الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book on Jana\'iz (Funerals)
39. باب مَا جَاءَ فِي الْقِرَاءَةِ عَلَى الْجَنَازَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
39. باب: نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1027
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن سعد بن إبراهيم، عن طلحة بن عبد الله بن عوف، ان ابن عباس صلى على جنازة فقرا بفاتحة الكتاب ". فقلت له، فقال: " إنه من السنة او من تمام السنة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، يختارون ان يقرا بفاتحة الكتاب بعد التكبيرة الاولى، وهو قول: الشافعي، واحمد، وإسحاق، وقال بعض اهل العلم: لا يقرا في الصلاة على الجنازة، إنما هو ثناء على الله، والصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم، والدعاء للميت، وهو قول: الثوري، وغيره من اهل الكوفة، وطلحة بن عبد الله بن عوف هو: ابن اخي عبد الرحمن بن عوف، روى عنه الزهري.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ ". فَقُلْتُ لَهُ، فَقَالَ: " إِنَّهُ مِنَ السُّنَّةِ أَوْ مِنْ تَمَامِ السُّنَّةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، يَخْتَارُونَ أَنْ يُقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ بَعْدَ التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا يُقْرَأُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ، إِنَّمَا هُوَ ثَنَاءٌ عَلَى اللَّهِ، وَالصَّلَاةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالدُّعَاءُ لِلْمَيِّتِ، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَغَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ، وَطَلْحَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ هُوَ: ابْنُ أَخِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، رَوَى عَنْهُ الزُّهْرِيُّ.
طلحہ بن عوف کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی الله عنہما نے ایک نماز جنازہ پڑھایا تو انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھی۔ میں نے ان سے (اس کے بارے میں) پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ سنت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- طلحہ بن عبداللہ بن عوف، عبدالرحمٰن بن عوف کے بھتیجے ہیں۔ ان سے زہری نے روایت کی ہے،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے یہ لوگ تکبیر اولیٰ کے بعد سورۃ فاتحہ پڑھنے کو پسند کرتے ہیں یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،
۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی ۱؎ اس میں تو صرف اللہ کی ثنا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) اور میت کے لیے دعا ہوتی ہے۔ اہل کوفہ میں سے ثوری وغیرہ کا یہی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 65 (1335)، سنن ابی داود/ الجنائز 59 (3198)، سنن النسائی/الجنائز 77 (1989)، (تحفة الأشراف: 5764) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جن روایتوں سے پہلی تکبیر کے بعد سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ثابت ہوتا ہے ان کی تاویل یہ کی جائیگی کہ یہ قرأت کی نیت سے نہیں بلکہ دعا کی نیت سے پڑھی گئی تھی لیکن یہ محض تاویل ہے جس پر کوئی دلیل نہیں۔ مبتدعین کی حرکات بھی عجیب وغریب ہوا کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے نماز جنازہ میں ثابت سورۃ فاتحہ نماز جنازہ میں نہیں پڑھیں گے اور رسم قُل، تیجا، ساتویں وغیرہ میں فاتحہ کا رٹہ لگائیں گے اور وہ بھی معلوم نہیں کون سی فاتحہ پڑھتے ہیں حقہ کے بغیر ان کے ہاں قبول ہی نہیں ہوتی۔ «فيا عجبا لهذه الخرافات»

قال الشيخ الألباني: صحيح أنظر ما قبله (1026)
   سنن النسائى الصغرى1989عبد الله بن عباسصليت خلف ابن عباس على جنازة فقرأ بفاتحة الكتاب وسورة وجهر حتى أسمعنا فلما فرغ أخذت بيده فسألته فقال سنة وحق
   سنن النسائى الصغرى1990عبد الله بن عباسصليت خلف ابن عباس على جنازة فسمعته يقرأ بفاتحة الكتاب فلما انصرف أخذت بيده فسألته فقلت تقرأ قال نعم إنه حق وسنة
   جامع الترمذي1027عبد الله بن عباسصلى على جنازة فقرأ بفاتحة الكتاب فقلت له فقال إنه من السنة أو من تمام السنة
   جامع الترمذي1026عبد الله بن عباسقرأ على الجنازة بفاتحة الكتاب
   سنن ابن ماجه1495عبد الله بن عباسقرأ على الجنازة بفاتحة الكتاب
   بلوغ المرام456عبد الله بن عباسصليت خلف ابن عباس رضي الله عنهما على جنازة فقرا بفاتحة الكتاب قال: لتعلموا انها سنة
   سنن أبي داود3198عبد الله بن عباسصليت مع ابن عباس على جنازة، فقرا بفاتحة الكتاب، فقال: إنها من السنة
   صحيح البخاري1335عبد الله بن عباسصليت خلف ابن عباس رضي الله عنهما على جنازة، فقرا بفاتحة الكتاب , قال: ليعلموا انها سنة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 456  
´نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ اونچی آواز سے پڑھنا بھی جائز ہے`
سیدنا طلحہ بن عبداللہ بن عوف رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی۔ انہوں نے اس میں سورۃ «فاتحه» پڑھی اور فرمایا (میں نے اس لئے سورۃ «فاتحه» پڑھی ہے) تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ یہ سنت ہے۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 456]
لغوی تشریح:
«لِتَعْلَمُو اَنَّها سُنَّةٌ» تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ یہ طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ماخوذ ہے۔ یہاں سنت سے وہ سنت مراد نہیں جو فرض کے مقابلے میں ہوتی ہے۔ یہ فقہائے کرام کی جدید اصطلاح ہے، لہٰذا یہ اس کے وجوب کے منافی نہیں۔

فائدہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورہ فاتحہ بلند آواز سے پڑھی اور وجہ بھی بیان کر دی کہ تمہیں بتانے کے لیے میں نے ایسا کیا ہے کہ یہ مسنون ہے، گویا نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ اونچی آواز سے پڑھنا بھی جائز ہے۔

راوی حدیث:
[ طلحہ بن عبداللہ بن عوف رحمہ اللہ ] یہ (حضرت طلحہ بن عبداللہ بن عوف رحمہ اللہ) زہری قرشی مدنی تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف مشہور و معروف صحابی کے بھتیجے تھے۔ طلحہ ندی کے لقب سے مشہور تھے۔ ثقہ اور بڑے پائے کے فقیہ تھے۔ اوساط تابعین میں شمار کیے گئے ہیں۔ ۹۷ ہجری میں ۷۲ برس کی عمر میں پا کر فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 456   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1495  
´نماز جنازہ میں قرآت قرآن کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1495]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔
لیکن معناً ومتناً صحیح ہے۔
کیونکہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کے پڑھنے کی بابت صحیح بخاری میں حضرت طلحہ بن عبد اللہ بن عوف سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےساتھ ایک جنازہ پڑھا توانھوں نے سورۃ فاتحہ کی قراءت کی اور کہا یہ سنت ہے (صحیح البخاري، الجنائز، باب قراۃ فاتحة الکتاب علی الجنازۃ، حدیث: 1335)
اور صحابی کا یہ کہنا کہ یہ سنت ہے مرفوع حدیث کے معنی میں ہوتا ہے۔
اس کا صحابی کے قیاس اور اجتہاد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
لہٰذا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول یہ سنت ہے سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ بھی نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔
جیسا کہ سنن نسائی کی روایت میں بھی موجود ہے۔
دیکھئے: (سنن نسائي، الجنائز، باب الدعاء، حدیث: 1991)
بنا بریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر احادیث کی روشنی میں قابل عمل اور قابل حجت ہے نیز آئندہ آنے والی حدیث سے بھی اسی مسئلے کا اثبات ہوتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1495   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1027  
´نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا بیان۔`
طلحہ بن عوف کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی الله عنہما نے ایک نماز جنازہ پڑھایا تو انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھی۔ میں نے ان سے (اس کے بارے میں) پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ سنت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1027]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ان لوگوں کاکہناہے کہ جن روایتوں سے پہلی تکبیرکے بعدسورۂ فاتحہ کاپڑھنا ثابت ہوتا ہے ان کی تاویل یہ کی جائیگی کہ یہ قرأت کی نیت سے نہیں بلکہ دعاکی نیت سے پڑھی گئی تھی لیکن یہ محض تاویل ہے جس پر کوئی دلیل نہیں۔
مبتدعین کی حرکات بھی عجیب وغریب ہواکرتی ہیں،
نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام سے صلاۃِ جنازہ میں ثابت سورۃ الفاتحہ صلاۃِ جنازہ میں نہیں پڑھیں گے اور رسم قُل،
تیجا،
ساتویں وغیرہ میں فاتحہ کا رٹہ لگائیں گے اور وہ بھی معلوم نہیں کون سی فاتحہ پڑھتے ہیں حقہ کے بغیر اُن کے ہاں قبول ہی نہیں ہوتی۔
فيا عجبا لهذه الخرافات۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1027   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1026  
´نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازے میں سورۃ فاتحہ پڑھی۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1026]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(اگلی اثر کی متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے،
ورنہ اس کے راوی ابراہیم بن عثمان ضعیف ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1026   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3198  
´جنازے میں قرآت کا بیان۔`
طلحہ بن عبداللہ بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک جنازہ کی نماز پڑھی تو انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھی اور کہا: یہ سنت میں سے ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3198]
فوائد ومسائل:

صحابی کا یہ کہنا کہ یہ سنت ہے۔
مرفوع حدیث کے معنی میں ہوتا ہے۔
اس کا کوئی تعلق صحابی کے قیاس یا اجتہاد سے نہیں ہوتا۔

پہلی تکبیرکے بعد قراءت فاتحہ ہونی چاہیے۔

اس حدیث میں جنازہ جہری آواز سے پڑھنے کی بھی دلیل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3198   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.