الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
The Book on Sacrifices
11. باب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الأُضْحِيَةَ سُنَّةٌ
11. باب: قربانی کے سنت ہونے کی دلیل۔
حدیث نمبر: 1506
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا احمد بن منيع , حدثنا هشيم , اخبرنا حجاج بن ارطاة , عن جبلة بن سحيم , ان رجلا سال ابن عمر عن الاضحية اواجبة هي؟ فقال " ضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم والمسلمون " , فاعادها عليه , فقال: اتعقل , ضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم والمسلمون , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل على هذا عند اهل العلم: " ان الاضحية ليست بواجبة , ولكنها سنة من سنن رسول الله صلى الله عليه وسلم يستحب ان يعمل بها " , وهو قول سفيان الثوري , وابن المبارك.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ , أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ , عَنْ جَبَلَةَ بْنِ سُحَيْمٍ , أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْأُضْحِيَّةِ أَوَاجِبَةٌ هِيَ؟ فَقَالَ " ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ " , فَأَعَادَهَا عَلَيْهِ , فَقَالَ: أَتَعْقِلُ , ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: " أَنَّ الْأُضْحِيَّةَ لَيْسَتْ بِوَاجِبَةٍ , وَلَكِنَّهَا سُنَّةٌ مِنْ سُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْتَحَبُّ أَنْ يُعْمَلَ بِهَا " , وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , وَابْنِ الْمُبَارَكِ.
جبلہ بن سحیم سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر رضی الله عنہما سے قربانی کے بارے میں پوچھا: کیا یہ واجب ہے؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے، اس آدمی نے پھر اپنا سوال دہرایا، انہوں نے کہا: سمجھتے نہیں ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے، اور اس پر عمل کرنا مستحب ہے، سفیان ثوری اور ابن مبارک کا یہی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأضاحي 2 (3124، 3124/م) (تحفة الأشراف: 6671) (ضعیف) (سند میں ”حجاج بن ارطاة“ ضعیف اور مدلس راوی ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، واضح رہے کہ سنن ابن ماجہ کی سند بھی ضعیف ہے، اس لیے کہ اس میں اسماعیل بن عیاش ہیں جن کی روایت غیر شامی رواة سے ضعیف ہے، اور اس حدیث کی ایک سند میں ان کے شیخ عبداللہ بن عون بصری ہیں، اور دوسری سند میں حجاج بن ارطاة کوفی ہیں)»

وضاحت:
۱؎: بعض نے «من كان له سعة ولم يضح فلا يقربن مصلانا» جس کے ہاں مالی استطاعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے سے قربانی کے وجوب پر استدلال کیا ہے، مگر یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ یہ روایت مرفوع نہیں بلکہ موقوف یعنی ابوہریرہ رضی الله عنہ کا قول ہے، نیز اس میں وجوب کی صراحت نہیں ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے حدیث میں ہے کہ جس نے لہسن کھایا ہو وہ ہماری مسجد میں نہ آئے، اسی لیے جمہور کے نزدیک یہ حکم صرف استحباب کی تاکید کے لیے ہے، اس کے علاوہ بھی جن دلائل سے قربانی کے وجوب پر استدلال کیا جاتا ہے وہ صریح نہیں ہیں، صحیح یہی ہے کہ قربانی سنت ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (1475 / التحقيق الثاني)

قال الشيخ زبير على زئي: (1506) إسناده ضعيف /جه 3124
حجاج بن أرطاة ضعيف (تقدم: 527)
   جامع الترمذي1506عبد الله بن عمرضحى رسول الله والمسلمون فأعادها عليه فقال أتعقل ضحى رسول الله والمسلمون
   سنن ابن ماجه3124عبد الله بن عمرضحى رسول الله والمسلمون من بعده وجرت به السنة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1506  
´قربانی کے سنت ہونے کی دلیل۔`
جبلہ بن سحیم سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر رضی الله عنہما سے قربانی کے بارے میں پوچھا: کیا یہ واجب ہے؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے، اس آدمی نے پھر اپنا سوال دہرایا، انہوں نے کہا: سمجھتے نہیں ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1506]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بعض نے مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةً وَّلَمْ يُضَح فَلَا يَقْرَبَنَّ مصَلَّانَا جس کے ہاں مالی استطاعت ہواور وہ قربانی نہ کرے تووہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے سے قربانی کے وجوب پر استدلال کیا ہے،
مگر یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ یہ روایت مرفوع نہیں بلکہ موقوف یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے،
نیز اس میں وجوب کی صراحت نہیں ہے،
یہ ایسے ہی ہے جیسے حدیث میں ہے کہ جس نے لہسن کھایا ہو وہ ہماری مسجد میں نہ آئے،
اسی لیے جمہور کے نزدیک یہ حکم صرف استحباب کی تاکید کے لیے ہے،
اس کے علاوہ بھی جن دلائل سے قربانی کے وجوب پر استدلال کیا جاتا ہے وہ صریح نہیں ہیں،
صحیح یہی ہے کہ قربانی سنت ہے۔

نوٹ:
(سند میں حجاج بن ارطاۃ ضعیف اور مدلس راوی ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے،
واضح رہے کہ سنن ابن ماجہ کی سند بھی ضعیف ہے،
اس لیے کہ اس میں اسماعیل بن عیاش ہیں جن کی روایت غیر شامی رواۃ سے ضعیف ہے،
اور اس حدیث کی ایک سند میں ان کے شیخ عبداللہ بن عون بصری ہیں،
اور دوسری سند میں حجاج بن ارطاۃ کوفی ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1506   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.