یونس سے، انہوں نے ابن شہاب سے، وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ جب مہاجرین مکہ سے مدینہ آئے تو ان کے ساتھ کوئی بھی سامان نہ تھا۔ انصار زمین اور جائیداد والے تھے۔ انصار نے مہاجرین سے یہ معاملہ کر لیا کہ وہ اپنے باغات میں سے انہیں ہر سال پھل دیا کریں گے اور اس کے بدلے مہاجرین ان کے باغات میں کام کیا کریں۔ انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ام سلیم جو عبداللہ بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہما کی بھی والدہ تھیں، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھجور کا ایک باغ ہدیہ دے دیا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ باغ اپنی لونڈی ام ایمن رضی اللہ عنہا جو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی والدہ تھیں، عنایت فرما دیا۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خیبر کے یہودیوں کی جنگ سے فارغ ہوئے اور مدینہ تشریف لائے تو مہاجرین نے انصار کو ان کے تحائف واپس کر دئیے جو انہوں نے پھلوں کی صورت میں دے رکھے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انس رضی اللہ عنہ کی والدہ کا باغ بھی واپس کر دیا اور ام ایمن رضی اللہ عنہا کو اس کے بجائے اپنے باغ میں سے (کچھ درخت) عنایت فرما دئیے۔ احمد بن شبیب نے بیان کیا، انہیں ان کے والد نے خبر دی اور انہیں یونس نے اسی طرح البتہ اپنی روایت میں بجائے «مكانهن من حائطه‏.‏» کے «مكانهن من خالصه‏.‏» مکانہن من خالصہ بیان کیا۔

Narrated Ibn Shihab Az-Zuhri: Anas bin Malik said, "When the emigrants came Medina, they had nothing whereas the Ansar had land and property. The Ansar gave them their land on condition that the emigrants would give them half the yearly yield and work on the land and provide the necessaries for cultivation." His (i.e. Anas's mother who was also the mother of `Abdullah bin Abu Talha, gave some date-palms to Allah' Apostle who gave them to his freed slave-girl (Um Aiman) who was also the mother of Usama bin Zaid. When the Prophet finished from the fighting against the people of Khaibar and returned to Medina, the emigrants returned to the Ansar the fruit gifts which the Ansar had given them. The Prophet also returned to Anas's mother the date-palms. Allah's Apostle gave Um Aiman other trees from his garden in lieu of the old gift.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 47, Number 799

   صحيح البخاري2630أنس بن مالكلما قدم المهاجرون المدينة من مكة وليس بأيديهم يعني شيئا وكانت الأنصار أهل الأرض والعقار فقاسمهم الأنصار على أن يعطوهم ثمار أموالهم كل عام ويكفوهم العمل والمئونة وكانت أمه أم أنس أم سليم كانت أم عبد الله بن أبي طلحة فكانت أعطت أم أنس رسول الله عذاقا فأعطاه
   صحيح مسلم4603أنس بن مالكقدم المهاجرون من مكة المدينة قدموا وليس بأيديهم شيء وكان الأنصار أهل الأرض والعقار فقاسمهم الأنصار على أن أعطوهم أنصاف ثمار أموالهم كل عام ويكفونهم العمل والمئونة وكانت أم أنس بن مالك وهي تدعى أم سليم وكانت أم عبد الله بن أبي طلحة كان أخا لأنس لأمه وكانت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2630  
2630. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب مہاجرین مکہ سے مدینہ طیبہ آئے تو ان کے پاس کچھ نہ تھا جبکہ انصار زمین اور جائیداد والے تھے۔ اس لیے مہاجرین کو انصار نے اپنے مال اس شرط پر تقسیم کر دیے کہ وہ انھیں ہر سال (نصف)پھل دیا کریں اور محنت و مشقت سب وہی کریں۔ ان کی والدہ یعنی حضرت انس کی والدہ حضرت اُم سلیم ؓ جو عبد اللہ بن ابی طلحہ ؓ کی بھی والدہ تھیں۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو کھجور کے کچھ درخت دیے تھے جو نبی ﷺ نے اپنی آزاد کردہ لونڈی حضرت اُم ایمن ؓ کو دے دیے جو حضرت اسامہ بن زید ؓ کی والدہ تھیں۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ جب نبی ﷺ جنگ خیبر سے فارغ ہو کر مدینہ طیبہ تشریف لائے تو مہاجرین نے انصار کو ان کی عطا کردہ تمام چیزیں واپس کردیں۔ یعنی وہ پھل دار درخت جو انھوں نے مہاجرین کو دیے تھے، چنانچہ نبی ﷺ نے بھی حضرت انس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2630]
حدیث حاشیہ:
یعنی بجائے من حائطه کے اس روایت میں من خالصه ہے۔
امام مسلم ؒ کی روایت میں یوں ہے کہ ایک شخص اپنی زمین میں سے چند کھجور کے درخت آنحضرت ﷺ کو دیا کرتا تھا۔
جب بنوقريظہ اور بنو نضیر کی جائیدادیں آپ کو ملیں تو آپ نے اس شخص کے درخت پھیر دئیے۔
انس ؓ نے کہا میرے عزیزوں نے مجھ سے کہا تو آنحضرت ﷺ کے پاس جا اور جو درخت ہم نے آنحضرت ﷺ کو دئیے تھے وہ سب کے سب یا ان میں سے کچھ واپس مانگ۔
آنحضرت ﷺ نے وہ درخت ام ایمن اپنی آیا کو دے دئیے تھے۔
میں جب آپ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے وہ درخت مجھ کو دے دئیے۔
ام ایمن آئیں اورمیرے گلے پڑ گئیں، کہنے لگیں وہ درخت تو میں تجھ کو کبھی نہیں دوں گی۔
آنحضرت ﷺ ان کو سمجھانے لگے۔
ام ایمن تو ان کے بدلے اتنے درخت لے لے۔
وہ کہتی رہیں میں ہرگز نہ لوں گی قسم اس خدا کی جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔
یہاں تک کہ آپ نے دس گنے درخت ان کے بدل دینا قبول کئے (وحیدي)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2630   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2630  
2630. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب مہاجرین مکہ سے مدینہ طیبہ آئے تو ان کے پاس کچھ نہ تھا جبکہ انصار زمین اور جائیداد والے تھے۔ اس لیے مہاجرین کو انصار نے اپنے مال اس شرط پر تقسیم کر دیے کہ وہ انھیں ہر سال (نصف)پھل دیا کریں اور محنت و مشقت سب وہی کریں۔ ان کی والدہ یعنی حضرت انس کی والدہ حضرت اُم سلیم ؓ جو عبد اللہ بن ابی طلحہ ؓ کی بھی والدہ تھیں۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو کھجور کے کچھ درخت دیے تھے جو نبی ﷺ نے اپنی آزاد کردہ لونڈی حضرت اُم ایمن ؓ کو دے دیے جو حضرت اسامہ بن زید ؓ کی والدہ تھیں۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ جب نبی ﷺ جنگ خیبر سے فارغ ہو کر مدینہ طیبہ تشریف لائے تو مہاجرین نے انصار کو ان کی عطا کردہ تمام چیزیں واپس کردیں۔ یعنی وہ پھل دار درخت جو انھوں نے مہاجرین کو دیے تھے، چنانچہ نبی ﷺ نے بھی حضرت انس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2630]
حدیث حاشیہ:
(1)
جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آئے تو انصار نے بڑی فیاضی سے پیشکش کی کہ اے اللہ کے رسول! ہماری زمینیں اور ہمارے باغ مہاجرین میں تقسیم کر دیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس کی اجازت نہ دی، آخر یہ طے ہوا کہ مہاجرین باغوں میں محنت کریں گے اور پھل وغیرہ تقسیم کر لیا جائے گا۔
(2)
صحیح مسلم میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ ایک شخص اپنے نخلستان میں سے چند ایک درختوں کا پھل رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتا تھا، جب بنو قریظہ اور بنو نضیر کے باغات آپ کے قبضے میں آئے تو آپ نے دوسروں کے دیے ہوئے درخت واپس کر دیے۔
(صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 4604(1771)
حضرت انس ؓ کہتے ہیں:
میرے عزیزوں نے مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا تاکہ میں بھی ان درختوں کی واپسی کا مطالبہ کروں جو انہوں نے آپ کو دیے تھے۔
چونکہ آپ نے وہ درخت ام ایمن ؓ کو دیے دیے تھے، اس لیے جب وہ درخت واپس کیے تو ام ایمن ؓ آئیں اور ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگیں میں تو وہ درخت تمہیں واپس نہیں کروں گی، بالآخر رسول اللہ ﷺ نے انہیں دس گنا درخت دے کر راضی کیا۔
(فتح الباري: 301/5)
احمد بن شبیب کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے اپنے خاص حصے میں سے ام ایمن ؓ کو درخت عطا فرمائے۔
ان دونوں روایات میں کوئی تضاد نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2630   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.