حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " الإيمان يمان، والكفر من قبل المشرق، والسكينة لاهل الغنم، والفخر والرياء في الفدادين اهل الخيل واهل الوبر، ياتي المسيح إذا جاء دبر احد صرفت الملائكة وجهه قبل الشام، وهنالك يهلك "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْإِيمَانُ يَمَانٍ، وَالْكُفْرُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، وَالسَّكِينَةُ لِأَهْلِ الْغَنَمِ، وَالْفَخْرُ وَالرِّيَاءُ فِي الْفَدَّادِينَ أَهْلِ الْخَيْلِ وَأَهْلِ الْوَبَرِ، يَأْتِي الْمَسِيحُ إِذَا جَاءَ دُبُرَ أُحُدٍ صَرَفَتِ الْمَلَائِكَةُ وَجْهَهُ قِبَلَ الشَّامِ، وَهُنَالِكَ يَهْلَكُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان یمن کی طرف سے نکلا ہے اور کفر مشرق (پورب) کی طرف سے، سکون و اطمینان والی زندگی بکری والوں کی ہے، اور فخر و ریاکاری فدادین یعنی گھوڑے اور اونٹ والوں میں ہے، جب مسیح دجال احد کے پیچھے آئے گا تو فرشتے اس کا رخ شام کی طرف پھیر دیں گے اور شام ہی میں وہ ہلاک ہو جائے گا“۔
الإيمان يمان الكفر من قبل المشرق السكينة لأهل الغنم الفخر والرياء في الفدادين أهل الخيل وأهل الوبر يأتي المسيح إذا جاء دبر أحد صرفت الملائكة وجهه قبل الشام وهنالك يهلك
أتاكم أهل اليمن هم ألين قلوبا، وأرق أفئدة الإيمان يمان، والحكمة يمانية، والجفاء والقسوة وغلظ القلوب في الفدادين أهل الوبر، عند أصول أذناب الإبل من ربيعة، ومضر
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3935
´یمن کی فضیلت کا بیان` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس اہل یمن آئے وہ نرم دل اور رقیق القلب ہیں، ایمان یمنی ہے اور حکمت بھی یمنی ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3935]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: بقول بعض آپ ﷺ نے ایمان و حکمت کو جو یمنی فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان و حکمت دونوں مکہ سے نکلے ہیں اور مکہ تہامہ سے ہے اور تہامہ سر زمین یمن میں داخل ہے، اور بقول بعض یہاں ظاہری معنی ہی مراد لینے میں کوئی حرج نہیں، یعنی یہاں خاص یمن جو معروف ہے کہ وہ لوگ مراد ہیں جو اس وقت یمن سے آئے تھے، نہ کہ ہر زمانہ کے اہل یمن مراد ہیں، نیز یہ معنی بھی بیان کیا گیا ہے کہ یمن والوں سے بہت آسانی سے ایمان قبول کر لیا، جبکہ دیگرعلاقوں کے لوگوں پر بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی تھی، اس لیے اہل یمن (اس وقت کے اہل یمن) کی تعریف کی، واللہ اعلم۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3935