الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جہاد کا بیان
The Book of Jihad (Fighting For Allah’S Cause)
139. بَابُ مَا قِيلَ فِي الْجَرَسِ وَنَحْوِهِ فِي أَعْنَاقِ الإِبِلِ:
139. باب: اونٹوں کی گردن میں گھنٹی وغیرہ جس سے آواز نکلے لٹکانا کیسا ہے؟
(139) Chapter. What is said regarding the hanging of bells and the like, round the necks of camels.
حدیث نمبر: 3005
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن عبد الله بن ابي بكر، عن عباد بن تميم ان ابا بشير الانصاري رضي الله عنه، اخبره انه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض اسفاره، قال عبد الله: حسبت انه، قال: والناس في مبيتهم، فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم رسولا" ان لا يبقين في رقبة بعير قلادة من وتر او قلادة إلا قطعت".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ أَنَّ أَبَا بَشِيرٍ الْأَنْصَارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: حَسِبْتُ أَنَّهُ، قَالَ: وَالنَّاسُ فِي مَبِيتِهِمْ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا" أَنْ لَا يَبْقَيَنَّ فِي رَقَبَةِ بَعِيرٍ قِلَادَةٌ مِنْ وَتَرٍ أَوْ قِلَادَةٌ إِلَّا قُطِعَتْ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن ابی بکر نے ‘ انہیں عباد بن تمیم نے اور انہیں ابوبشیر انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ وہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ عبداللہ (عبداللہ بن ابی بکر بن حزم راوی حدیث) نے کہا کہ میرا خیال ہے ابوبشیر نے کہا کہ لوگ اپنی خواب گاہوں میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک قاصد (زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ) یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ جس شخص کے اونٹ کی گردن میں تانت کا گنڈا ہو یا یوں فرمایا کہ گنڈا (ہار) ہو وہ اسے کاٹ ڈالے۔

Narrated Abu Bashir Al-Ansari: That he was in the company of Allah's Apostle on some of his journeys. (The sub-narrator `Abdullah adds, "I think that Abu Bashir also said, 'And the people were at their sleeping places.") Allah's Apostle sent a messenger ordering: "There shall not remain any necklace of string or any other kind of necklace round the necks of camels except it is cut off."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 249

   صحيح البخاري3005قيس بن عبيدلا يبقين في رقبة بعير قلادة من وتر أو قلادة إلا قطعت
   صحيح مسلم5549قيس بن عبيدلا يبقين في رقبة بعير قلادة من وتر أو قلادة إلا قطعت
   سنن أبي داود2552قيس بن عبيدلا يبقين في رقبة بعير قلادة من وتر ولا قلادة إلا قطعت
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم432قيس بن عبيدا تبقين فى رقبة بعير قلادة من وتر او قلادة إلا قطعت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 432  
´نظر سے بچاؤ کے لئے دھاگے منگے لٹکانا منع ہے`
«. . . 307- وبه: عن عباد بن تميم أن أبا بشير الأنصاري أخبره أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى بعض أسفاره، قال: فأرسل رسول الله صلى الله عليه وسلم رسولا، قال عبد الله بن أبى بكر: حسبت أنه قال والناس فى مبيتهم: لا تبقين فى رقبة بعير قلادة من وتر أو قلادة إلا قطعت. قال مالك: أرى ذلك من العين. . . .»
. . . سیدنا ابوبشیر الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیغامبر (اعلان کرنے والا) بھیجا۔ عبداللہ بن ابی بکر (رحمہ اللہ، راوی حدیث) فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ لوگ اپنی خوابگاہوں میں تھے کہ اس نے اعلان کیا: خبردار! کسی اونٹ کی گردن پر تانت کا پٹا یا کوئی اور پٹا کاٹے بغیر نہ چھوڑنا۔، امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ انہوں نے نظر سے (بچاؤ) کے لیے یہ پٹے (گنڈے) ڈال رکھے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 432]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 3005، ومسلم 2115، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ دھاگے منکے وغیرہ لٹکا کر یہ سمجھنا کہ بیماری نہیں لگے گی یا نظر بد سے بچاؤ ہوجائے گا، جائز نہیں ہے مگر قرآنی اور غیر شرکیہ عبارات لکھ کر لٹکانے کے بارے میں سلف صالحین کے درمیان اختلاف ہے۔ سیدنا سعید بن المسیب رحمہ اللہ اسے جائز سمجھتے تھے۔ دیکھئے [السنن الكبريٰ للبيهقي 351/9 وسنده صحيح] لیکن بہتر یہی ہے کہ ان سے بھی اجتناب کیا جائے۔
◄ ابرہیم نخعی رحمہ اللہ بچوں کے لئے بیت الخلاء میں داخل ہونے کی وجہ سے تعویذ مکروہ سمجھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 376/7 ح 23466 وسنده صحيح، دوسرا نسخه 16/8 ح 23823،]
➋ اسحاق بن منصور الکوسج رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے قرآن لٹکانے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ہر شئے (علاج کے لئے لکھ کر) لٹکانا مکروہ ہے۔ [ديكهئے مسائل اسحاق و احمد ج 1 ص 193 فقره 382، التمهيد 164/17] ۔ راجح یہی ہے کہ قرآنی و غیر شرکیہ تعویذ شرک یا بدعت نہیں ہے لیکن سدِ ذرائع کے طور پر یہ تعویذ بھی نہیں پہننے چاہئیں۔
➌ شبہات والی اور مشکوک چیزوں سے بچنا ضروری ہے۔
➍ نظر کا لگ جانا برحق ہے۔ دیکھئے [صحيح بخاري 5740 و صحيح مسلم 2187] لیکن اس کا علاج تعویذ گنڈے نہیں بلکہ مسنون دعائیں ہیں۔ مثلاً «أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ» والی دعا۔ دیکھئے [صحيح بخاري 3371]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 307   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2552  
´گھوڑے کی گردن میں تانت کے گنڈے پہنانے کا بیان۔`
ابوبشیر انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قاصد کے ذریعہ پیغام بھیجا، لوگ اپنی خواب گاہوں میں تھے: کسی اونٹ کی گردن میں کوئی تانت کا قلادہ باقی نہ رہے، اور نہ ہی کوئی اور قلادہ ہو مگر اسے کاٹ دیا جائے۔‏‏‏‏ مالک کہتے ہیں: میرا خیال ہے لوگ یہ گنڈا نظر بد سے بچنے کے لیے باندھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2552]
فوائد ومسائل:
علامہ خطابی لکھتے ہیں کہ امام مالک اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ لوگ اسے نظر بد سے بچائو کےلئے بطور تعویذ ڈالتے تھے۔
اور اسے ہی موثر سمجھتے تھے۔
کئی علماء کا خیال ہے کہ لوگ یہ ان کے گلوں میں گھنٹیاں باندھنے کے لئے ڈالتے تھے۔
کچھ نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ دوڑتے بھاگتے ہوئے جانور کا گلا گھٹ جائے۔
بہر حال وجہ کوئی بھی ہو تانت ڈالنے سے منع فرمایا گیا ہے۔
اور اسی طرح دیگر جاہلانہ تعویز گنڈے بھی ڈالنا جائز نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2552   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3005  
3005. حضرت ابو بشیر انصاری ؓسے روایت ہے کہ وہ کسی سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ جب سب لوگ اپنی اپنی خواب گاہوں میں چلے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ایک قاصد کے ہاتھ پیغام بھیجا۔ کسی اونٹ کی گردن میں کوئی بندھن یا تانت وغیرہ باقی نہ رہے بلکہ اسے کاٹ دیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3005]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ کسی جانور کے گلے میں محض زینت اور تفاخر کے لئے گھنٹی یا کوئی اور باجے کی قسم کا لٹکانا منع ہے۔
قال ابن الجوزي وفي المراد بالأوتار ثلاثة أقوال أحدھم أنھم کانوا یقلدون الإبل أوتار القیسي لئلا یصیبھا العین بزعمھم فأمروا یقطعھا إعلاما بأن الأوتار لا ترد من أمر اللہ شیئا۔
یعنی پہلا قول یہ کہ جہلائے عرب اونٹوں کے گلوں میں کوئی تانت بطور تعویذ لٹکا دیتے تاکہ ان کو نظر بد نہ لگے۔
پس ان کے کاٹ پھینکنے کا حکم دیا گیا‘ تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کے حکم کو یہ لوٹا نہیں سکتی۔
دوسرا قول یہ کہ ایسے تانت وغیرہ جانوروں کے گلوں میں لٹکانے اس خوف سے منع کئے گئے کہ ممکن ہے وہ ان کے گلے میں تنگ ہو کر ان کا گلا گھونٹ دیں یا کسی درخت سے الجھ کر تکلیف کا باعث بن جائیں اور جانوروں کو ایذاء پہنچے۔
تیسرا قول یہ کہ وہ گھنٹے لٹکاتے حالانکہ بجنے والے گھنٹوں کی جگہ میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔
حضرت امام بخاریؒ نے دارقطنی ؒ کی روایت کردہ اس حدیث پر اشارہ کیا ہے۔
جس میں صاف یوں ہے:
«لاَ يَبْقَيَنَّ فِي رَقَبَةِ بَعِيرٍ قِلاَدَةٌ مِنْ وَتَرٍ، أَوْ قِلاَدَةٌ إِلَّا قُطِعَتْ» الا قطع یعنی کسی بھی جانور کے گلے میں کوئی تانت ہو یا گھنٹہ وہ باقی نہ رکھے جائیں۔
(فتح الباري)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3005   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3005  
3005. حضرت ابو بشیر انصاری ؓسے روایت ہے کہ وہ کسی سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ جب سب لوگ اپنی اپنی خواب گاہوں میں چلے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ایک قاصد کے ہاتھ پیغام بھیجا۔ کسی اونٹ کی گردن میں کوئی بندھن یا تانت وغیرہ باقی نہ رہے بلکہ اسے کاٹ دیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3005]
حدیث حاشیہ:
اس حکم امتناعی کے متعلق محدثین کرام اقوال ذکر کیے ہیں۔
لوگ اونٹ کے گلے میں تانت وغیرہ باندھتے تھے تاکہ انھیں نظر بدنہ لگے۔
رسول اللہ ﷺ نے انھیں کاٹنےکا حکم دیا کہ اس سے عقیدہ خراب ہوتا ہے اور ایسا کرنا اللہ کی تقدیر کو رد نہیں کر سکتا۔
لوگ اس تانت میں گھنٹی باندھتے تھے چنانچہ ایک حدیث میں ہے۔
فرشتے اس قافلے کے ساتھ نہیں چلتے جس میں گھٹنیاں بجتی ہوں۔
(سنن أبي داود، الجهاد، حدیث: 2554)
ویسے بھی گھنٹی وغیرہ جنگی چال کے منافی ہے۔
اس قسم کی تانت سے گلا کٹنے کا اندیشہ ہے بعض اوقات سانس تنگ ہو جاتا ہے اور چارا چرنے میں تکلیف کا باعث ہے نیز ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ تانت درخت کے ساتھ پھنس جائے اس سے جانور کا گلاکٹ جائے ان وجوہات کی بنا پر رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ حکم امتناعی جاری فرمایا۔
امام بخاری ؒکے عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے دوسری توجیہ کو پسند کیا ہے۔
(فتح الباري: 172/6)
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3005   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.