الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قاضیوں اور قضا کے آداب و احکام اور مسائل
The Book of the Etiquette of Judges
6. بَابُ : اسْتِعْمَالِ الشُّعَرَاءِ
6. باب: شعراء کو ذمہ داری دینے کا بیان۔
Chapter: Appointing Poets
حدیث نمبر: 5388
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا الحسن بن محمد، قال: حدثنا حجاج، عن ابن جريج، قال: اخبرني ابن ابي مليكة، عن عبد الله بن الزبير اخبره، انه" قدم ركب من بني تميم , على النبي صلى الله عليه وسلم , قال ابو بكر: امر القعقاع بن معبد , وقال عمر رضي الله عنه: بل امر الاقرع بن حابس , فتماريا حتى ارتفعت اصواتهما , فنزلت في ذلك: يايها الذين آمنوا لا تقدموا بين يدي الله ورسوله حتى انقضت الآية ولو انهم صبروا حتى تخرج إليهم لكان خيرا لهم سورة الحجرات آية 1 - 5".
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ" قَدِمَ رَكْبٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ , عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمِّرِ الْقَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدٍ , وَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: بَلْ أَمِّرِ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ , فَتَمَارَيَا حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا , فَنَزَلَتْ فِي ذَلِكَ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ حَتَّى انْقَضَتِ الْآيَةُ وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ سورة الحجرات آية 1 - 5".
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بنو تمیم کے کچھ سوار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: قعقاع بن معبد کو سردار بنائیے، اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اقرع بن حابس کو سردار بنائیے، پھر دونوں میں بحث و تکرار ہو گئی، یہاں تک کہ ان کی آواز بلند ہو گئی، تو اس سلسلے میں یہ حکم نازل ہوا اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے آگے مت بڑھو (یعنی ان سے پہلے اپنی رائے مت پیش کرو) یہاں تک کہ یہ آیت اس مضمون پر ختم ہو گئی: اگر وہ لوگ تمہارے باہر نکلنے تک صبر کرتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 68 (4367)، تفسیر سورة الحجرات 1 (4845)، 2 (4847)، الاعتصام 5 (7302)، سنن الترمذی/تفسیر سورة الحجرات (3266)، (تحفة الأشراف: 5269) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: شیخین (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) کی بحث و تکرار کے سبب ابتداء سورۃ سے «أجر عظیم» تک ۳ آیتیں نازل ہوئیں، اور آیت: «ولو أنهم صبروا حتى تخرج إليهم لكان خيرا لهم» اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زور زور سے «یا محمد اخرج» کہنے کی وجہ سے نازل ہوئی، ان میں سے اقرع شاعر تھے، یہی بات باب سے مناسبت ہے، یعنی: کسی شاعر ہونے کے سبب اس کو کسی عہدہ سے دور نہیں رکھا جا سکتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
   صحيح البخاري4367عبد الله بن الزبيرتماريا حتى ارتفعت أصواتهما فنزل في ذلك يأيها الذين آمنوا لا تقدموا حتى انقضت
   صحيح البخاري4847عبد الله بن الزبيرتماريا حتى ارتفعت أصواتهما فنزل في ذلك يأيها الذين آمنوا لا تقدموا بين يدي الله ورسوله حتى انقضت الآية
   سنن النسائى الصغرى5388عبد الله بن الزبيرتماريا حتى ارتفعت أصواتهما فنزلت في ذلك يأيها الذين آمنوا لا تقدموا بين يدي الله ورسوله حتى انقضت الآية ولو أنهم صبروا حتى

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5388  
´شعراء کو ذمہ داری دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بنو تمیم کے کچھ سوار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: قعقاع بن معبد کو سردار بنائیے، اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اقرع بن حابس کو سردار بنائیے، پھر دونوں میں بحث و تکرار ہو گئی، یہاں تک کہ ان کی آواز بلند ہو گئی، تو اس سلسلے میں یہ حکم نازل ہوا اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے آگے مت بڑھو (یعنی ان سے پہلے اپنی رائے مت پیش کرو) یہاں تک کہ یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5388]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ کبھی کبھار بڑے بڑے عظماء اور جلیل القدر لوگوں سے بھی غلطی ہو جاتی ہے جیسا کہ امت محمدیہ کے افضل ترین انسان صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما سے خطا صادر ہوئی، تاہم انہوں نے ایسی سچی توبہ کی کہ مذکورہ واقعے کے بعد کبھی رسول اللہ ﷺ کے سامنے بلند آواز سے بات نہیں کی۔
(2) اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کی عظیم قدر و منزلت بھی واضح ہوتی ہے۔ کہ آپ کے سامنے کسی کو اونچی آواز سے بات کرنے کا حق بھی نہیں چہ جائیکہ آپ کے مقابلے میں کسی امتی کو درجۂ امامت پر فائز کر دیا جائے اور اس کی ہر بات کو آنکھیں بند کرکے تسلیم کر لیا جائے اور ساری زندگی نہ صرف اس کی اندھا دھند تقلید میں گزار دی جائے بلکہ بلا دلیل اس کی بات تسلیم نہ کرنے والوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے۔
(3) اس حدیث میں مسئلۃ الباب کا صراحتاً ذکر نہیں اگر کہیں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ اقرع بن حابس بھی شاعری کرتے تھے تو پھر بات واضح ہے۔ واللہ أعلم۔
(4) قرآن مجید اور احادیث میں عموما! شعراء کی مذمت کی گئی ہے کیونکہ شعراء مبالغہ آرائی بلکہ جھوٹ، خوشامد اور تعلی کے عادی ہوتے ہیں اور شریعت ان اوصاف کو برا سمجھتی ہے۔ ویسے بھی حاکم کے لیے سنجیدہ طبع ہونا ضروری ہے اور یہ چیز پیشہ ور شعراء میں مفقود ہوتی ہے، اس لیے ظاہری طورپر سمجھ میں یہی آتا ہے کہ شعراء کو حاکم نہیں نبانا چاہیے مگر چونکہ ضروری نہیں کہ ہر شاعر ایسا ہی ہو خصوصاً جو پیشہ ور شاعر نہ ہو، لہٰذا اگر امارت کا اہل ہو تو اسے امیر بنایا جا سکتا ہے۔
(5) آگے نہ بڑھو یعنی اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے سے قبل جلد بازی نہ کرو بلکہ ان کے فیصلے کا انتظار کرو جب تک رسول اللہ ﷺ خود مشورہ طلب نہ فرمائیں، تم خود بخود مشورہ نہ دو۔ امیر منتخب کرنا رسول اللہ ﷺ کا کام ہے نہ کہ تمہارا۔
(6) صبر کرتے اشارہ بنو تمیم کے وفد کی طرف ہے کہ جب وہ آئے تھے تو انہوں نے باہر کھڑے ہو کر زور زور سے آوازیں دینی شروع کردی تھیں: يَا مُحمّد! اُخْرُجْ ظاہر ہے یہ معقول انداز نہیں تھا۔ نبیٔ اکرم ﷺ جیسی عظیم شخصیت کو اس طرح نہیں بلایا جا سکتا بلکہ ان کا انتظار کیا جاتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 5388   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.