الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
87. بَابُ : ذِكْرِ النَّهْىِ عَنْ لُبْسِ الدِّيبَاجِ
87. باب: دیبا نامی ریشمی کپڑا پہننا منع ہے۔
Chapter: Mentioning the Prohibition of Wearing Ad-Dibaj
حدیث نمبر: 5303
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا محمد بن عبد الله بن يزيد، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثنا ابن ابي نجيح، عن مجاهد، عن ابن ابي ليلى، ويزيد بن ابي زياد، عن ابن ابي ليلى، وابو فروة، عن عبد الله بن عكيم، قال: استسقى حذيفة، فاتاه دهقان بماء في إناء من فضة، فحذفه، ثم اعتذر إليهم مما صنع به، وقال: إني نهيته، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لا تشربوا في إناء الذهب والفضة، ولا تلبسوا الديباج، ولا الحرير، فإنها لهم في الدنيا ولنا في الآخرة".
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، وَأَبُو فَرْوَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ، قَالَ: اسْتَسْقَى حُذَيْفَةُ، فَأَتَاهُ دُهْقَانٌ بِمَاءٍ فِي إِنَاءٍ مِنْ فِضَّةٍ، فَحَذَفَهُ، ثُمَّ اعْتَذَرَ إِلَيْهِمْ مِمَّا صَنَعَ بِهِ، وَقَالَ: إِنِّي نُهِيتُهُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا تَشْرَبُوا فِي إِنَاءِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَلَا تَلْبَسُوا الدِّيبَاجَ، وَلَا الْحَرِيرَ، فَإِنَّهَا لَهُمْ فِي الدُّنْيَا وَلَنَا فِي الْآخِرَةِ".
عبداللہ بن عکیم سے روایت ہے کہ حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ نے پانی مانگا تو ایک اعرابی (دیہاتی) چاندی کے برتن میں پانی لے آیا، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اسے پھینک دیا، پھر جو کیا اس کے لیے لوگوں سے معذرت کی اور کہا: مجھے اس سے روکا گیا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: سونے اور چاندی کے برتن میں نہ پیو اور دیبا نامی ریشم نہ پہنو اور نہ ہی حریر نامی ریشم، کیونکہ یہ ان (کفار و مشرکین) کے لیے دنیا میں ہے اور ہمارے لیے آخرت میں ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأطعمة 29 (5426)، الأشربة 27 (5632)، 28 (5633)، اللباس 25 (5831)، 27 (5837)، صحیح مسلم/اللباس 1 (2067)، سنن ابی داود/الأشربة 17 (3723)، سنن الترمذی/الأشربة 10 (1879)، سنن ابن ماجہ/الأشربة 17 (3414)، (تحفة الأشراف: 3368، 3373)، مسند احمد (5/385، 39، 396، 400، 408) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
   صحيح البخاري5426حذيفة بن حسيللا تلبسوا الحرير لا الديباج لا تشربوا في آنية الذهب الفضة لا تأكلوا في صحافها لهم في الدنيا ولنا في الآخرة
   صحيح مسلم5394حذيفة بن حسيللا تشربوا في إناء الذهب الفضة لا تلبسوا الديباج الحرير لهم في الدنيا وهو لكم في الآخرة يوم القيامة
   صحيح مسلم5400حذيفة بن حسيللا تلبسوا الحرير لا الديباج لا تشربوا في آنية الذهب الفضة لا تأكلوا في صحافها إنها لهم في الدنيا
   سنن النسائى الصغرى5303حذيفة بن حسيللا تشربوا في إناء الذهب الفضة لا تلبسوا الديباج لا الحرير لهم في الدنيا ولنا في الآخرة
   بلوغ المرام14حذيفة بن حسيللا تشربوا في آنية الذهب والفضة ولا تاكلوا في صحافهما،‏‏‏‏ فإنها لهم في الدنيا ولكم في الآخرة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 14  
´سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا پینا حرام ہے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: لا تشربوا في آنية الذهب والفضة ولا تاكلوا في صحافهما،‏‏‏‏ فإنها لهم في الدنيا ولكم في الآخرة . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ پیا کرو اور ان کے پیالوں میں کھایا بھی نہ کرو۔ دنیا میں یہ کافروں کیلئے ہیں اور آخرت میں فقط تمہارے لئے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 14]

لغوی تشریح:
«بَابُ الْآنِيَةِ» «آنية»، «إِنَاءٌ» کی جمع ہے جس کے معنی برتن کے ہیں۔ (بلوغ المرام کے) ابواب الطھارۃ کے درمیان میں برتنوں کے احکام بیان کرنے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ شریعت اسلامیہ میں بعض برتن ایسے ہیں جنہیں استعمال کرنا جائز ہے اور کچھ ایسے ہیں جن کا استعمال ممنوع ہے۔ اس طرح ایک پاک باز انسان کو جائز اور ممنوع برتنوں میں امتیاز ہو جاتا ہے۔
«صِحَافِهَا» یہ «صَحْفَة» کی جمع ہے جس کے معنی پیالے کے ہیں۔
«لَهُمْ» سے مشرکین مراد ہیں۔
«فِي الدُّنْيَا» یعنی دنیا میں یہ برتن ان کے لیے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سونے اور چاندی کے برتن مشرکین کے لیے حلال ہیں بلکہ ان کا عمل بیان کرنا مقصد ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا پینا حرام ہے اور اس پر نص آ چکی ہے، نیز ان برتنوں کے پانی سے وضو اور غسل کرنا ناجائز ہے۔ یہ بات اس حدیث کے عموم میں شامل ہے کہ ان کا استعمال درست نہیں۔
➋ اس حدیث کو اس مقام پر پیش کرنے کا مقصد بھی یہی ثابت کرنا ہے ورنہ اس حدیث کا اصل مقام کھانے پینے کا باب تھا۔ ضمناً یہ بھی معلوم ہوا کہ جواہرات اور یاقوت وغیرہ کے برتنوں میں کھانا پینا اور وضو و غسل کرنا جائز ہے، البتہ جن برتنوں پر سونے چاندی کا پانی ملمع کیا گیا ہو ان کے بارے میں اختلاف ہے۔ اجتناب کرنا بہرحال بہتر اور اولیٰ ہے۔

راویٔ حدیث:
SR سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ:ER حذیفہ تصغیر ہے۔ ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے۔ مشہور صحابی ہیں اور صحابی رسول سیدنا یمان رضی اللہ عنہ (میم کی تخفیف کے ساتھ) کے بیٹے ہیں۔ رازدان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے لقب سے مشہور و معروف ہیں۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ (ذوالنورین) کی شہادت کے چالیس روز بعد 35 یا 36 ہجری میں مدائن میں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 14   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5426  
´چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟`
«. . . حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى، أَنَّهُمْ كَانُوا عِنْدَ حُذَيْفَةَ فَاسْتَسْقَى، فَسَقَاهُ مَجُوسِيٌّ فَلَمَّا وَضَعَ الْقَدَحَ فِي يَدِهِ رَمَاهُ بِهِ، وَقَالَ: لَوْلَا أَنِّي نَهَيْتُهُ غَيْرَ مَرَّةٍ وَلَا مَرَّتَيْنِ، كَأَنَّهُ يَقُولُ: لَمْ أَفْعَلْ هَذَا وَلَكِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا تَلْبَسُوا الْحَرِيرَ وَلَا الدِّيبَاجَ، وَلَا تَشْرَبُوا فِي آنِيَةِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَلَا تَأْكُلُوا فِي صِحَافِهَا، فَإِنَّهَا لَهُمْ فِي الدُّنْيَا وَلَنَا فِي الْآخِرَةِ. . .»
. . . عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے بیان کیا کہ یہ لوگ حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں موجود تھے۔ انہوں نے پانی مانگا تو ایک مجوسی نے ان کو پانی (چاندی کے پیالے میں) لا کر دیا۔ جب اس نے پیالہ ان کے ہاتھ میں دیا تو انہوں نے پیالہ کو اس پر پھینک کر مارا اور کہا اگر میں نے اسے بارہا اس سے منع نہ کیا ہوتا (کہ چاندی سونے کے برتن میں مجھے کچھ نہ دیا کرو) آگے وہ یہ فرمانا چاہتے تھے کہ تو میں اس سے یہ معاملہ نہ کرتا لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ریشم و دیبا نہ پہنو اور نہ سونے چاندی کے برتن میں کچھ پیو اور نہ ان کی پلیٹوں میں کچھ کھاؤ کیونکہ یہ چیزیں ان (کفار کے لیے) دنیا میں ہیں اور ہمارے لیے آخرت میں ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ: 5426]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5426 کا باب: «بَابُ الأَكْلِ فِي إِنَاءٍ مُفَضَّضٍ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب «أكل» کے متعلق قائم فرمایا ہے جبکہ حدیث تحت الباب «شرب» کے متعلق پیش فرمائی ہے، لہٰذا ان میں مطابقت کس طرح سے ہو گی؟

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ:
«وحديث حذيفة الذى ساقه فى الباب، فيه النهي عن الشرب فى آنية الذهب والفضة، ويؤخر منه فى الأكل بطريق الإلحاق وهذا بالنسبة لحديث حذيفة.» [فتح الباري لابن حجر: 473/10]
یعنی حدیث حذیفہ میں سونے اور چاندی سے بنے برتنوں میں پینے سے نہی وارد ہے، «اكل» کا منع ہونا بھی بطریق الحاق اسی سے ماخوذ ہے، حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی نسبت سے۔ (کیونکہ جب پینا منع ہے بطریق اولٰی کھانا بھی منع ہو گا۔)

عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب کے تحت سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کا ذکر فرمایا جو کہ سونے اور چاندی کے برتنوں میں پینے کی نہی پر مبنی ہے اور اسی حکم سے «أكل» کی ممانعت بھی اخذ کی جائے گی واسطے اس کی علت جامعہ کے، پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ [لب اللباب: 279/4]
لہٰذا ان گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ باب میں «اكل» کے الفاظ ہیں، بطریق اولیٰ جس میں «شرب» کا مفہوم بھی موجود ہے اور سونے اور چاندی کے برتنوں میں بالاتفاق «اكل» اور «شرب» دونوں ہی ممنوع ہیں۔

علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وهذا الحديث يدل على تحريم استعمال الحرير والديباج وعلى حرمة الشرب والأكل من إناء الذهب والفضة.» [عمدة القاري للعيني: 93/21]
یہ حدیث سونے اور چاندی کے برتنوں کو استعمال کرنے پر ممانعت سے اور یہ حرام ہے کہ ان برتنوں سے پیا جائے یا کھایا جائے۔
پس یہی مقصود ہے باب اور حدیث میں۔

ایک اشکال اور اس کا جواب:
«قال مغلطائي: لا يطابق الحديث الترجمة الا ان كان الإناء الذى سقي فيه حذيفة كان مضبياً فان الضبة موضع الشقة عند الشرب.» [فتح الباري لابن حجر: 473/10]
حدیث باب ترجمۃ کے مطابق نہیں ہے، الا یہ کہ برتن جو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو پیش کیا گیا مضب ہو کہ ضبہ وہ حصہ ہوتا ہے جہاں ہونٹ لگا کر پیتے ہیں۔
علامہ کرمانی رحمہ اللہ اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«وأجاب الكرماني بأن لفظ مفضض وإن كان ظاهراً فيما فيه فضة لكنه يشمل ما اذا كان متخذاً كله من قضة والنهي عن الشرب فى اٰنية الفضة يلحق به الأكل للعلة الجامعة فيطابق الحديث، الترجمة.»
لہٰذا باب اور حدیث میں مناسبت اس جہت کے ساتھ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں صحیح مسلم کی حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں واضح رومال کے استعال کا جواز موجود ہے۔

انگلیوں کو چاٹنا، جدید تحقیقات کی روشنی میں:
مختلف شروحات میں انگلیاں چاٹنے کی مختلف حکمتیں بیان کی گئی ہیں، مثلاً:
◈ انگلیاں چاٹنے کے بعد رومال وغیرہ سے ہاتھ پونچھنے میں زیادہ آلودگی اور تلویث نہیں ہو گی۔ [فتح الباري لابن حجر: 492/90]
◈ دوسرا یہ کہ ہو سکتا ہے انگلیوں پر لگا ہوا جو حصہ ہو اس میں برکت ہو۔ [صحيح مسلم، كتاب الاشربة والاطعمة: رقم: 2033]
◈ انگلیوں پر لگی غذا کو اس لیے چاٹا جائے کہ اسے قلیل اور حقیر نہ سمجھا جائے۔ [فتح الباري لابن حجر: 492/10]
بعض حضرات نے اس عمل کو پسند بھی نہیں کیا اور وہ مختلف اشکالات کا شکار ہوئے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ان کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
«عاب قوم أفسد عقلهم الترفة، فزعموا أن لعق الأصابع مستقبح كأنهم لم يعلموا ان الطعام الذى علق بالاصابع أو الصحفة جزء من أجزاء ما أكلوه، وإذا لم يكن سائر أجزائه مستقزرا، لم يكن الجزء اليسير منه مستفزراء، وليس فى ذالك اكبر من مصه أصابعه بباطن شفتيه.» [فتح الباري لابن حجر: 493/10]
کچھ لوگوں کا ترخہ نے دماغ خراب کر دیا ہے، چنانچہ وہ اسے مستقزر خیال کرتے ہیں، گویا نہیں جانتے کہ انگلیوں پر لگا ہوا کھانا وہی ہے جو کھایا ہے تو اگر یہ سارا طعام مستفزر نہیں تو تھوڑی سی مقدار جو انگلیوں پر لگی ہے کیوں کر مستفزر ہو سکتی ہے؟ اس میں تو بس اتنا ہی کرنا پڑے گا کہ ہونٹوں کے اندرون کے ساتھ انگلیاں چاٹنا ہوں گی اور کوئی عقلمند اس میں حرج محسوس نہ کرے گا، کئی دفعہ کلی کرتے ہوئے بھی تو انسان انگلی منہ میں ڈال کر دانت ملتا ہے اور منہ کا اندرونی حصہ صاف کرتا ہے۔

یہ گزارشات مختلف شروحات میں موجود ہیں، لہٰذا جدید طبی اعتبار سے انگلیوں کا کھانے کے بعد اسے چاٹنا انتہائی مفید ہے، چنانچہ جرمنی کے ماہرین طب نے یہ تحقیق کے بعد انکشاف کیا ہے کہ انسان کی انگلیوں کی پوروں پر موجود خاص قسم کی پروٹین اسے دست، قے اور ہیضے جیسی بیماریوں سے بچاتی ہے، ماہرین کے مطابق وہ بیکٹیریا جنہیں ای کو لائی کہا جاتا ہے، جب انگلیوں کی پوروں پر آتے ہیں تو پوروں پر موجود پروٹین ان مضر صحت بیکٹیریا کو ختم کر دیتی ہے، اس طرح یہ جراثیم انسانی جسم پر رہ کر مضر اثرات پیدا نہیں کرتے خاص طور پر انسان کو جب پسینہ آتا ہے تو جراثیم کش پروٹین متحرک ہو جاتی ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ پروٹین نہ ہوتی تو بچوں میں ہیضے، دست اور قے کی بیماریاں بہت زیادہ ہوتیں۔

ریسرچ اسکالر محسن فاران صاحب انگلیوں میں موجود پروٹین پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اہل مغرب کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کو غیر صحت مند قرار دے کر اس پر حرف گیری کرتے رہے ہیں، لیکن اب سائنس اس کی تصدیق کر رہی ہے کہ یہ عمل تو نہایت صحت مند ہے، کیوں کہ انگلیاں منہ کے اندر نہیں جاتیں اور یوں منہ کے لعاب سے آلودہ نہیں ہوتیں، نیز انگلیوں کی پوروں پر موجود پروٹین سے مضر بیکٹیریا بھی ہلاک ہو جاتے ہیں، اس کے برعکس چمچے یا کانٹے سے کھانا کھائیں تو وہ بار بار منہ کے لعاب سے آلودہ ہوتا رہتا ہے اور یہ بےحد غیر صحت مند عمل ہے۔

مزید تفصیل کے لیے راقم کا عنوان حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جدید سائنس) جو کہ مجلہ دفاع اسلام میں لگاتار پیش کیا جا رہا ہے شائقین حدیث نئی طبی تحقیقات کے لیے مطالعہ کر سکتے ہیں۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 131   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5303  
´دیبا نامی ریشمی کپڑا پہننا منع ہے۔`
عبداللہ بن عکیم سے روایت ہے کہ حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ نے پانی مانگا تو ایک اعرابی (دیہاتی) چاندی کے برتن میں پانی لے آیا، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اسے پھینک دیا، پھر جو کیا اس کے لیے لوگوں سے معذرت کی اور کہا: مجھے اس سے روکا گیا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: سونے اور چاندی کے برتن میں نہ پیو اور دیبا نامی ریشم نہ پہنو اور نہ ہی حریر نامی ریشم، کیونکہ یہ ان (کفار و مشرکین) کے لیے دنیا میں ہے اور ہمارے لیے آخرت میں [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5303]
اردو حاشہ:
(1) دیباج بھی ریشم کی ایک قسم ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہر قسم کا ریشم مردوں کے لیے حرام ہے۔ باریک ہو یا موٹا نرم ہویا سخت۔
(2) سونے چاندی کے برتن یہ حکم مردوں اور عورتوں سب کے لیے برابر ہے، البتہ عورت کے لیے سونا پہننا جائز ہے۔
(3) استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک آخرت اور جزا و سزا کا کوئی تصور نہیں، لہٰذا وہ ہر قسم کی آسائش دنیا ہی میں حاصل کرنا چاہتے ہیں جب کہ مومن دنیا میں صرف ضروریات استعمال کرتے ہیں۔ آسائشیں آخرت میں طلب کرتے ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 5303   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.