الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
The Book of The Stories of The Prophets
31. بَابُ وَفَاةِ مُوسَى، وَذِكْرُهُ بَعْدُ:
31. باب: موسیٰ علیہ السلام کی وفات اور ان کے بعد کے حالات کا بیان۔
(31) Chapter. The death of Musa (Moses) and his remembrance after his death.
حدیث نمبر: Q3407
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
قال ابو العالية: العوان النصف بين البكر والهرمة فاقع سورة البقرة آية 69 صاف لا ذلول سورة البقرة آية 71 لم يذلها العمل تثير الارض سورة البقرة آية 71 ليست بذلول تثير الارض ولا تعمل في الحرث مسلمة سورة البقرة آية 71 من العيوب لا شية سورة البقرة آية 71 بياض صفراء سورة البقرة آية 69 إن شئت سوداء ويقال صفراء كقوله جمالت صفر سورة المرسلات آية 33 فاداراتم سورة البقرة آية 72 اختلفتم.قَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ: الْعَوَانُ النَّصَفُ بَيْنَ الْبِكْرِ وَالْهَرِمَةِ فَاقِعٌ سورة البقرة آية 69 صَافٍ لا ذَلُولٌ سورة البقرة آية 71 لَمْ يُذِلَّهَا الْعَمَلُ تُثِيرُ الأَرْضَ سورة البقرة آية 71 لَيْسَتْ بِذَلُولٍ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَعْمَلُ فِي الْحَرْثِ مُسَلَّمَةٌ سورة البقرة آية 71 مِنَ الْعُيُوبِ لا شِيَةَ سورة البقرة آية 71 بَيَاضٌ صَفْرَاءُ سورة البقرة آية 69 إِنْ شِئْتَ سَوْدَاءُ وَيُقَالُ صَفْرَاءُ كَقَوْلِهِ جِمَالَتٌ صُفْرٌ سورة المرسلات آية 33 فَادَّارَأْتُمْ سورة البقرة آية 72 اخْتَلَفْتُمْ.
‏‏‏‏ ابوالعالیہ نے کہا کہ (قرآن مجید میں لفظ) «العوان» نوجوان اور بوڑھے کے درمیان کے معنی میں ہے۔ «فاقع‏» بمعنی صاف۔ «لا ذلول‏» یعنی جسے کام نے نڈھال اور لاغر نہ کر دیا ہو۔ «تثير الأرض‏» یعنی وہ اتنی کمزور نہ ہو کہ زمین نہ جوت سکے اور نہ کھیتی باڑی کے کام کی ہو۔ «مسلمة‏» یعنی صحیح سالم اور عیوب سے پاک ہو۔ «لا شية‏» یعنی داغی (نہ ہو)۔ «صفراء‏» اگر تم چاہو تو اس کے معنی سیاہ کے بھی ہو سکتے ہیں اور زرد کے بھی جیسے «جمالة صفر‏» میں ہے۔ «فادارأتم‏» بمعنی «فاختلفتم‏» تم نے اختلاف کیا۔ (مزید معلومات کے لیے ان مقامات قرآن کا مطالعہ ضروری ہے جہاں یہ الفاظ آئے ہیں۔)

حدیث نمبر: 3407
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن ابن طاوس، عن ابيه، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال:" ارسل ملك الموت إلى موسى عليهما السلام فلما جاءه صكه فرجع إلى ربه، فقال: ارسلتني إلى عبد لا يريد الموت، قال: ارجع إليه فقل له يضع يده على متن ثور فله بما غطت يده بكل شعرة سنة، قال: اي رب ثم ماذا، قال: ثم الموت، قال: فالآن، قال: فسال الله ان يدنيه من الارض المقدسة رمية بحجر، قال: ابو هريرة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لو كنت ثم لاريتكم قبره إلى جانب الطريق تحت الكثيب الاحمر"، قال: واخبرنا معمر، عن همام، حدثنا ابو هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَام فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ، فَقَالَ: أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ، قَالَ: ارْجِعْ إِلَيْهِ فَقُلْ لَهُ يَضَعُ يَدَهُ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ فَلَهُ بِمَا غَطَّتْ يَدُهُ بِكُلِّ شَعَرَةٍ سَنَةٌ، قَالَ: أَيْ رَبِّ ثُمَّ مَاذَا، قَالَ: ثُمَّ الْمَوْتُ، قَالَ: فَالْآنَ، قَالَ: فَسَأَلَ اللَّهَ أَنْ يُدْنِيَهُ مِنَ الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍ، قَالَ: أَبُو هُرَيْرَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ كُنْتُ ثَمَّ لَأَرَيْتُكُمْ قَبْرَهُ إِلَى جَانِبِ الطَّرِيقِ تَحْتَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ"، قَالَ: وَأَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن طاؤس نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس ملک الموت کو بھیجا۔ جب ملک الموت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے انہیں چانٹا مارا (کیونکہ وہ انسان کی صورت میں آیا تھا) ملک الموت ‘ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں واپس ہوئے اور عرض کیا کہ تو نے اپنے ایک ایسے بندے کے پاس مجھے بھیجا جو موت کے لیے تیار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دوبارہ ان کے پاس جاؤ اور کہو کہ اپنا ہاتھ کسی بیل کی پیٹھ پر رکھیں، ان کے ہاتھ میں جتنے بال اس کے آ جائیں ان میں سے ہر بال کے بدلے ایک سال کی عمر انہیں دی جائے گی (ملک الموت دوبارہ آئے اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ سنایا) موسیٰ علیہ السلام بولے: اے رب! پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر موت ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ پھر ابھی کیوں نہ آ جائے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ بیت المقدس سے مجھے اتنا قریب کر دیا جائے کہ (جہاں ان کی قبر ہو وہاں سے) اگر کوئی پتھر پھینکے تو وہ بیت المقدس تک پہنچ سکے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں وہاں موجود ہوتا تو بیت المقدس میں ‘ میں تمہیں ان کی قبر دکھاتا جو راستے کے کنارے پر ہے ‘ ریت کے سرخ ٹیلے سے نیچے۔ عبدالرزاق بن ہمام نے بیان کیا کہ ہمیں معمر نے خبر دی ‘ انہیں ہمام نے اور ان کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح بیان کیا۔

Narrated Abu Huraira: The Angel of Death was sent to Moses when he came to Moses, Moses slapped him on the eye. The angel returned to his Lord and said, "You have sent me to a Slave who does not want to die." Allah said, "Return to him and tell him to put his hand on the back of an ox and for every hair that will come under it, he will be granted one year of life." Moses said, "O Lord! What will happen after that?" Allah replied, "Then death." Moses said, "Let it come now." Moses then requested Allah to let him die close to the Sacred Land so much so that he would be at a distance of a stone's throw from it." Abu Huraira added, "Allah's Apostle said, 'If I were there, I would show you his grave below the red sand hill on the side of the road."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 619

   صحيح البخاري3407عبد الرحمن بن صخرارجع إليه فقل له يضع يده على متن ثور فله بما غطت يده بكل شعرة سنة قال أي رب ثم ماذا قال ثم الموت قال فالآن قال فسأل الله أن يدنيه من الأرض المقدس
   صحيح البخاري1339عبد الرحمن بن صخرلو كنت ثم لأريتكم قبره إلى جانب الطريق عند الكثيب الأحمر
   صحيح مسلم6148عبد الرحمن بن صخرلو كنت ثم لأريتكم قبره إلى جانب الطريق تحت الكثيب الأحمر
   صحيح مسلم6149عبد الرحمن بن صخرلو أني عنده لأريتكم قبره إلى جانب الطريق عند الكثيب الأحمر
   سنن النسائى الصغرى2091عبد الرحمن بن صخرارجع إليه فقل له يضع يده على متن ثور فله بكل ما غطت يده بكل شعرة سنة قال أي رب ثم مه قال الموت قال فالآن فسأل الله أن يدنيه من الأرض المقدسة رمية بحجر قال رسول الله فلو كنت ثم لأريتكم قبره إلى جانب الطريق تحت الكثيب الأحمر
   صحيفة همام بن منبه60عبد الرحمن بن صخرارجع إلى عبدي فقل له الحياة تريد فإن كنت تريد الحياة فضع يدك على متن ثور فما وارت يدك من شعرة فإنك تعيش بها سنة قال ثم مه قال ثم تموت قال فالآن من قريب قال رب أدنني من الأرض المقدسة رمية بحجر قال رسول الله لو أني عنده لأريتكم قبره إلى جانب الطريق عند الكث

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1339  
´ملک الموت کا (انسانی شکل میں) موسیٰ علیہ السلام کے پاس آنا `
«... أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَام، فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ ,فَقَالَ: أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ ...»
۔۔۔ ملک الموت (آدمی کی شکل میں) موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجے گئے۔ وہ جب آئے تو موسیٰ علیہ السلام نے (نہ پہچان کر) انہیں ایک زور کا طمانچہ مارا اور ان کی آنکھ پھوڑ ڈالی۔ وہ واپس اپنے رب کے حضور میں پہنچے اور عرض کیا کہ یا اللہ! تو نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔۔۔

تخریج الحدیث:
یہ روایت صحیح بخاری میں دو مقامات پر ہے [1339، 3407]
امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ درج ذیل محدثین نے بھی اسے روایت کیا ہے۔
مسلم النیسابوری [صحيح مسلم: 2372 وترقيم دارالسلام: 6148، 6149]
النسائي [سنن النسائي 4؍118، 119 ح2091]
ابن حبان [صحيح ابن حبان، الاحسان 8؍38 ح6223، پرانا نسخه: ح6190]
ابن ابي عاصم [السنة: 599]
البيهقي فى الاسماء والصفات [ص492]
البغوي فى شرح السنة [265/5، 266 ح 451 او قال: هذا حدهث متفق على صحته]
الطبري فى التاريخ [434/1 دوسرا نسخه 505/1]
الحاكم فى المستدرك [578/2 ح 4107 و قال: هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه]
وابوعوانه فى مسنده [اتحاف المهرة 15؍104]
امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے درج ذیل محدثین نے اسے روایت کیا ہے:
أحمد بن حنبل [المسند 2؍269، 315، 533]
عبدالرزاق فى المصنف [11؍274، 375 ح20530، 20531]
همام بن منبه [الصحيفة: 60]
اس حدیث کو سیدنا الامام ابوہریرہ رضى اللہ عنہ سے درج ذیل تابعین نے بیان کیا ہے:
① همام بن منبه [البخاري: 3407 مختصراً، مسلم: 2372 وترقيم دارالسلام: 6149]
② طاؤس [البخاري: 1339، 3407 ومسلم: 2372 وترقيم دارالسلام: 6148]
③ عمار بن ابي عمار [أحمد 2؍533 ح10917 وسنده صحيح وصححه الحاكم على شرط مسلم 2؍578]
اس روايت كي دوسری سند کے لئے دیکھئے:
مسند أحمد [2؍351]
↰ معلوم ہوا کہ یہ روایت بالکل صحیح ہے، اسے بخاری، مسلم، ابن حبان، حاکم اور بغوی نے صحیح قرار دیا ہے۔

سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے پاس ملک الموت ایسی انسانی شکل میں آئے تھے جسے موسیٰ علیہ السلام نہیں پہچانتے تھے۔
◈ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وكان موسيٰ غيورًا، فرأي فى داره رجلاً لم يعرفه، فشال يده فلطمه، فأتت لطمته على فقءِ عينه التى فى الصورة التى يتصور بها، لا الصورة التى خلقه الله عليها»
اور موسیٰ (علیہ السلام) غیور تھے۔ پس انہوں نے اپنے گھر میں ایسا آدمی دیکھا جسے وہ پہچان نہ سکے تو ہاتھ بڑھا کر مکا مار دیا۔ یہ مکا اس (فرشتے) کی (انسانی صورت والی) اس آنکھ پر لگا جو اس نے اختیار کی تھی۔ جس (اصلی) صورت پر اللہ نے اسے پیدا کیا، اس پر یہ مکا نہیں لگا۔ إلخ [الاحسان، نسخه محققه 14؍115]
◈ امام بغوی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر تفصیلی بحث کی ہے جس سے حافظ ابن حبان کی تائید ہوتی ہے۔ [ديكهئے شرح السنة 5؍266۔ 268]
◈ اور فرمایا کہ: یہ مفہوم ابوسلیمان الخطابی نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے تاکہ ان بدعتی اور ملحد لوگوں پر رد ہو جو اس حدیث اور اس جیسی دوسری احادیث پر طعن کرتے ہیں، اللہ ان (گمراہوں) کو ہلاک کرے اور مسلمانوں کو ان کے شر سے بچائے۔ [شرح السنة 5؍268]
↰ مختصر یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کو یہ پتا نہیں تھا کہ یہ فرشتہ ہے اور ان کی روح قبض کرنے کے لئے آیا ہے، لہٰذا انہوں نے اسے غیر آدمی سمجھ کر مارا۔ جب انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ فرشتہ ہے اور روح قبض کرنا چاہتا ہے تو لبیک کہا اور سر تسلیم خم کیا۔ پس یہ حدیث «وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّـهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّـهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ» [63-المنافقون:11] اللہ تعالیٰ ہرگز تاخیر نہیں کرتا جب کسی کی اجل آجائے۔ کے خلاف نہیں ہے۔ «والحمدلله»
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث\صفحہ نمبر: 12   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3407  
3407. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس موت کا فرشتہ بھیجا گیا۔ جب وہ آپ کے ہاں آیا تو آپ نے اسے تھپڑ رسید کیا۔ فرشتہ اپنے رب کے پاس چلا گیا اورعرض کیا: اےاللہ! تو نے مجھے ایک ایسے بندے کی طرف بھیجا ہے جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم واپس اس کے پاس جاکر اسے کہو کہ وہ اپنا ہاتھ کسی بیل کی پشت پر رکھیں۔ ان کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آجائیں، ہربال کے بدلے ایک سال عمر انھیں دے دی جائے گی۔ انھوں(موسیٰ ؑ) نے عرض کیا: اے اللہ! پھر کیا ہوگا؟ فرمایا: پھر بھی موت ہوگی۔ عرض کیا: پھر ابھی کیوں نہ آجائے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ موسیٰ ؑ نے اللہ سے سوال کیا کہ انھیں بیت المقدس سے ایک پتھر پھینکنے کے برابر قریب کردے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میں وہاں موجود ہوتا تو میں تمھیں ان کی قبر دکھاتا جوایک سرخ ٹیلے کے نیچے راستے کے ایک کنارے پر واقع ہے۔ راوی حدیث۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3407]
حدیث حاشیہ:
ملک الموت حضرت موسی ؑ کےپاس انسانی صورت میں آئے تھے۔
لہذا آ دمی جان کر آپ نے ان کوطمانچہ مارا، یہ چیز عقل سےبعید نہیں ہے۔
مگر منکرین حدیث کوبہانہ چاہیے۔
انہوں نے اس حدیث کوبھی تختہ مشق بنایا ہےجوسرا سران کی جہالت ہے۔
حضرت موسی ؑ کو حقیقت معلوم ہوئی تو انہوں نے اللہ تعالی کی ملاقات کےشوق میں موت ہی کو پسند کیا۔
ہمارے حضور ﷺ سے بھی آخر ت میں یہی کہاگیا تھا آپ نے بھی رفیق اعلی سےالحاق کےلیے دعا فرمائی جوقبول ہوئی۔
کہا گیا ہےکہ حضرت موسی ؑ نے خود بیت المقدس میں دفن ہونے کی دعا اس لیے نہیں فرمائی کہ آپ کوبنی اسرائیل کی طرف سےخطرہ تھاکہ وہ آپ کی قبر کوپوجنے لگ جائیں گےجیسا کہ مشرکین کاحال ہےکہ اپنے ابنیاء صلحاء کےمزارات کوعبادت گاہ بناتے چلے آرہے ہیں۔
ہمارے حضور ﷺ کوبھی کعبہ شریف سےڈھائی سومیل دورمدینہ طیبہ میں اللہ نے آرام گاہ نصیب فرمائی۔
اگر حضور ﷺ مکۃ المکرمہ میں دفن ہوتے توامت اسلامیہ کےجہال کی طرف سےبھی یہی خطرہ تھا۔
پھر بھی آنحضرت ﷺ نےدعا فرمائی کہ یااللہ! میری قبر کو وثن (بت)
نہ بنایو کہ لوگ یہاں آکر پوجا پاٹ شروع کردیں۔
الحمداللہ حضور ﷺ کی یہ دعا قبو ل ہوئی اور آج تک مسلمان نما مشرکوں کو وہاں آپ کی قبر کو پوجا کرنے کی ہمت نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3407   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3407  
3407. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس موت کا فرشتہ بھیجا گیا۔ جب وہ آپ کے ہاں آیا تو آپ نے اسے تھپڑ رسید کیا۔ فرشتہ اپنے رب کے پاس چلا گیا اورعرض کیا: اےاللہ! تو نے مجھے ایک ایسے بندے کی طرف بھیجا ہے جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم واپس اس کے پاس جاکر اسے کہو کہ وہ اپنا ہاتھ کسی بیل کی پشت پر رکھیں۔ ان کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آجائیں، ہربال کے بدلے ایک سال عمر انھیں دے دی جائے گی۔ انھوں(موسیٰ ؑ) نے عرض کیا: اے اللہ! پھر کیا ہوگا؟ فرمایا: پھر بھی موت ہوگی۔ عرض کیا: پھر ابھی کیوں نہ آجائے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ موسیٰ ؑ نے اللہ سے سوال کیا کہ انھیں بیت المقدس سے ایک پتھر پھینکنے کے برابر قریب کردے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میں وہاں موجود ہوتا تو میں تمھیں ان کی قبر دکھاتا جوایک سرخ ٹیلے کے نیچے راستے کے ایک کنارے پر واقع ہے۔ راوی حدیث۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3407]
حدیث حاشیہ:

حضرت موسیٰ ؑ کے پاس موت کا فرشتہ انسانی شکل میں حاضر ہوا تھا۔
انھوں نے یہ خیال کر کے کہ ایک آدمی میرے گھر میں اجازت کے بغیر گھس آیا ہے اسے تھپڑ مارا مسند احمد میں ہے کہ موسیٰ ؑ کے تھپڑ مارنے سے ملک الموت کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔
(مسند أحمد: 315/2)
شریعت نے ایسے آدمی کی آنکھ پھوڑدینے کی اجازت دی ہے جواجازت کے بغیرتانک جھانک کرتا ہے۔
(صحیح ابن حبان (الإحسان)
115/14)

امام لغوی نے بھی حافظ ابن حبان ؒ کی تائیدکی ہے۔
(شرح السنة: 265/5)
الغرض موسیٰ ؑ کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ موت کا فرشتہ ہے اور ان کی روح قبض کرنے آیا ہے جب انھیں معلوم ہوا کہ یہ فرشتہ ہے روح قبض کرنا چاہتا ہےتو سر تسلیم خم کردیا۔

موسیٰ ؑ نے یہ خواہش ظاہر کی کہ مجھے ارض مقدسہ کے قریب دفن کیا جائے تاکہ ان کی قبر پوشیدہ رہے اور امت کے جاہل لوگ اس کی عبادت شروع نہ کردیں۔
یہ بھی احتمال ہے کہ بنی اسرائیل اپنی شراتوں کی وجہ سے بیت المقدس میں داخلے سے محروم کردیے گئےتھے وہ چالیس سال تک میدان تیہ میں گھومتے رہے حتی کہ ہارون ؑ کی وفات اسی میدان میں ہوئی۔
حضرت موسیٰ ؑ ایک سال بعد جب فوت ہونے لگے تو تمنا کا اظہار کیا:
اے اللہ! اگر داخلہ نہیں ہو سکا تو کم ازکم اس کا قرب ہی حاصل ہو جائے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3407   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.