ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے قیام
(تہجد پڑھنے) کی ترغیب دلاتے، بغیر اس کے کہ انہیں تاکیدی حکم دیں اور فرماتے:
”جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کیا تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے
“، چنانچہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور معاملہ اسی پر قائم رہا، پھر ابوبکر رضی الله عنہ کے عہد خلافت میں اور عمر رضی الله عنہ کے عہد خلافت کے ابتدائی دور میں بھی معاملہ اسی پر رہا
۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی سے حدیث آئی ہے،
۳- یہ حدیث بطریق:
«الزهري عن عروة عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے۔
● صحيح البخاري | 35 | عبد الرحمن بن صخر | من يقم ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● صحيح البخاري | 38 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● صحيح البخاري | 37 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● صحيح البخاري | 2009 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● صحيح البخاري | 2014 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● صحيح البخاري | 1901 | عبد الرحمن بن صخر | من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● صحيح مسلم | 1781 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● صحيح مسلم | 1780 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● صحيح مسلم | 1782 | عبد الرحمن بن صخر | من يقم ليلة القدر فيوافقها أراه قال إيمانا واحتسابا غفر له |
● صحيح مسلم | 1779 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● جامع الترمذي | 808 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● جامع الترمذي | 683 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان وقامه إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن أبي داود | 1371 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن أبي داود | 1372 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2201 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2200 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2199 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2198 | عبد الرحمن بن صخر | من قامه إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2196 | عبد الرحمن بن صخر | من قامه إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 1604 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2202 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 1603 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 5030 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 5029 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 5030 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 5028 | عبد الرحمن بن صخر | من قام شهر رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2203 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2207 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2205 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2204 | عبد الرحمن بن صخر | من قام شهر رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2206 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2208 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2209 | عبد الرحمن بن صخر | من قام شهر رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن ابن ماجه | 1326 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان وقامه إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن ابن ماجه | 1641 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 157 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● صحيح البخاري | 2008 | عبد الرحمن بن صخر | من قامه إيمانا واحتسابا، غفر له ما تقدم من ذنبه |
● بلوغ المرام | 568 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● مسندالحميدي | 980 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان إيمانا، واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه، ومن قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا، غفر له ما تقدم من ذنبه |
● مسندالحميدي | 1037 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه، ومن قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1326
´ماہ رمضان میں قیام اللیل (تراویح) کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، اور (اس کی راتوں میں) قیام کیا، تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1326]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
(1)
ہر عمل کے لئے خلوص نیت بہت ضروری ہے۔
روزے اور قیام کا ثواب بھی تب ہی مل سکتا ہے۔
جب یہ عمل محض اللہ کی رضا کے حصول کےلئے ہو۔
ریاکاری کے طور پرنہ ہو۔
(2)
گزشتہ گناہوں کی معافی سے عام طور پر صغیرہ گناہوں کی معافی مراد لی گئی ہے۔
لیکن بعض اوقات کسی بڑی نیکی کی وجہ سے کبیرہ گناہ معاف ہوسکتا ہے۔
روزہ اور قیام جس قدر خلوص نیت کا حامل اور سنت کے مطابق ہوگا۔
اتنا ہی زیادہ گناہوں کی معافی کا باعث ہوگا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1326
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 568
´اعتکاف اور قیام رمضان کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو شخص ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کرتا ہے اس کے پہلے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔“ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 568]
568 لغوی تشریح:
«بَابُ الْاعَتِكَافُ» اعتکاف کے لغوی معنی روکنے، بند کرنے، ٹھہرنے اور لازم رہنے کے ہیں۔ اور شرعی مفہوم یہ کہ مسجد میں ایک خاص کیفیت سے اپنے آپ کو روکنا۔ اور قیام رمضان سے مراد رات کو نماز یا قرآن پاک کی تلاوت کے ساتھ عبادت میں مصروف رہنا ہے۔ اور اس کا غالب استعمال نماز تراویح پر ہوتا ہے۔
«اِيْمَاناً» مفعول لہ ہونے کی بنا پر منصوب ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب کے وعدے پر یقین رکھتے ہوئے۔ اور یہ بھی مفہوم ہو سکتا ہے کہ اپنے ایمان کی وجہ سے قیام کرتا ہے، یعنی اس کا ایمان ہی اسے قیام رمضان پر آمادہ کرتا ہے جس میں اخلاص نیت کی طرف اشارہ اور ریا و نمائش سے اجتناب مقصود ہے۔
«اِحْتِسَابًا» یعنی اللہ تعالیٰ سے ثواب اور اس کی رضا کی نیت سے قیام کرتا ہے۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کی راتوں کا قیام کس قدر عظیم اجر و ثواب کا باعث ہے۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں عموماً آٹھ رکعت اور تین وتر پڑھتے اور قیام بہت لمبا کرتے تھے بلکہ جن تین راتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح پڑھائی ان میں بھی آپ نے گیارہ رکعات ہی پڑھیں۔ [قيام الليل للمروزي، كتاب قيام رمضان، ص: 155۔ طبع المكتبة الاثرية، سانگله هل]
اس لیے سنت نبوی تو بہر نوع گیارہ رکعت ہی ہے۔ علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی اس سے زائد رکعتوں کو سنت نہیں بلکہ نفل قرار دیا ہے۔ [فتح القدير: 334] ٭
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 568
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 808
´قیام رمضان (تراویح پڑھنے) کی ترغیب اور اس کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے قیام (تہجد پڑھنے) کی ترغیب دلاتے، بغیر اس کے کہ انہیں تاکیدی حکم دیں اور فرماتے: ”جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کیا تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے“، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور معاملہ اسی پر قائم رہا، پھر ابوبکر رضی الله عنہ کے عہد خلافت میں اور عمر رضی الله عنہ کے عہد خلافت کے ابتدائی دور میں بھی معاملہ اسی پر رہا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 808]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی نبی اکرم ﷺ کے عہد میں اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اور عہد فاروقی کے ابتدائی سالوں میں بغیر عزیمت و تاکید کے اکیلے اکیلے ہی تراویح پڑھنے کا معاملہ رہا،
پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں باضابطہ گیارہ رکعت تراویح با جماعت کا نظم قائم کر دیا۔
اس ضمن میں مؤطا امام میں صحیح حدیث موجود ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 808
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 683
´ماہ رمضان کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور اس کی راتوں میں قیام کیا تو اس کے سابقہ گناہ ۱؎ بخش دئیے جائیں گے۔ اور جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام کیا تو اس کے بھی سابقہ گناہ بخش دئیے جائیں گے۔“ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 683]
اردو حاشہ:
1؎:
اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 683
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1371
´ماہ رمضان میں قیام اللیل (تراویح) کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر تاکیدی حکم دئیے رمضان کے قیام کی ترغیب دلاتے، پھر فرماتے: ”جس نے رمضان میں ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک معاملہ اسی طرح رہا، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع تک یہی معاملہ رہا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسی طرح عقیل، یونس اور ابواویس نے «من قام رمضان» کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے اور عقیل کی روایت میں «من صام رمضان وقامه» ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1371]
1371. اردو حاشیہ: فائدہ: رمضان کی راتوں کا قیام مسنون و مستحب عمل ہے اور انتہائی فضیلت کا حامل، مگر واجب نہیں ہے۔ اور اس میں غفلت کرنا بہت بڑی محرومی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1371