حدثنا علي بن حجر، وعلي بن خشرم، قالا: انبانا عيسى بن يونس، عن الاعمش، عن ابي سفيان، عن جابر، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ثمن الكلب، والسنور ". قال ابو عيسى: هذا حديث في إسناده اضطراب، ولا يصح في ثمن السنور. وقد روي هذا الحديث، عن الاعمش، عن بعض اصحابه، عن جابر واضطربوا على الاعمش في رواية هذا الحديث، وقد كره قوم من اهل العلم ثمن الهر، ورخص فيه بعضهم، وهو قول: احمد، وإسحاق، وروى ابن فضيل، عن الاعمش، عن ابي حازم، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير هذا الوجه.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالَا: أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، وَالسِّنَّوْرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِهِ اضْطِرَابٌ، وَلَا يَصِحُّ فِي ثَمَنِ السِّنَّوْرِ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ، عَنْ جَابِرٍ وَاضْطَرَبُوا عَلَى الْأَعْمَشِ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ ثَمَنَ الْهِرِّ، وَرَخَّصَ فِيهِ بَعْضُهُمْ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَرَوَى ابْنُ فُضَيْلٍ، عنْ الْأَعْمَشِ، عنْ أَبِي حَازِمٍ، عنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے اور بلی کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند میں اضطراب ہے۔ بلی کی قیمت کے بارے میں یہ صحیح نہیں ہے، ۲- یہ حدیث اعمش سے مروی ہے انہوں نے اپنے بعض اصحاب سے روایت کی ہے اور اس نے جابر سے، یہ لوگ اعمش سے اس حدیث کی روایت میں اضطراب کا شکار ہیں، ۳- اور ابن فضل نے اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بطریق: «الأعمش، عن أبي حازم، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے، ۴- اہل علم کی ایک جماعت نے بلی کی قیمت کو ناجائز کہا ہے، ۵- اور بعض لوگوں نے اس کی رخصت دی ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 64 (3479) (تحفة الأشراف: 2309) و انظر أیضا ما عند صحیح مسلم/المساقاة 9 (1569)، وسنن النسائی/الذبائح 61 (4300)، وسنن ابن ماجہ/التجارات 9 (2161)، و مسند احمد (3/339) (صحیح)»