الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book on Hajj
52. باب مَا جَاءَ فِي تَقْصِيرِ الصَّلاَةِ بِمِنًى
52. باب: منیٰ میں نماز قصر پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Shortening The Salat At Mina
حدیث نمبر: 882
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة، حدثنا ابو الاحوص، عن ابي إسحاق، عن حارثة بن وهب، قال: " صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم بمنى آمن ما كان الناس واكثره ركعتين ". قال: وفي الباب عن ابن مسعود، وابن عمر، وانس. قال ابو عيسى: حديث حارثة بن وهب حديث حسن صحيح، وروي عن ابن مسعود، انه قال: صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم بمنى ركعتين، ومع ابي بكر ومع عمر ومع عثمان ركعتين صدرا من إمارته، وقد اختلف اهل العلم في تقصير الصلاة بمنى لاهل مكة، فقال بعض اهل العلم: ليس لاهل مكة ان يقصروا الصلاة بمنى، إلا من كان بمنى مسافرا، وهو قول ابن جريج، وسفيان الثوري، ويحيى بن سعيد القطان، والشافعي، واحمد، وإسحاق، وقال بعضهم: لا باس لاهل مكة ان يقصروا الصلاة بمنى، وهو قول الاوزاعي، ومالك، وسفيان بن عيينة، وعبد الرحمن بن مهدي.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ: " صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى آمَنَ مَا كَانَ النَّاسُ وَأَكْثَرَهُ رَكْعَتَيْنِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَمَعَ عُمَرَ وَمَعَ عُثْمَانَ رَكْعَتَيْنِ صَدْرًا مِنْ إِمَارَتِهِ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ بِمِنًى لِأَهْلِ مَكَّةَ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَيْسَ لِأَهْلِ مَكَّةَ أَنْ يَقْصُرُوا الصَّلَاةَ بِمِنًى، إِلَّا مَنْ كَانَ بِمِنًى مُسَافِرًا، وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا بَأْسَ لِأَهْلِ مَكَّةَ أَنْ يَقْصُرُوا الصَّلَاةَ بِمِنًى، وَهُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ، وَمَالِكٍ، وَسُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ.
حارثہ بن وہب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھی جب کہ لوگ ہمیشہ سے زیادہ مامون اور بےخوف تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- حارثہ بن وہب کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن مسعود، ابن عمر اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور ابن مسعود رضی الله عنہ سے بھی مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھیں، پھر ابوبکر کے ساتھ، عمر کے ساتھ اور عثمان رضی الله عنہم کے ساتھ ان کے ابتدائی دور خلافت میں دو رکعتیں پڑھیں،
۴- اہل مکہ کے منیٰ میں نماز قصر کرنے کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اہل مکہ کے لیے جائز نہیں کہ وہ منیٰ میں نماز قصر کریں ۱؎، بجز ایسے شخص کے جو منیٰ میں مسافر کی حیثیت سے ہو، یہ ابن جریج، سفیان ثوری، یحییٰ بن سعید قطان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اہل مکہ کے لیے منیٰ میں نماز قصر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ اوزاعی، مالک، سفیان بن عیینہ، اور عبدالرحمٰن بن مہدی کا قول ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تقصیرالصلاة 2 (1083)، والحج 84 (1657)، صحیح مسلم/المسافرین 2 (696)، سنن ابی داود/ الحج 77 (1965)، سنن النسائی/تقصیر الصلاة 3 (1446)، (تحفة الأشراف: 3284)، مسند احمد (4/306) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ان لوگوں کے نزدیک منیٰ میں قصر کی وجہ منسک حج نہیں سفر ہے، مکہ اور منیٰ کے درمیان اتنی دوری نہیں کہ آدمی اس میں نماز قصر کرے، اور جوگ مکہ والوں کے لیے منیٰ میں قصر کو جائز کہتے ہیں ان کے نزدیک قصر کی وجہ سفر نہیں بلکہ اس کے حج کا نسک ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1714)
   صحيح البخاري1083حارثة بن وهبصلى بنا النبي آمن ما كان بمنى ركعتين
   صحيح البخاري1656حارثة بن وهبصلى بنا النبي ونحن أكثر ما كنا قط وآمنه بمنى ركعتين
   صحيح مسلم1599حارثة بن وهبصليت خلف رسول الله بمنى والناس أكثر ما كانوا فصلى ركعتين في حجة الوداع
   صحيح مسلم1598حارثة بن وهبصليت مع رسول الله بمنى آمن ما كان الناس وأكثره ركعتين
   جامع الترمذي882حارثة بن وهبصليت مع النبي بمنى آمن ما كان الناس وأكثره ركعتين
   سنن أبي داود1965حارثة بن وهبصلى بنا ركعتين في حجة الوداع
   سنن النسائى الصغرى1446حارثة بن وهبصليت مع النبي بمنى آمن ما كان الناس وأكثره ركعتين
   سنن النسائى الصغرى1447حارثة بن وهبصلى بنا رسول الله بمنى أكثر ما كان الناس وآمنه ركعتين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 882  
´منیٰ میں نماز قصر پڑھنے کا بیان۔`
حارثہ بن وہب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھی جب کہ لوگ ہمیشہ سے زیادہ مامون اور بےخوف تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 882]
اردو حاشہ:
1؎:
ان لوگوں کے نزدیک منیٰ میں قصر کی وجہ منسک حج نہیں سفر ہے،
مکہ اور منیٰ کے درمیان اتنی دوری نہیں کہ آدمی اس میں نماز قصر کرے،
اور جو لوگ مکہ والوں کے لیے منیٰ میں قصر کو جائز کہتے ہیں ان کے نزدیک قصر کی وجہ سفر نہیں بلکہ اس کے حج کا نسک ہوتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 882   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1965  
´اہل مکہ کے لیے قصر نماز کا بیان۔`
ابواسحاق کہتے ہیں کہ مجھ سے حارثہ بن وہب خزاعی نے بیان کیا اور ان کی والدہ عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں تو ان سے عبیداللہ بن عمر کی ولادت ہوئی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے منیٰ میں نماز پڑھی، اور لوگ بڑی تعداد میں تھے، تو آپ نے ہمیں حجۃ الوداع میں دو رکعتیں پڑھائیں ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حارثہ کا تعلق خزاعہ سے ہے اور ان کا گھر مکہ میں ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1965]
1965. اردو حاشیہ: اس سےمعلوم ہوا کہ منی ٰ میں قصر کرنامناسک حج کا حصہ ہے اس لیے دیگر مسافرین کی طرح اہل مکہ بھی منیٰ میں نماز قصر کر کے ہی پڑھیں گے۔ البتہ فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد اہل مکہ کامنی ٰ میں قصر کرنا جائز نہ ہوگا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1965   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.