الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
The Book of Virtues
2. بَابُ مَنَاقِبِ قُرَيْشٍ:
2. باب: قریش کی فضیلت کا بیان۔
(2) Chapter. Virtues of Quraish.
حدیث نمبر: 3505
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، قال: حدثني ابو الاسود، عن عروة بن الزبير، قال:" كان عبد الله بن الزبير احب البشر إلى عائشة بعد النبي صلى الله عليه وسلم وابي بكر وكان ابر الناس بها وكانت لا تمسك شيئا مما جاءها من رزق الله إلا تصدقت، فقال ابن الزبير: ينبغي ان يؤخذ على يديها، فقالت: ايؤخذ على يدي علي نذر إن كلمته فاستشفع إليها برجال من قريش وباخوال رسول الله صلى الله عليه وسلم خاصة فامتنعت، فقال له: الزهريون اخوال النبي صلى الله عليه وسلم منهم عبد الرحمن بن الاسود بن عبد يغوث، والمسور بن مخرمة إذا استاذنا فاقتحم الحجاب ففعل فارسل إليها بعشر رقاب فاعتقتهم ثم لم تزل تعتقهم حتى بلغت اربعين، فقالت: وددت اني جعلت حين حلفت عملا اعمله فافرغ منه".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَال: حَدَّثَنِي أَبُو الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ:" كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ أَحَبَّ الْبَشَرِ إِلَى عَائِشَةَ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَكَانَ أَبَرَّ النَّاسِ بِهَا وَكَانَتْ لَا تُمْسِكُ شَيْئًا مِمَّا جَاءَهَا مِنْ رِزْقِ اللَّهِ إِلَّا تَصَدَّقَتْ، فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: يَنْبَغِي أَنْ يُؤْخَذَ عَلَى يَدَيْهَا، فَقَالَتْ: أَيُؤْخَذُ عَلَى يَدَيَّ عَلَيَّ نَذْرٌ إِنْ كَلَّمْتُهُ فَاسْتَشْفَعَ إِلَيْهَا بِرِجَالٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَبِأَخْوَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً فَامْتَنَعَتْ، فَقَالَ لَهُ: الزُّهْرِيُّونَ أَخْوَالُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ، وَالْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ إِذَا اسْتَأْذَنَّا فَاقْتَحِمْ الْحِجَابَ فَفَعَلَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا بِعَشْرِ رِقَابٍ فَأَعْتَقَتْهُمْ ثُمَّ لَمْ تَزَلْ تُعْتِقُهُمْ حَتَّى بَلَغَتْ أَرْبَعِينَ، فَقَالَتْ: وَدِدْتُ أَنِّي جَعَلْتُ حِينَ حَلَفْتُ عَمَلًا أَعْمَلُهُ فَأَفْرُغُ مِنْهُ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، کہا کہ مجھ سے ابوالاسود نے، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے عائشہ رضی اللہ عنہا کو سب سے زیادہ محبت تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عادت تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رزق بھی ان کو ملتا وہ اسے صدقہ کر دیا کرتی تھیں۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے (کسی سے) کہا ام المؤمنین کو اس سے روکنا چاہیے (جب عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کی بات پہنچی) تو انہوں نے کہا: کیا اب میرے ہاتھوں کو روکا جائے گا، اب اگر میں نے عبداللہ سے بات کی تو مجھ پر نذر واجب ہے۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے (عائشہ رضی اللہ عنہا کو راضی کرنے کے لیے) قریش کے چند لوگوں اور خاص طور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نانہالی رشتہ داروں (بنو زہرہ) کو ان کی خدمت میں معافی کی سفارش کے لیے بھیجا لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا پھر بھی نہ مانیں۔ اس پر بنو زہرہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں ہوتے تھے اور ان میں عبدالرحمٰن بن اسود بن عبدیغوث اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ جب ہم ان کی اجازت سے وہاں جا بیٹھیں تو تم ایک دفعہ آن کر پردہ میں گھس جاؤ۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا (جب عائشہ رضی اللہ عنہا خوش ہو گئیں تو) انہوں نے ان کی خدمت میں دس غلام (آزاد کرانے کے لیے بطور کفارہ قسم) بھیجے اور ام المؤمنین نے انہیں آزاد کر دیا۔ پھر آپ برابر غلام آزاد کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ چالیس غلام آزاد کر دیئے پھر انہوں نے کہا کاش میں نے جس وقت قسم کھائی تھی (منت مانی تھی) تو میں کوئی خاص چیز بیان کر دیتی جس کو کر کے میں فارغ ہو جاتی۔

Narrated `Urwa bin Az-Zubair: `Abdullah bin Az-Zubair was the most beloved person to `Aisha excluding the Prophet and Abu Bakr, and he in his turn, was the most devoted to her, `Aisha used not to withhold the money given to her by Allah, but she used to spend it in charity. (`Abdullah) bin AzZubair said, " `Aisha should be stopped from doing so." (When `Aisha heard this), she said protestingly, "Shall I be stopped from doing so? I vow that I will never talk to `Abdullah bin Az-Zubair." On that, Ibn Az-Zubair asked some people from Quraish and particularly the two uncles of Allah's Apostle to intercede with her, but she refused (to talk to him). Az-Zuhriyun, the uncles of the Prophet, including `Abdur-Rahman bin Al-Aswad bin `Abd Yaghuth and Al-Miswar bin Makhrama said to him, "When we ask for the permission to visit her, enter her house along with us (without taking her leave)." He did accordingly (and she accepted their intercession). He sent her ten slaves whom she manumitted as an expiation for (not keeping) her vow. `Aisha manumitted more slaves for the same purpose till she manumitted forty slaves. She said, "I wish I had specified what I would have done in case of not fulfilling my vow when I made the vow, so that I might have done it easily."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 708


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3505  
3505. حضرت عروہ بن زبیر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں نبی کریم ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد تمام لوگوں سے زیادہ قابل احترام تھے۔ اور وہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بڑے خدمت گزار تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عادت تھی کہ ان کے پاس جو رزق اللہ کی طرف سے آتا وہ اس میں سے کچھ نہ رکھتیں بلکہ سارے کا سارا صدقہ کردیتی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: انھیں(ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو) اس قدر خرچ کرنے سے روک دینا چاہیے۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ وہ میرے ہاتھ پر پابندی لگانا چاہتا ہے؟ اب اگر میں نے ان سے بات کی تو مجھ پر نذر واجب ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قریش کے چندلوگوں، خاص طور پر رسول اللہ ﷺ کے ماموؤں، سے سفارش کرائی لیکن آپ نے مانیں۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3505]
حدیث حاشیہ:
یعنی صاف یوں نذر مانتی کہ ایک غلام آزاد کروں گی اتنے مسکینوں کو کھانا کھلاؤں گی تو دل میں تردد نہ رہتا۔
حضرت عائشہ ؓنے مبہم منت مانی اور کوئی تفصیل بیان نہیں کی، اس لیے احتیاطاً چالیس غلام آزاد کئے۔
اس سے بعض علماءنے دلیل لی ہے کہ مجہول نذر درست ہے مگر وہ اس میں ایک قسم کا کفارہ کافی سمجھتے ہیں۔
یہ عبداللہ بن زبیر ؓ، حضرت عائشہ ؓ کی بڑی بہن حضرت اسماءبنت ابی بکر ؓ کے بیٹے ہیں، لیکن ان کی تعلیم و تربیت بچپن ہی سے ان کی سگی خالہ حضرت عائشہ ؓنے کی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3505   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3505  
3505. حضرت عروہ بن زبیر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں نبی کریم ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد تمام لوگوں سے زیادہ قابل احترام تھے۔ اور وہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بڑے خدمت گزار تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عادت تھی کہ ان کے پاس جو رزق اللہ کی طرف سے آتا وہ اس میں سے کچھ نہ رکھتیں بلکہ سارے کا سارا صدقہ کردیتی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: انھیں(ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو) اس قدر خرچ کرنے سے روک دینا چاہیے۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ وہ میرے ہاتھ پر پابندی لگانا چاہتا ہے؟ اب اگر میں نے ان سے بات کی تو مجھ پر نذر واجب ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قریش کے چندلوگوں، خاص طور پر رسول اللہ ﷺ کے ماموؤں، سے سفارش کرائی لیکن آپ نے مانیں۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3505]
حدیث حاشیہ:

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بڑی ہمشیر حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بڑے لڑکے ہیں۔
ان دونوں بہنوں کے باپ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مائیں مختلف ہیں، یعنی یہ دونوں پدری بہنیں ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں اولاد نہیں تھی، اس لیے انھوں نے اپنے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے پاس رکھا اور ان کی تعلیم وتربیت کاخصوص اہتمام کیا۔
آپ ان سے بہت محبت کرتی تھیں۔
ناراضی اور پھر معافی کا واقعہ تو حدیث میں مذکور ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مبہم نذر مانی تھی، اس لیے ایک دوغلام آزاد کرنے پر ان کا دل مطمئن نہ تھا، اس لیے انھوں نے چالیس غلام آزاد کیے، البتہ اگرآپ نذر متعین کرلیتیں تو وہی غلام آزادکرنے سے آپ فارغ ہوجاتیں۔
صحیح مسلم میں ہے:
نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا ہے۔
(صحیح مسلم، النذر، حدیث: 4253(1645)
شاید انھیں یہ حدیث نہ پہنچی ہو، بصورت دیگر وہ ایسا نہ کرتیں اور نہ چالیس غلام ہی آزاد کرتیں۔
بہرحال آپ نے کسی قسم کی تفصیل کے بغیر مبہم نذر مانی تھی۔
اس لیے احتیاطاً چالیس غلام آزاد کیے۔

امام بخاری ؒنے اس حدیث سے قریش کی فضیلت ثابت کی ہے کہ عبداللہ بن زبیر ؓ نے چند قریشیوں کوحضرت عائشہ ؓکے پاس سفارش کے لیے بھیجا، یعنی وہ اس قابل تھے کہ ان سے سفارش کرائی جاتی تھی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3505   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.