الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: طلاق اور لعان کے احکام و مسائل
The Book on Divorce and Li'an
4. باب مَا جَاءَ فِي الْخِيَارِ
4. باب: عورت کو ساتھ رہنے یا نہ رہنے کے اختیار دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1179
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن إسماعيل بن ابي خالد، عن الشعبي، عن مسروق، عن عائشة، قالت: " خيرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخترناه، افكان طلاقا؟ ". حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن ابي الضحى، عن مسروق، عن عائشة بمثله. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، واختلف اهل العلم في الخيار فروي، عن عمر، وعبد الله بن مسعود، انهما قالا: إن اختارت نفسها فواحدة بائنة، وروي عنهما انهما، قالا: ايضا واحدة يملك الرجعة، وإن اختارت زوجها فلا شيء وروي، عن علي، انه قال: إن اختارت نفسها فواحدة بائنة، وإن اختارت زوجها فواحدة يملك الرجعة، وقال زيد بن ثابت: إن اختارت زوجها فواحدة، وإن اختارت نفسها فثلاث، وذهب اكثر اهل العلم والفقه من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ومن بعدهم، في هذا الباب إلى قول عمر، وعبد الله، وهو قول: الثوري، واهل الكوفة، واما احمد بن حنبل، فذهب إلى قول علي رضي الله عنه.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاخْتَرْنَاهُ، أَفَكَانَ طَلَاقًا؟ ". حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ بِمِثْلِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْخِيَارِ فَرُوِيَ، عَنْ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أنهما قَالَا: إِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَهَا فَوَاحِدَةٌ بَائِنَةٌ، وَرُوِيَ عَنْهُمَا أَنَّهُمَا، قَالَا: أَيْضًا وَاحِدَةٌ يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ، وَإِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَهَا فَلَا شَيْءَ وَرُوِيَ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّهُ قَالَ: إِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَهَا فَوَاحِدَةٌ بَائِنَةٌ، وَإِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَهَا فَوَاحِدَةٌ يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ، وقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: إِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَهَا فَوَاحِدَةٌ، وَإِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَهَا فَثَلَاثٌ، وَذَهَبَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْفِقْهِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، فِي هَذَا الْبَابِ إِلَى قَوْلِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَأَمَّا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، فَذَهَبَ إِلَى قَوْلِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا (چاہیں تو ہم آپ کے نکاح میں رہیں اور چاہیں تو نہ رہیں) ہم نے آپ کو اختیار کیا۔ کیا یہ طلاق مانی گئی تھی؟ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- (ساتھ رہنے اور نہ رہنے کے) اختیار دینے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ ۳- عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما کا کہنا ہے کہ اگر عورت نے خود کو اختیار کر لیا تو طلاق بائنہ ہو گی۔ اور انہی دونوں کا یہ قول بھی ہے کہ ایک طلاق ہو گی اور اسے رجعت کا اختیار ہو گا۔ اور اگر اس نے اپنے شوہر ہی کو اختیار کیا تو اس پر کچھ نہ ہو گا یعنی کوئی طلاق واقع نہ ہو گی ۲؎،
۴- اور علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے خود کو اختیار کیا تو طلاق بائن ہو گی اور اگر اس نے اپنے شوہر کو اختیار کیا تو ایک ہو گی لیکن رجعت کا اختیار ہو گا،
۵- زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے اپنے شوہر کو اختیار کیا تو ایک ہو گی اور اگر خود کو اختیار کیا تو تین ہوں گی،
۶- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم و فقہ اس باب میں عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما کے قول کی طرف گئے ہیں اور یہی ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے،
۷- البتہ احمد بن حنبل کا قول وہی ہے جو علی رضی الله عنہ کا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطلاق 5 (5263)، صحیح مسلم/الطلاق 4 (1477)، سنن النسائی/النکاح 2 (3204)، والطلاق 27 (3471- 3475) (تحفة الأشراف: 17614) مسند احمد 6/202، 205، 240) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن ابی داود/ الطلاق 12 (2203)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 20 (152)، مسند احمد (6/45، 48، 171، 173، 185، 264) من غیر ہذا الوجہ۔»

وضاحت:
۱؎: استفہام انکاری ہے یعنی طلاق نہیں مانی تھی۔
۲؎: اور یہی قول اس صحیح حدیث کے مطابق ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2052)
   صحيح البخاري5262عائشة بنت عبد اللهخيرنا رسول الله فاخترنا الله ورسوله فلم يعد ذلك علينا شيئا
   صحيح البخاري5263عائشة بنت عبد اللهخيرنا النبي أفكان طلاقا
   صحيح مسلم3688عائشة بنت عبد اللهخيرنا رسول الله فاخترناه فلم يعددها علينا شيئا
   صحيح مسلم3684عائشة بنت عبد اللهخيرنا رسول الله فلم نعده طلاقا
   صحيح مسلم3685عائشة بنت عبد اللهخيرنا رسول الله أفكان طلاقا
   صحيح مسلم3686عائشة بنت عبد اللهخير نساءه فلم يكن طلاقا
   صحيح مسلم3687عائشة بنت عبد اللهخيرنا رسول الله فاخترناه فلم يعده طلاقا
   جامع الترمذي1179عائشة بنت عبد اللهخيرنا رسول الله فاخترناه أفكان طلاقا
   جامع الترمذي3204عائشة بنت عبد اللهيأيها النبي قل لأزواجك إن كنت
   سنن أبي داود2203عائشة بنت عبد اللهخيرنا رسول الله فاخترناه فلم يعد ذلك شيئا
   سنن النسائى الصغرى3472عائشة بنت عبد اللهخير رسول الله نساءه فلم يكن طلاقا
   سنن النسائى الصغرى3474عائشة بنت عبد اللهخير رسول الله نساءه أفكان طلاقا
   سنن النسائى الصغرى3473عائشة بنت عبد اللهخير النبي نساءه فلم يكن طلاقا
   سنن النسائى الصغرى3204عائشة بنت عبد اللهخير رسول الله نساءه أو كان طلاقا
   سنن النسائى الصغرى3475عائشة بنت عبد اللهخيرنا رسول الله فاخترناه فلم يعدها علينا شيئا
   سنن النسائى الصغرى3205عائشة بنت عبد اللهخيرنا رسول الله فاخترناه فلم يكن طلاقا
   سنن النسائى الصغرى3471عائشة بنت عبد اللهخيرنا رسول الله فاخترناه فهل كان طلاقا
   سنن ابن ماجه2052عائشة بنت عبد اللهخيرنا رسول الله فاخترناه فلم نره شيئا
   مسندالحميدي236عائشة بنت عبد اللهقد خير رسول الله صلى الله عليه وسلم نساءه فاخترنه، أو كان ذلك طلاقا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2052  
´مرد اپنی بیوی کو ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دیدے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو اختیار دیا تو ہم نے آپ ہی کو اختیار کیا، پھر آپ نے اس کو کچھ نہیں سمجھا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2052]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ جب فتوحات کے نتیجے میں مسلمانوں کی مالی حالت بہتر ہوگئی تو انصار و مہاجرین کی عورتوں کی بہتر حالت کو دیکھ کر امہات المومنین نے نبی اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ ان کے نان و نفقے میں اضافہ کی جائے۔
رسول اللہﷺ اس سے پریشان ہوئے اور ایک مہینہ امہات المومنین سے الگ تھلگ ایک بالا خانے میں تشریف فرما رہے۔
اس کے بعد اللہ تعالی نے سورۃ احزاب کے چوتھے رکوع کی آیات نازل فرمائیں جن میں اللہ تعالی نے فرمایا:
اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیئے:
اگر تمہیں دنیا کی دولت مطلوب ہے تو وہ تمہیں مل جائے گی لیکن اس کےلیے مجھ سے علیحدگی اختیار کرنی ہوگی۔
اوراگر میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو تو پھر اسی طرح قناعت کی زندگی گزارنی پڑ ے گی جس طرح اب تک صبر و شکر کے ساتھ رہتی رہی ہو۔
امہات المومنین رضی اللہ عنہن نے نبئ اکرمﷺ کے ساتھ صبرو قناعت سے رہنے کے حق میں فیصلہ دیا، چنانچہ وہ سب نبی ﷺ کے نکاح میں رہیں۔ (صحیح البخاري، الطلاق، باب من خیر أزواجه......، حدیث: 5262، وصحیح مسلم، الطلاق، باب فی الإیلاء واعتزال النساء و تخییرهن.....، حدیث: 1479)

(2)
مرد کی طرف سے عورت کو اختیا ردینا طلاق نہیں، البتہ اگر عورت اس اختیار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے الگ ہونے کا فیصلہ کرلے تو ایک رجعی طلاق واقع ہوجائے گی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2052   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1179  
´عورت کو ساتھ رہنے یا نہ رہنے کے اختیار دینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا (چاہیں تو ہم آپ کے نکاح میں رہیں اور چاہیں تو نہ رہیں) ہم نے آپ کو اختیار کیا۔ کیا یہ طلاق مانی گئی تھی؟ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1179]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
استفہام انکاری ہے یعنی طلاق نہیں مانی تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1179   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2203  
´عورت کو طلاق کا اختیار دینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (اپنے عقد میں رہنے یا نہ رہنے کا) اختیار دیا تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اختیار کیا، پھر آپ نے اسے کچھ بھی شمار نہیں کیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2203]
فوائد ومسائل:

اگر شوہر بیوی سے کہے مجھے اختیار کرلو یا اپنے آپ کو یا تمہیں اختیار ہے وغیرہ۔
اور نیت طلاق کی ہو۔
۔
۔
۔
۔
پھر اگر بیوی نے اپنے آپ کو اختیار کرلیا تو طلاق ہو جائے گی۔
اور اگر شوہر کو اختیار کرلے تو نہیں ہوگی۔


فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی مالی حالت پہلے کی نسبت کچھ بہتر ہوگئی تو انصا رومہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر ازواج مطہرات نے بھی نان و نفقہ میں اضافہ کا مطالبہ کر دیا۔
نبیﷺ چونکہ نہایت سادگی پسند تھے اس لیے ازواج مطہرات کے اس مطالبے پر سخت کبیدہ خاطر ہوئےاور بیویوں سے علیحدگی اختیار کرلی جو ایک مہینے تک جاری رہی۔
بالآخر اللہ تعالی نےیہ آیت نازل فرمائی: (يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا (28) وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا) (الاحزاب:28-29) اس کے بعد نبی ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو یہ آیت سنا کر انہیں اختیار دیا۔
تاہم انہیں کہا کہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کے بجائے اپنے والدین سے مشورے کے بعد کوئی اقدام کرنا۔
حضرت عائشہ نے کہا: یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے بارے میں مشورہ کروں۔
بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں۔
یہی بات دیگر ازواج مطہرات نے بھی کہی اور کسی نے بھی رسول اللہﷺ کو چھوڑ کر دنیا کے عیش وآرام کو ترجیح نہیں دی۔
(صحیح بخاری تفسیر سورہ احزاب۔
ماخوذ از تفسیراحسن البیان)

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2203   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.