الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
The Book of Wasaya (Wills and Testaments)
2. بَابُ أَنْ يَتْرُكَ وَرَثَتَهُ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَتَكَفَّفُوا النَّاسَ:
2. باب: اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔
(2) Chapter. One would rather leave one’s inheritors wealthy than leave them (poor) begging others.
حدیث نمبر: 2742
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا ابو نعيم حدثنا سفيان، عن سعد بن إبراهيم، عن عامر بن سعد، عن سعد بن ابي وقاص رضي الله عنه، قال:" جاء النبي صلى الله عليه وسلم يعودني وانا بمكة، وهو يكره ان يموت بالارض التي هاجر منها، قال: يرحم الله ابن عفراء، قلت: يا رسول الله، اوصي بمالي كله، قال: لا، قلت: فالشطر، قال: لا، قلت: الثلث، قال: فالثلث، والثلث كثير، إنك ان تدع ورثتك اغنياء خير من ان تدعهم عالة يتكففون الناس في ايديهم، وإنك مهما انفقت من نفقة فإنها صدقة حتى اللقمة التي ترفعها إلى في امراتك، وعسى الله ان يرفعك فينتفع بك ناس ويضر بك آخرون، ولم يكن له يومئذ إلا ابنة".حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، وَهُوَ يَكْرَهُ أَنْ يَمُوتَ بِالْأَرْضِ الَّتِي هَاجَرَ مِنْهَا، قَالَ: يَرْحَمُ اللَّهُ ابْنَ عَفْرَاءَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ، قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَالشَّطْرُ، قَالَ: لَا، قُلْتُ: الثُّلُثُ، قَالَ: فَالثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ فِي أَيْدِيهِمْ، وَإِنَّكَ مَهْمَا أَنْفَقْتَ مِنْ نَفَقَةٍ فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ حَتَّى اللُّقْمَةُ الَّتِي تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ، وَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَكَ فَيَنْتَفِعَ بِكَ نَاسٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ يَوْمَئِذٍ إِلَّا ابْنَةٌ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا سعد بن ابراہیم سے ‘ ان سے عامر بن سعد نے اور ان سے سعد بن ابی وقاص نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (حجۃ الوداع میں) میری عیادت کو تشریف لائے ‘ میں اس وقت مکہ میں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سر زمین پر موت کو پسند نہیں فرماتے تھے جہاں سے کوئی ہجرت کر چکا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ ابن عفراء (سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ) پر رحم فرمائے۔ میں عرض کیا یا رسول اللہ! میں اپنے سارے مال و دولت کی وصیت کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں میں نے پوچھا پھر آدھے کی کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی یہی فرمایا نہیں میں نے پوچھا پھر تہائی کی کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تہائی کی کر سکتے ہو اور یہ بھی بہت ہے ‘ اگر تم اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ‘ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب تم اپنی کوئی چیز (اللہ کے لیے خرچ کرو گے) تو وہ خیرات ہے ‘ یہاں تک کہ وہ لقمہ بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے (وہ بھی خیرات ہے) اور (ابھی وصیت کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں) ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں شفاء دے اور اس کے بعد تم سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہو اور دوسرے بہت سے لوگ (اسلام کے مخالف) نقصان اٹھائیں۔ اس وقت سعد رضی اللہ عنہ کی صرف ایک بیٹی تھی۔

Narrated Sa`d bin Abu Waqqas: The Prophet came visiting me while I was (sick) in Mecca, ('Amir the sub-narrator said, and he disliked to die in the land, whence he had already migrated). He (i.e. the Prophet) said, "May Allah bestow His Mercy on Ibn Afra (Sa`d bin Khaula)." I said, "O Allah's Apostle! May I will all my property (in charity)?" He said, "No." I said, "Then may I will half of it?" He said, "No". I said, "One third?" He said: "Yes, one third, yet even one third is too much. It is better for you to leave your inheritors wealthy than to leave them poor begging others, and whatever you spend for Allah's sake will be considered as a charitable deed even the handful of food you put in your wife's mouth. Allah may lengthen your age so that some people may benefit by you, and some others be harmed by you." At that time Sa`d had only one daughter.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 5


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2742  
2742. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ میری تیمارداری کے لیے تشریف لائے جبکہ میں مکہ مکرمہ میں تھا اور آپ اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ اس کی وفات اس سرزمین میں ہو جہاں سے ہجرت کرچکے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ عفراء کے بیٹے پر رحم فرمائے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!کیا میں اپنے تمام مال کی وصیت کرسکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ میں نے عرض کیا: اپنے نصف مال کی؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ پھر میں نے عرض کیا: ایک تہائی کی وصیت کردوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، تیسرے حصے کی وصیت درست ہے۔ لیکن یہ بھی زیادہ ہے، کیونکہ تم اگر اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ جاؤ تویہ اس سے بہتر ہے کہ انھیں تنگ دست محتاج چھوڑوجو لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر مانگتے پھریں۔ تم جو مال بھی خرچ کروگے وہ تمہارے لیے صدقہ ہوگا حتیٰ کہ وہ لقمہ جسے تم توڑ کر ا پنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے وہ بھی صدقہ ہے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2742]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد ؓ اس بیماری میں نا امید ی کی حالت کو پہنچ چکے تھے۔
آپ نے آنحضرت ﷺ کے سامنے سارے مال کے وقف کردینے کا خیال ظاہرکیا مگر آنحضرت ﷺ نے آپ کی ڈھارس بند ھائی اور آپ ﷺ کی صحت کی بشارت دی چنانچہ آپ بعد میں تقریباً پچاس سال زندہ دہے اور تاریخ اسلام میں آپ نے بڑے عظیم کارنامے انجام دیئے (رضي اللہ عنه)
مورخین نے ان کے دس بیٹے اور بارہ بیٹیاں بتلائی ہیں۔
واﷲ أعلم با لصواب
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2742   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2742  
2742. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ میری تیمارداری کے لیے تشریف لائے جبکہ میں مکہ مکرمہ میں تھا اور آپ اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ اس کی وفات اس سرزمین میں ہو جہاں سے ہجرت کرچکے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ عفراء کے بیٹے پر رحم فرمائے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!کیا میں اپنے تمام مال کی وصیت کرسکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ میں نے عرض کیا: اپنے نصف مال کی؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ پھر میں نے عرض کیا: ایک تہائی کی وصیت کردوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، تیسرے حصے کی وصیت درست ہے۔ لیکن یہ بھی زیادہ ہے، کیونکہ تم اگر اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ جاؤ تویہ اس سے بہتر ہے کہ انھیں تنگ دست محتاج چھوڑوجو لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر مانگتے پھریں۔ تم جو مال بھی خرچ کروگے وہ تمہارے لیے صدقہ ہوگا حتیٰ کہ وہ لقمہ جسے تم توڑ کر ا پنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے وہ بھی صدقہ ہے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2742]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے حدیث کے الفاظ ہی کو عنوان قرار دیا ہے، شاید ان کا مقصد یہ ہو کہ جس کے پاس مال تھوڑا ہو یا بالکل نہ ہو اس شخص کا وصیت کرنا اچھا نہیں۔
(فتح الباري: 445/5)
بعض لوگ دینی طور پر بڑے انتہا پسند ہوتے ہیں۔
انہیں اپنے شرعی ورثاء کو محروم کر کے اپنی آخرت بنانے کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس فکر کو پسند نہیں فرمایا۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وصیت ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
اگر کوئی اس حد سے بڑھ جائے تو اسے نافذ نہیں کیا جائے گا جبکہ اس کے وارث موجود ہوں، ہاں اگر وارث اجازت دے دیں تو ایک تہائی سے زیادہ وصیت نافذ کی جا سکتی ہے، نیز اگر اس کے وارث نہ ہوں تو بھی تہائی سے زائد وصیت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(3)
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کا مذکورہ واقعہ فتح مکہ کا ہے یا حجۃ الوداع کا، اس سلسلے میں مختلف روایات ہیں۔
ممکن ہے دونوں مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا ہو۔
پہلی مرتبہ فتح مکہ کے موقع پر ایسا ہوا جبکہ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی اور دوسری دفعہ حجۃ الوداع میں بیمار ہوئے جبکہ ان کے ہاں صرف ایک بیٹی تھی۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں چالیس سال تک زندہ رکھا۔
ان کے چار بیٹے اور بارہ بیٹیاں تھیں۔
انہوں نے ایران فتح کیا۔
کوفہ کے گورنر بنے۔
غنیمتوں سے مسلمانوں کو مالامال کیا اور کفار و مشرکین کو ان کے جنگ و قتال سے زبردست نقصان اٹھانا پڑا۔
آپ مستجاب الدعوات تھے، یعنی اللہ تعالیٰ آپ کی دعا قبول فرماتا تھا چنانچہ کوفہ کے ایک شکایت کرنے والے کو آپ کی بددعا سے بہت نقصان ہوا۔
(فتح الباري: 446/5 447)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2742   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.