الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
The Book of The Obligations of Khumus
18. بَابُ مَنْ لَمْ يُخَمِّسِ الأَسْلاَبَ:
18. باب: جو کوئی مقتول کافروں کے ساز و سامان میں خمس نہ دے۔
(18) Chapter. Not taking the Khumus from the spoils of a killed infidel.
حدیث نمبر: Q3141
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
ومن قتل قتيلا فله سلبه من غير ان يخمس، وحكم الإمام فيه.وَمَنْ قَتَلَ قَتِيلاً فَلَهُ سَلَبُهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُخَمِّسَ، وَحُكْمِ الإِمَامِ فِيهِ.
‏‏‏‏ مقتول کے جسم پر جو سامان ہو (کپڑے، ہتھیار وغیرہ) وہ سامان تقسیم میں شریک ہو گا نہ اس میں سے خمس لیا جائے گا بلکہ وہ سارا قاتل کو ملے گا اور امام کا ایسا حکم۔

حدیث نمبر: 3141
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا مسدد، حدثنا يوسف بن الماجشون، عن صالح بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف، عن ابيه، عن جده، قال: بينا انا واقف في الصف يوم بدر فنظرت عن يميني وعن شمالي، فإذا انا بغلامين من الانصار حديثة اسنانهما تمنيت ان اكون بين اضلع منهما فغمزني احدهما، فقال: يا عم هل تعرف ابا جهل؟ قلت: نعم ما حاجتك إليه يا ابن اخي، قال: اخبرت انه يسب رسول الله صلى الله عليه وسلم والذي نفسي بيده لئن رايته لا يفارق سوادي سواده حتى يموت الاعجل منا فتعجبت لذلك فغمزني الآخر، فقال لي: مثلها فلم انشب ان نظرت إلى ابي جهل يجول في الناس، قلت: الا إن هذا صاحبكما الذي سالتماني فابتدراه بسيفيهما فضرباه حتى قتلاه، ثم انصرفا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبراه، فقال:" ايكما قتله، قال: كل واحد منهما انا قتلته، فقال: هل مسحتما سيفيكما، قالا: لا فنظر في السيفين، فقال: كلاكما قتله سلبه معاذ بن عمرو بن الجموح وكانا معاذ بن عفراء ومعاذ بن عمرو بن الجموح".حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونِ، عَنْ صَالِحِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا وَاقِفٌ فِي الصَّفِّ يَوْمَ بَدْرٍ فَنَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي، فَإِذَا أَنَا بِغُلَامَيْنِ مِنْ الْأَنْصَارِ حَدِيثَةٍ أَسْنَانُهُمَا تَمَنَّيْتُ أَنْ أَكُونَ بَيْنَ أَضْلَعَ مِنْهُمَا فَغَمَزَنِي أَحَدُهُمَا، فَقَالَ: يَا عَمِّ هَلْ تَعْرِفُ أَبَا جَهْلٍ؟ قُلْتُ: نَعَمْ مَا حَاجَتُكَ إِلَيْهِ يَا ابْنَ أَخِي، قَالَ: أُخْبِرْتُ أَنَّهُ يَسُبُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَئِنْ رَأَيْتُهُ لَا يُفَارِقُ سَوَادِي سَوَادَهُ حَتَّى يَمُوتَ الْأَعْجَلُ مِنَّا فَتَعَجَّبْتُ لِذَلِكَ فَغَمَزَنِي الْآخَرُ، فَقَالَ لِي: مِثْلَهَا فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ نَظَرْتُ إِلَى أَبِي جَهْلٍ يَجُولُ فِي النَّاسِ، قُلْتُ: أَلَا إِنَّ هَذَا صَاحِبُكُمَا الَّذِي سَأَلْتُمَانِي فَابْتَدَرَاهُ بِسَيْفَيْهِمَا فَضَرَبَاهُ حَتَّى قَتَلَاهُ، ثُمَّ انْصَرَفَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَاهُ، فَقَالَ:" أَيُّكُمَا قَتَلَهُ، قَالَ: كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَنَا قَتَلْتُهُ، فَقَالَ: هَلْ مَسَحْتُمَا سَيْفَيْكُمَا، قَالَا: لَا فَنَظَرَ فِي السَّيْفَيْنِ، فَقَالَ: كِلَاكُمَا قَتَلَهُ سَلَبُهُ مُعَاذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ وَكَانَا مُعَاذَ بْنَ عَفْرَاءَ ومُعَاذَ بْنَ عَمْرِو بْنِ الجَمُوحِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یوسف بن ماجشون نے، ان سے صالح بن ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف نے، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے صالح کے دادا (عبدالرحمٰن بن عوفص) نے بیان کے کہ بدر کی لڑائی میں، میں صف کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ میں نے جو دائیں بائیں جانب دیکھا، تو میرے دونوں طرف قبیلہ انصار کے دو نوعمر لڑکے تھے۔ میں نے آرزو کی کاش! میں ان سے زبردست زیادہ عمر والوں کے بیچ میں ہوتا۔ ایک نے میری طرف اشارہ کیا، اور پوچھا چچا! آپ ابوجہل کو بھی پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں! لیکن بیٹے تم لوگوں کو اس سے کیا کام ہے؟ لڑکے نے جواب دیا مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مجھے وہ مل گیا تو اس وقت تک میں اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک ہم میں سے کوئی جس کی قسمت میں پہلے مرنا ہو گا، مر نہ جائے، مجھے اس پر بڑی حیرت ہوئی۔ پھر دوسرے نے اشارہ کیا اور وہی باتیں اس نے بھی کہیں۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ مجھے ابوجہل دکھائی دیا جو لوگوں میں (کفار کے لشکر میں) گھومتا پھر رہا تھا۔ میں نے ان لڑکوں سے کہا کہ جس کے متعلق تم لوگ مجھ سے پوچھ رہے تھے، وہ سامنے (پھرتا ہوا نظر آ رہا) ہے۔ دونوں نے اپنی تلواریں سنبھالیں اور اس پر جھپٹ پڑے اور حملہ کر کے اسے قتل کر ڈالا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو خبر دی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم دونوں میں سے کس نے اسے مارا ہے؟ دونوں نوجوانوں نے کہا کہ میں نے قتل کیا ہے۔ اس لیے آپ نے ان سے پوچھا کہ کیا اپنی تلواریں تم نے صاف کر لی ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں تلواروں کو دیکھا اور فرمایا کہ تم دونوں ہی نے اسے مارا ہے۔ اور اس کا سامان معاذ بن عمرو بن جموح کو ملے گا۔ وہ دونوں نوجوان معاذ بن عفراء اور معاذ بن عمرو بن جموع تھے۔ محمد نے کہا یوسف نے صالح سے سنا اور ابراہیم نے اپنے باپ سے سنا۔

Narrated `Abdur-Rahman bin `Auf: While I was standing in the row on the day (of the battle) of Badr, I looked to my right and my left and saw two young Ansari boys, and I wished I had been stronger than they. One of them called my attention saying, "O Uncle! Do you know Abu Jahl?" I said, "Yes, What do you want from him, O my nephew?" He said, "I have been informed that he abuses Allah's Apostle. By Him in Whose Hands my life is, if I should see him, then my body will not leave his body till either of us meet his fate." I was astonished at that talk. Then the other boy called my attention saying the same as the other had said. After a while I saw Abu Jahl walking amongst the people. I said (to the boys), "Look! This is the man you asked me about." So, both of them attacked him with their swords and struck him to death and returned to Allah'S Apostle to inform him of that. Allah's Apostle asked, "Which of you has killed him?" Each of them said, "I Have killed him." Allah's Apostle asked, "Have you cleaned your swords?" They said, "No. " He then looked at their swords and said, "No doubt, you both have killed him and the spoils of the deceased will be given to Mu`adh bin `Amr bin Al-Jamuh." The two boys were Mu`adh bin 'Afra and Mu`adh bin `Amr bin Al-Jamuh.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 369

   صحيح البخاري3141عبد الرحمن بن عوفبينا أنا واقف في الصف يوم بدر فنظرت عن يميني وعن شمالي فإذا أنا بغلامين من الأنصار حديثة أسنانهما تمنيت أن أكون بين أضلع منهما فغمزني أحدهما فقال يا عم هل تعرف أبا جهل قلت نعم ما حاجتك إليه يا ابن أخي قال أخبرت أنه يسب رسول الله والذي ن
   صحيح مسلم4569عبد الرحمن بن عوفأيكما قتله فقال كل واحد منهما أنا قتلت فقال هل مسحتما سيفيكما قالا لا فنظر في السيفين فقال كلاكما قتله
   بلوغ المرام1101عبد الرحمن بن عوف أيكما قتله ؟ هل مسحتما سيفيكما ؟

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1101  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے ابوجہل کے قتل کے قصہ میں مروی ہے کہ دونوں اپنی اپنی تلوار لے کر ابوجہل کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھے اور انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ اس کے بعد وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوجہل کے قتل کی خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم دونوں میں سے کس نے اسے قتل کیا؟ نیز دریافت فرمایا کہ کیا تم نے تلواریں صاف کر لی ہیں؟ دونوں بولے نہیں۔ عبدالرحمٰن نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کی تلواروں کو ملاحظہ کیا اور فرمایا تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کا ساز و سامان معاذ بن عمرو بن جموح کو دینے کا فیصلہ فرمایا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1101»
تخریج:
«أخرجه البخاري، فرض الخمس، باب من لم يخمس الأسلاب، حديث:3141، ومسلم، الجهاد والسير، باب استحقاق القاتل سلب القتيل، حديث:1752.»
تشریح:
راویٔ حدیث:
«حضرت معاذ بن عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ یہ انصار کے قبیلۂ خزرج کے فرد تھے۔
بیعت عقبہ اور غزوۂ بدر میں شریک ہوئے۔
انھوں نے ابوجہل کا پاؤں کاٹ کر اسے پچھاڑ دیا تھا۔
عکرمہ بن ابی جہل نے ان کو زخم لگایا کہ ان کا ہاتھ کٹ کر لٹک گیا تو انھوں نے پاؤں تلے دبا کر کھینچ کر اسے جدا کر دیا اور پھینک دیا اور باقی سارا وقت اکیلے ہاتھ سے لڑتے اور داد شجاعت دیتے رہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے موقف سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صاحب‘ ابن عفراء کے علاوہ اور کوئی تھے کیونکہ ابن عفراء کا نسب اس طرح ہے۔
معاذ بن حارث بن رفاعہ نجاری۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1101   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3141  
3141. حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ بدر کی لڑائی کے وقت صف بندی میں کھڑا تھا۔ اس دوران میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھاتو دو انصاری کم سن لڑکے دکھائی دیے۔ میں نے (اول میں) خواہش کی کہ کاش! میں دو طاقتور اور ان سے زیادہ عمر والوں کے درمیان کھڑا ہوتا۔ اچانک ان میں سے ایک نے میری طرف اشارہ کرکے آہستہ آواز سے پوچھا: اے چچا!تم ابو جہل کو پہچانتے ہو؟، میں نے کہا: ہاں۔ لیکن اے بھتیجے!تجھے اس سے کیا کام ہے؟لڑکے نے جواب دیا: مجھے معلوم ہوا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر وہ مجھے مل جائے تو اس وقت تک میں اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک ہم میں سے وہ جس کی قسمت میں پہلے مرنا ہوگا، مرنہ جائے۔ میں نے اس کی جرات پر بڑا تعجب کیا۔ اتنے میں مجھ سے دوسرے نے آہستگی سے دریافت کیا اور اس نے بھی وہی کہا ہے جو پہلے نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3141]
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ تھا کہ معاذ بن عمرو بن جموح نے اس مردود کو بے دم کیا تھا تو اصل قاتل وہی ہوئے، انہی کو آپ نے ابوجہل کا سامان دلایا اور معاذ بن عفراء کا دل خوش کرنے کے لیے آپ نے یوں فرمایا کہ تم دونوں نے مارا ہے۔
عبدالرحمن بن عوف ؓنے خیال کیا کہ یہ بچے ناتجربہ کار ہیں، معلوم نہیں جنگ کے وقت ٹھہرسکتے ہیں یا نہیں، اگر یہ بھاگے تو معلوم نہیں میرے دل کی بھی کیا حالت ہو، ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ دونوں پیشہ شجاعت کے شیر اور بوڑھوں سے بھی زیادہ دلیر ہیں، ان انصاری بچوں نے لوگوں سے ابوجہل مردود کا حال سنا تھا کہ اس نے آنحضرت ﷺ کو کیسی کیسی اےذائیں دی تھیں۔
چونکہ یہ مدینہ والے تھے لہٰذا ابوجہل کی صورت نہیں پہچانتے تھے۔
ایمان کا جوش ان کے دلوں میں تھا، انہوں نے یہ چاہا کہ ماریں تو بڑے موذی کو ماریں، اسی مردود کا کام تمام کریں۔
جس میں وہ کامیاب ہوئے۔
رضي اللہ عنهم أجمعین بعض روایتوں میں ابوجہل کے قاتل معاذ اور معوذ عفرا کے بیٹے بتلائے گئے ہیں۔
اور ابن مسعود ؓ کو بھی شامل کیاگیا ہے۔
احتمال ہے کہ یہ لوگ بھی بعد میں شریک قتل ہوگئے ہوں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3141   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3141  
3141. حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ بدر کی لڑائی کے وقت صف بندی میں کھڑا تھا۔ اس دوران میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھاتو دو انصاری کم سن لڑکے دکھائی دیے۔ میں نے (اول میں) خواہش کی کہ کاش! میں دو طاقتور اور ان سے زیادہ عمر والوں کے درمیان کھڑا ہوتا۔ اچانک ان میں سے ایک نے میری طرف اشارہ کرکے آہستہ آواز سے پوچھا: اے چچا!تم ابو جہل کو پہچانتے ہو؟، میں نے کہا: ہاں۔ لیکن اے بھتیجے!تجھے اس سے کیا کام ہے؟لڑکے نے جواب دیا: مجھے معلوم ہوا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر وہ مجھے مل جائے تو اس وقت تک میں اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک ہم میں سے وہ جس کی قسمت میں پہلے مرنا ہوگا، مرنہ جائے۔ میں نے اس کی جرات پر بڑا تعجب کیا۔ اتنے میں مجھ سے دوسرے نے آہستگی سے دریافت کیا اور اس نے بھی وہی کہا ہے جو پہلے نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3141]
حدیث حاشیہ:

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کے دل میں خیال آیا کہ یہ دونوں بچے ناتجربہ کارہیں۔
معلوم نہیں کہ جنگ کے وقت ٹھہرسکیں یا نہیں۔
اگر بھاگ کھڑے ہوئے تو نہ معلوم اس وقت میرے دل کی کیا کیفیت ہو۔
لیکن ان کے دلوں میں ایمان کا جوش تھا کہ تو کسی بڑے موذی کو ماریں۔
بہر حال وہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہوئے۔
۔
رضی اللہ عنه۔

کافر مقتول کا زیر استعمال سازو سامان سلب کہلاتا ہے جس کے بارے میں اختلاف ہے کہ اس سے خمس نکالا جائے گایا نہیں؟ امام بخاری ؒ کا رجحان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو جہل کے سازوسامان سے کوئی خمس وغیرہ نہیں لیا بلکہ پورے کا پورا قاتل کے حوالے کر دیا اس لیے اس میں خمس نہیں ہو گا۔
دوسرا مختلف فیہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی کافر کے قتل میں ایک سے زیادہ افراد شریک ہوں تو اس کا کیا کیا جائے؟ نیز خلیفہ یا کمانڈر کو اس بارے میں تصرف کا حق حاصل ہے کہ نہیں؟ اگر کسی کافر کے قتل میں دو مسلمان برابر کے شریک ہوں تو بالا تفاق سلب ان دونوں میں برابر تقسیم ہوگا۔
اور اگر قرآئن سے یہ ثابت ہو جائے کہ اصل قاتل فلاں ہے باقی معاون ہیں تو پھر اصل قاتل کو سلب دیا جائے گا اور دوسروں کو محروم کردیا جائے گا۔
مثلاً:
ایک شخص نے مقتول کو اس حال میں کردیا کہ وہ دفاع کے قابل نہیں رہا اور کسی دوسرے نے آکر اس کی گردن کاٹ دی تو سلب پہلے شخص کو ملے گا۔

سلب ازخود قاتل کو مل جائے گا یا یہ معاملہ امام کی صوابدید پر موقوف ہے؟ امام بخاری ؒ نے اس بارے میں کسی حتمی رائے کا اظہار نہیں کیا شاید اس کی وجہ اہل علم کا اختلاف ہے اور اس کی بنیاد زیر بحث حدیث ہے۔
اس میں ہے کہ ابو جہل کو قتل کرنے والے دو بلکہ ابن مسعود ؓ کو ملا کر تین افراد تھے جبکہ آپ نے سلب صرف معاذ بن عمر ؓ کو دیا امام مالک اور احناف کہتے ہیں کہ آپ کا دو کو چھوڑ کر ایک كو دینا اس امرکی دلیل ہے کہ امام کو سلب میں تصرف کا اختیار ہے جبکہ جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ اس کا مستحق قاتل ہی ہے امام کی صوابدید پر یہ موقوف نہیں۔
مذکورہ حدیث میں آ پ کا یہ فرمانا۔
تم دونوں ہی نے اسے قتل کیا ہے۔
دوسرے کی دلداری کےطور پر ارشاد فرمایا کیونکہ وہ دونوں شریک تو تھے تاہم آپ نے دونوں کی تلواروں سے انداز لگالیا کہ اصل گھائل کرنے والے معاذ ہی ہیں اس لیے ابن مسعود ؓ کو بھی اس میں شریک نہیں کیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3141   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.