الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: شرائط کے مسائل کا بیان
The Book of Conditions
14. بَابُ إِذَا اشْتَرَطَ فِي الْمُزَارَعَةِ إِذَا شِئْتُ أَخْرَجْتُكَ:
14. باب: مزارعت میں مالک نے کاشتکار سے یہ شرط لگائی کہ جب میں چاہوں گا تجھے بے دخل کر سکوں گا۔
(14) Chapter. If the landlord stipulates in the contract of share-cropping that he would terminate the contract whenever he likes.
حدیث نمبر: 2730
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابو احمد مرار بن حمويه، حدثنا محمد بن يحيى ابو غسان الكناني، اخبرنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال:" لما فدع اهل خيبر عبد الله بن عمر قام عمر خطيبا، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان عامل يهود خيبر على اموالهم، وقال: نقركم ما اقركم الله، وإن عبد الله بن عمر خرج إلى ماله هناك، فعدي عليه من الليل، ففدعت يداه ورجلاه، وليس لنا هناك عدو غيرهم هم عدونا وتهمتنا، وقد رايت إجلاءهم، فلما اجمع عمر على ذلك اتاه احد بني ابي الحقيق، فقال: يا امير المؤمنين، اتخرجنا وقد اقرنا محمد صلى الله عليه وسلم وعاملنا على الاموال، وشرط ذلك لنا، فقال عمر: اظننت اني نسيت قول رسول الله صلى الله عليه وسلم، كيف بك إذا اخرجت من خيبر تعدو بك قلوصك ليلة بعد ليلة، فقال: كانت هذه هزيلة من ابي القاسم، قال: كذبت يا عدو الله، فاجلاهم عمر واعطاهم قيمة ما كان لهم من الثمر مالا وإبلا وعروضا من اقتاب وحبال وغير ذلك". رواه حماد بن سلمة، عن عبيد الله احسبه، عن نافع، عن ابن عمر، عن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم اختصره.حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مَرَّارُ بْنُ حَمُّويَهْ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى أَبُو غَسَّانَ الْكِنَانِيُّ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَمَّا فَدَعَ أَهْلُ خَيْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَامَ عُمَرُ خَطِيبًا، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَامَلَ يَهُودَ خَيْبَرَ عَلَى أَمْوَالِهِمْ، وَقَالَ: نُقِرُّكُمْ مَا أَقَرَّكُمُ اللَّهُ، وَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ خَرَجَ إِلَى مَالِهِ هُنَاكَ، فَعُدِيَ عَلَيْهِ مِنَ اللَّيْلِ، فَفُدِعَتْ يَدَاهُ وَرِجْلَاهُ، وَلَيْسَ لَنَا هُنَاكَ عَدُوٌّ غَيْرَهُمْ هُمْ عَدُوُّنَا وَتُهْمَتُنَا، وَقَدْ رَأَيْتُ إِجْلَاءَهُمْ، فَلَمَّا أَجْمَعَ عُمَرُ عَلَى ذَلِكَ أَتَاهُ أَحَدُ بَنِي أَبِي الْحُقَيْقِ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَتُخْرِجُنَا وَقَدْ أَقَرَّنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَامَلَنَا عَلَى الْأَمْوَالِ، وَشَرَطَ ذَلِكَ لَنَا، فَقَالَ عُمَرُ: أَظَنَنْتَ أَنِّي نَسِيتُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَيْفَ بِكَ إِذَا أُخْرِجْتَ مِنْ خَيْبَرَ تَعْدُو بِكَ قَلُوصُكَ لَيْلَةً بَعْدَ لَيْلَةٍ، فَقَالَ: كَانَتْ هَذِهِ هُزَيْلَةً مِنْ أَبِي الْقَاسِمِ، قَالَ: كَذَبْتَ يَا عَدُوَّ اللَّهِ، فَأَجْلَاهُمْ عُمَرُ وَأَعْطَاهُمْ قِيمَةَ مَا كَانَ لَهُمْ مِنَ الثَّمَرِ مَالًا وَإِبِلًا وَعُرُوضًا مِنْ أَقْتَابٍ وَحِبَالٍ وَغَيْرِ ذَلِكَ". رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ أَحْسِبُهُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَصَرَهُ.
ہم سے ابواحمد مرار بن حمویہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے محمد بن یحییٰ ابوغسان کنانی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی نافع سے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب ان کے ہاتھ پاؤں خیبر والوں نے توڑ ڈالے تو عمر رضی اللہ عنہ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے ‘ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر کے یہودیوں سے ان کی جائیداد کا معاملہ کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں قائم رکھے ہم بھی قائم رکھیں گے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وہاں اپنے اموال کے سلسلے میں گئے تو رات میں ان کے ساتھ مار پیٹ کا معاملہ کیا گیا جس سے ان کے پاؤں ٹوٹ گئے۔ خیبر میں ان کے سوا اور کوئی ہمارا دشمن نہیں ‘ وہی ہمارے دشمن ہیں اور انہیں پر ہمیں شبہ ہے اس لیے میں انہیں جلا وطن کر دینا ہی مناسب جانتا ہوں۔ جب عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا پختہ ارادہ کر لیا تو بنو ابی حقیق (ایک یہودی خاندان) کا ایک شخص تھا ’ آیا اور کہا یا امیرالمؤمنین کیا آپ ہمیں جلا وطن کر دیں گے حالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہاں باقی رکھا تھا اور ہم سے جائیداد کا ایک معاملہ بھی کیا تھا اور اس کی ہمیں خیبر میں رہنے دینے کی شرط بھی آپ نے لگائی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھول گیا ہوں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ تمہارا کیا حال ہو گا جب تم خیبر سے نکالے جاؤ گے اور تمہارے اونٹ تمہیں راتوں رات لیے پھریں گے۔ اس نے کہا یہ ابوالقاسم (آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) کا ایک مذاق تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کے دشمن! تم نے جھوٹی بات کہی۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں شہر بدر کر دیا اور ان کے پھلوں کی کچھ نقد قیمت کچھ مال اور اونٹ اور دوسرے سامان یعنی کجاوے اور رسیوں کی صورت میں ادا کر دی۔ اس کی روایت حماد بن سلمہ نے عبیداللہ سے نقل کی ہے جیسا کہ مجھے یقین ہے نافع سے اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختصر طور پر۔

Narrated Ibn `Umar: When the people of Khaibar dislocated `Abdullah bin `Umar's hands and feet, `Umar got up delivering a sermon saying, "No doubt, Allah's Apostle made a contract with the Jews concerning their properties, and said to them, 'We allow you (to stand in your land) as long as Allah allows you.' Now `Abdullah bin `Umar went to his land and was attacked at night, and his hands and feet were dislocated, and as we have no enemies there except those Jews, they are our enemies and the only people whom we suspect, I have made up my mind to exile them." When `Umar decided to carry out his decision, a son of Abu Al-Haqiq's came and addressed `Umar, "O chief of the believers, will you exile us although Muhammad allowed us to stay at our places, and made a contract with us about our properties, and accepted the condition of our residence in our land?" `Umar said, "Do you think that I have forgotten the statement of Allah's Apostle, i.e.: What will your condition be when you are expelled from Khaibar and your camel will be carrying you night after night?" The Jew replied, "That was joke from Abul-Qasim." `Umar said, "O the enemy of Allah! You are telling a lie." `Umar then drove them out and paid them the price of their properties in the form of fruits, money, camel saddles and ropes, etc."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 50, Number 890

   صحيح البخاري2328عبد الله بن عمرعامل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع يعطي أزواجه مائة وسق ثمانون وسق تمر وعشرون وسق شعير
   صحيح البخاري2329عبد الله بن عمرعامل النبي خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع
   صحيح البخاري2331عبد الله بن عمرأعطى خيبر اليهود على أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ما خرج منها
   صحيح البخاري2720عبد الله بن عمرأعطى رسول الله خيبر اليهود أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ما يخرج منها
   صحيح البخاري2499عبد الله بن عمرأعطى رسول الله خيبر اليهود أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ما يخرج منها
   صحيح البخاري3152عبد الله بن عمرنقركم على ذلك ما شئنا
   صحيح البخاري2338عبد الله بن عمرأجلى اليهود والنصارى من أرض الحجاز وكان رسول الله لما ظهر على خيبر أراد إخراج اليهود منها وكانت الأرض حين ظهر عليها لله ولرسوله وللمسلمين وأراد إخراج اليهود منها فسألت اليهود رسول الله ليقرهم بها
   صحيح البخاري2730عبد الله بن عمرنقركم ما أقركم الله
   صحيح البخاري4248عبد الله بن عمرأعطى النبي خيبر اليهود أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ما يخرج منها
   صحيح مسلم3963عبد الله بن عمرأعطى رسول الله خيبر بشطر ما يخرج من ثمر أو زرع يعطي أزواجه كل سنة مائة وسق ثمانين وسقا من تمر وعشرين وسقا من شعير
   صحيح مسلم3966عبد الله بن عمردفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعتملوها من أموالهم ولرسول الله شطر ثمرها
   صحيح مسلم3967عبد الله بن عمرنقركم بها على ذلك ما شئنا
   صحيح مسلم3962عبد الله بن عمرعامل أهل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع
   جامع الترمذي1383عبد الله بن عمرعامل أهل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع
   سنن أبي داود3408عبد الله بن عمرعامل أهل خيبر بشطر ما يخرج من ثمر أو زرع
   سنن أبي داود3409عبد الله بن عمردفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعتملوها من أموالهم وأن لرسول الله شطر ثمرتها
   سنن أبي داود3008عبد الله بن عمرأقركم فيها على ذلك ما شئنا كانوا على ذلك وكان التمر يقسم على السهمان من نصف خيبر يأخذ رسول الله الخمس كان رسول الله أطعم كل امرأة من أزواجه من الخمس مائة وسق تمرا وعشرين وسقا شعيرا
   سنن أبي داود3007عبد الله بن عمرعامل يهود خيبر على أنا نخرجهم إذا شئنا فمن كان له مال فليلحق به فإني مخرج يهود فأخرجهم
   سنن النسائى الصغرى3962عبد الله بن عمردفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعملوها بأموالهم وأن لرسول الله شطر ثمرتها
   سنن النسائى الصغرى3961عبد الله بن عمردفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعملوها من أموالهم وأن لرسول الله شطر ما يخرج منها
   سنن ابن ماجه2467عبد الله بن عمرعامل أهل خيبر بالشطر مما يخرج من ثمر أو زرع
   المعجم الصغير للطبراني524عبد الله بن عمرأعطى خيبر على النصف مما أخرجت الأرض والنخل
   المعجم الصغير للطبراني517عبد الله بن عمرعامل أهل خيبر بشطر ما يخرج منها من زرع أو تمر يعطي أزواجه في كل عام مائة وسق مائة وسق ثمانين وسقا تمرا وعشرين وسقا شعيرا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1383  
´مزارعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والوں کے ساتھ خیبر کی زمین سے جو بھی پھل یا غلہ حاصل ہو گا اس کے آدھے پر معاملہ کیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1383]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے مزارعت (بٹائی پرزمین دینے) کا جواز ثابت ہوتاہے،
ائمہ ثلاثہ اوردیگرعلمائے سلف وخلف سوائے امام ابوحنیفہ کے جواز کے قائل ہیں،
احناف نے خیبرکے معاملے کی تاویل یہ کی ہے کہ یہ لوگ آپﷺ کے غلام تھے،
لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے نُقرُكُم مَا أَقَركُمُ الله ہم تمہیں اس وقت تک برقراررکھیں گے جب تک اللہ تمہیں برقراررکھے گا،
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کے غلام نہیں تھے،
نیز احناف کا کہنا ہے کہ یہ معدوم یا مجہول پیداوار کے بدلے اجارہ ہے جو جائز نہیں،
اس کا جواب جمہوریہ دیتے ہیں کہ اس کی مثال مضارب کی ہے کہ مضارب جس طرح نفع کی امید پر محنت کرتا ہے اوروہ نفع مجہول ہے اس کے باوجود وہ جائز ہے،
اسی طرح مزارعت میں بھی یہ جائز ہوگا،
رہیں وہ روایات جو مزارعت کے عدم جواز پر دلالت کرتی ہیں توجمہور نے ان روایات کی تاویل کی ہے کہ یہ روایات نہی تنزیہی پر دلالت کرتی ہیں،
یا یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب صاحب زمین کسی مخصوص حصے کی پیداوار خود لینے کی شرط کر لے (واللہ اعلم) حاصل بحث یہ ہے کہ مزارعت کی جائز شکل یہ ہے کہ مالک اوربٹائی پر لینے والے کے مابین زمین سے حاصل ہو نے والے غلّہ کی مقدار اس طرح متعین ہو کہ دونوں کے مابین جھگڑے کی نوبت نہ آئے اور غلّہ سے متعلق نقصان اور فائدہ میں طے شدہ امرکے مطابق دونوں شریک ہوں یا روپے کے عوض زمین بٹائی پر دی جائے اورمزارعت کی وہ شکل جوشرعاً ناجائز ہے وہ حنظلہ بن قیس انصاری کی روایت میں ہے،
وہ کہتے ہیں رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں زمین کی بٹائی کا معاملہ اس شرط پر کرتے تھے کہ زمین کے اس مخصوص حصے کی پیداوارمیں لوں گا اورباقی حصے کی تم لینا،
تونبی اکرمﷺ نے اس سے منع فرما دیا کیونکہ اس صورت میں کبھی بٹائی پر لینے والے کا نقصان ہوتا کبھی دینے والے کا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1383   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3008  
´خیبر کی زمینوں کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہوا تو یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ: آپ ہمیں اس شرط پر یہیں رہنے دیں کہ ہم محنت کریں گے اور جو پیداوار ہو گی اس کا نصف ہم لیں گے اور نصف آپ کو دیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا ہم تمہیں اس شرط پر رکھ رہے ہیں کہ جب تک چاہیں گے رکھیں گے،، چنانچہ وہ اسی شرط پر رہے، خیبر کی کھجور کے نصف کے کئی حصے کئے جاتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے پانچواں حصہ لیتے، اور اپنی ہر بیوی کو سو وسق کھجور اور بیس وسق جو (سال بھر میں) دیتے، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3008]
فوائد ومسائل:

صحیح مسلم کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے زمین اور پانی کا انتخاب کیا۔
اور بعض دیگر ازواج مطہرات نے رضی اللہ عنہما نے حسب سابق متعین حصہ چنا۔
صحیح مسلم کی یہ روایت بھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے ہے۔
اور زیادہ مفصل اور واضح ہے۔
اس روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے خیبر میں فے کی زمینوں کی آمدنی میں سے سالانہ خرچ کے طور پر اپنی ہر زوجہ محترمہ کو کل سو وسق اسی وسق کھجور اور بیس وسق جو مقرر فرمائے تھے۔
(صحیح مسلم، المساواة، حدیث:1551) ابو دائود کی حدیث 3006 میں بھی یہی مقدار مذکور ہے۔
البتہ موجودہ روایت میں کل سو وسق کی بجائے کھجور سو وسق اور اس کے علاوہ جو بیس وسق کی مقدار بیان کی گئی ہے۔
معلوم ہوتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرنے والے رایوں میں سے کوئی راوی ظن وتخمین سے مقدار بیان کرتے ہوئے التباس کا شکار ہوگیا۔
اور کل سو کی بجائے کھجور سو وسق اور جو بیس وسق کا ذکرکیا گیا۔
(فتح الودود بحوالة عون المعبود باب ما جاء في حکم أرض خیبر)

خیبر کے طریق کے مطابق بٹائی پر زمین لینا اور دینا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3008   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2730  
2730. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، کہ خیبرکے یہودیوں نے ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے تو حضرت عمر ؓ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں سے خیبرکا معاملہ ان کے اموال کے متعلق کیا اور فرمایا تھا۔ جب تک اللہ تعالیٰ تمھیں ٹھہرائے گا ہم تمھیں ٹھہرائیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ وہاں خیبر میں اپنے مال کی دیکھ بھال کے لیے گئے تو رات کے وقت ان پر تشدد کیا گیا اور ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے گئےہیں۔ وہاں یہودیوں کے علاوہ ہمارا کوئی دشمن نہیں۔ وہی لوگ ہمارے دشمن ہیں اور ہم انھی پر اپنے شبہ کا اظہار کرتے ہیں، اس لیے انھیں جلا وطن کر دینا ہی مناسب خیال کرتا ہوں، چنانچہ جب انھوں نے اس کا پختہ ارادہ کر لیا تو ابو الحقیق خاندان کا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: امیر امومنین!آپ ہمیں کیسے یہاں سے جلاوطن کر سکتے ہیں جبکہ ہمیں محمد ﷺ نے ٹھہرایا اور ہمارے اموال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2730]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
روایت کے شروع سند میں ابو احمد مرار بن حمویہ ہیں۔
جامع الصحیح میں ان سے اور ان کے شیخ سے صرف یہی ایک حدیث مروی ہے۔
حضرت عمر ؓ نے اپنے بیٹے عبداللہ کو پیداوار وصول کرنے کے لئے خیبر بھیجا تھا۔
وہاں بدعہد یہودیوں نے موقع پاکر حضرت عبداللہ کو ایک چھت سے نیچے دھکیل دیا اور ان کے ہاتھ پیر توڑدیئے۔
ایسی ہی شرارتوں کی وجہ سے حضرت عمر ؓ نے خیبر سے یہود کو جلاوطن کردیا۔
خیبر کی فتح کے بعد رسول کریم ﷺ نے مفتوحہ زمینات کا معاملہ خیبر کے یہودیوں سے کرلیا تھا اور کوئی مدت مقرر نہیں کی بلکہ یہ فرمایا کہ یہ معاملہ ہمیشہ کے لئے نہیں ہے بلکہ جب اللہ چاہے گایہ معاملہ ختم کردیا جائے گا۔
اسی بنا پر حضرت عمر ؓ نے اپنے عہدخلافت میں ان کو بے دخل کرکے دوسری جگہ منتقل کرادیا۔
اس بد عہد قوم نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی’ اس لئے یہ قوم ملعون اور مطرود قرار پائی۔
اسی حدیث سے یہ نکلا کہ زمین کا مالک اگر کاشتکار کا کوئی قصور دیکھے تو اس کو بے دخل کرسکتا ہے گو وہ کام شروع کرچکا ہو مگر اس کے کام کا بدل دینا ہوگا جیسے کہ حضرت عمر ؓ نے کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2730   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2730  
2730. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، کہ خیبرکے یہودیوں نے ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے تو حضرت عمر ؓ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں سے خیبرکا معاملہ ان کے اموال کے متعلق کیا اور فرمایا تھا۔ جب تک اللہ تعالیٰ تمھیں ٹھہرائے گا ہم تمھیں ٹھہرائیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ وہاں خیبر میں اپنے مال کی دیکھ بھال کے لیے گئے تو رات کے وقت ان پر تشدد کیا گیا اور ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے گئےہیں۔ وہاں یہودیوں کے علاوہ ہمارا کوئی دشمن نہیں۔ وہی لوگ ہمارے دشمن ہیں اور ہم انھی پر اپنے شبہ کا اظہار کرتے ہیں، اس لیے انھیں جلا وطن کر دینا ہی مناسب خیال کرتا ہوں، چنانچہ جب انھوں نے اس کا پختہ ارادہ کر لیا تو ابو الحقیق خاندان کا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: امیر امومنین!آپ ہمیں کیسے یہاں سے جلاوطن کر سکتے ہیں جبکہ ہمیں محمد ﷺ نے ٹھہرایا اور ہمارے اموال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2730]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ جب کسی سے مزارعت کا معاملہ کیا جائے تو سال مکمل ہونے سے پہلے پہلے مزارع کو بے دخل نہیں کیا جا سکتا، جب اس سال کی فصل اٹھا لے گا تو عقد مزارعت ختم ہو گا، لیکن امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ اگر زمین کا مالک مزارع سے یہ شرط کر لے کہ میں جب چاہوں گا تجھے بے دخل کر دوں گا تو یہ شرط جائز ہے بشرطیکہ فریقین اسے بخوشی قبول کر لیں۔
(2)
اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے عجیب اسلوب اختیار کیا ہے۔
کتاب المزارعہ میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:
(إذ قال رب الارض:
أقرك ما أقرك الله)

میں تمہیں ٹھہرائے رکھوں گا جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں ٹھہرائے گا۔
اور حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:
(نقركم بها علی ذلك ما شئنا)
ہم جب تک چاہیں گے تمہیں ٹھہرائے رکھیں گے۔
اور یہاں عنوان یہ ہے:
(إذا شئت أخرجتك)
میں جب چاہوں گا تجھے بے دخل کر سکوں گا۔
اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
(نقركم ما أقركم الله)
جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں ٹھہرائے گا ہم تمہیں ٹھہرائیں گے۔
اس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے:
ایک یہ کہ یہودیوں کا سرزمین خیبر سے نکلنا اللہ نے ان کے مقدر میں لکھا ہوا تھا، انہوں نے یہاں سے ضرور نکلنا تھا۔
دوسرا یہ کہ اگر پہلے دن ہی یہ شرط کر لی جائے کہ ہم جب چاہیں گے بے دخل کر سکیں گے اور فریقین رضامندی سے اس شرط کو قبول کر لیں تو ایسا کرنا جائز ہے۔
(3)
نیز اگر زمین کا مالک کاشتکار سے کوئی قصور یا خیانت دیکھے تو اسے بے دخل کرنے کا مجاز ہے اگرچہ مزارع اپنا کام شروع کر چکا ہو، مگر جو محنت اس نے کر رکھی ہے اس کا بدل ضرور دینا ہو گا۔
مقصد یہ ہے کہ تمدنی اور معاشرتی امور میں باہمی طور پر معاملات جن شرائط سے طے پا جائیں وہ اگر جائز حدود میں ہوں تو ضرور قابل تسلیم ہوں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2730   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.