الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
The Virtues and Merits of The Companions of The Prophet
7. بَابُ مَنَاقِبُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَبِي عَمْرٍو الْقُرَشِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
7. باب: ابوعمرو عثمان بن عفان القرشی (اموی) رضی اللہ عنہ کے فضائل کا بیان۔
(7) Chapter. The virtues of Uthman bin Affan Abi Amr Al-Qurashi.
حدیث نمبر: 3698
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثني محمد بن حاتم بن بزيع، حدثنا شاذان، حدثنا عبد العزيز بن ابي سلمة الماجشون، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال:" كنا في زمن النبي صلى الله عليه وسلم لا نعدل بابي بكر احدا , ثم عمر ثم عثمان ثم نترك اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم لا نفاضل بينهم". تابعه عبد الله بن صالح، عن عبد العزيز.حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ بَزِيعٍ، حَدَّثَنَا شَاذَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كُنَّا فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَعْدِلُ بِأَبِي بَكْرٍ أَحَدًا , ثُمَّ عُمَرَ ثُمَّ عُثْمَانَ ثُمَّ نَتْرُكُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نُفَاضِلُ بَيْنَهُمْ". تَابَعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ.
مجھ سے محمد بن حاتم بن بزیع نے بیان کیا، کہا ہم سے شاذان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ ماجشون نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کو نہیں قرار دیتے تھے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کو پھر عثمان رضی اللہ عنہ کو۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پر ہم کوئی بحث نہیں کرتے تھے اور کسی کو ایک دوسرے پر فضیلت نہیں دیتے تھے، اس حدیث کو عبداللہ بن صالح نے بھی عبدالعزیز سے روایت کیا ہے۔ اس کو اسماعیلی نے وصل کیا ہے۔

Narrated `Uthman: (the son of Muhib) An Egyptian who came and performed the Hajj to the Ka`ba saw some people sitting. He enquire, "Who are these people?" Somebody said, "They are the tribe of Quraish." He said, "Who is the old man sitting amongst them?" The people replied, "He is `Abdullah bin `Umar." He said, "O Ibn `Umar! I want to ask you about something; please tell me about it. Do you know that `Uthman fled away on the day (of the battle) of Uhud?" Ibn `Umar said, "Yes." The (Egyptian) man said, "Do you know that `Uthman was absent on the day (of the battle) of Badr and did not join it?" Ibn `Umar said, "Yes." The man said, "Do you know that he failed to attend the Ar Ridwan pledge and did not witness it (i.e. Hudaibiya pledge of allegiance)?" Ibn `Umar said, "Yes." The man said, "Allahu Akbar!" Ibn `Umar said, "Let me explain to you (all these three things). As for his flight on the day of Uhud, I testify that Allah has excused him and forgiven him; and as for his absence from the battle of Badr, it was due to the fact that the daughter of Allah's Apostle was his wife and she was sick then. Allah's Apostle said to him, "You will receive the same reward and share (of the booty) as anyone of those who participated in the battle of Badr (if you stay with her).' As for his absence from the Ar-Ridwan pledge of allegiance, had there been any person in Mecca more respectable than `Uthman (to be sent as a representative). Allah's Apostle would have sent him instead of him. No doubt, Allah's Apostle had sent him, and the incident of the Ar-Ridwan pledge of Allegiance happened after `Uthman had gone to Mecca. Allah's Apostle held out his right hand saying, 'This is `Uthman's hand.' He stroke his (other) hand with it saying, 'This (pledge of allegiance) is on the behalf of `Uthman.' Then Ibn `Umar said to the man, 'Bear (these) excuses in mind with you.'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 48

   صحيح البخاري3655عبد الله بن عمرنخير بين الناس في زمن النبي فنخير أبا بكر ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان م
   صحيح البخاري3698عبد الله بن عمرلا نعدل بأبي بكر أحدا ثم عمر ثم عثمان ثم نترك أصحاب النبي لا نفاضل بينهم
   سنن أبي داود4627عبد الله بن عمرلا نعدل بأبي بكر أحدا ثم عمر ثم عثمان ثم نترك أصحاب النبي لا نفاضل بينهم
   سنن أبي داود4628عبد الله بن عمرأفضل أمة النبي بعده أبو بكر ثم عمر ثم عثمان م أجمعين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3698  
3698. حضرت عثمان ؓ بن مواہب سے روایت ہے کہ اہل مصر سے ایک شخص آیا، اس نے بیت اللہ کا حج کیا تو لوگوں کو ایک جگہ بیٹھے ہوئے دیکھا۔ پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے کہا: یہ قریش کے لوگ ہیں۔ اس نے پوچھا: ان میں یہ بزرگ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ ہیں۔ مصری نے کہا: اے عبد اللہ بن عمر!میں آپ سے چند باتوں کی وضاحت چاہتا ہوں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان ؓ اُحد کے دن میدان سے بھاگ نکلے تھے؟انھوں نے فرمایا کہ ہاں (مجھے اس بات کا علم ہے۔)پھر اس نے کہا: کیاآپ جانتے ہیں کہ وہ جنگ بدر سے بھی غائب تھے؟حضرت ابن عمر نے فرمایا: ہاں (مجھے اس کا بھی علم ہے) اس نے کہا: کیا آپ اس سے آگاہ ہیں کہ وہ بیعت رضوان سے بھی غائب تھے اور اس میں شریک نہ ہوئے تھے؟انھوں نے فرمایا: ہاں(جانتا ہوں۔) تب اس شخص نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ اس پر حضرت عبد اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3698]
حدیث حاشیہ:

سائل اہل مصر سے تھا اس کا مقصد حضرت عثمان ؓ پر اعتراضات کرنا تھا لیکن حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے ان اعتراضات کے کافی شافی جوابات دیے۔
اس سے حضرت عثمان کی فضیلت واضح ہوتی ہے کہ غزوہ احد سے فرار کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر کیا ہے کہ انھیں معاف کردیا اور بخش دیا۔
جنگ بدر میں حاضر نہ ہونے کے باوجود بھی انھیں حاضر ہونے والوں کا سا حصہ دیا اور ان جیسا ثواب حاصل ہوا جو کسی اور غائب ہونے والے کو نصیب نہ ہوا۔
بیعت رضوان میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
یہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ ہے یہ وہ سعادت ہے جو اور کسی کو نصیب نہ ہوئی۔

مصر سے آنے والا شخص حضرت عثمان ؓ کے مخالفین میں سے تھا اوقر تعجب کے باعث اس نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے تین سوالات کیے تھے۔
جب انھوں نے ان سوالات کی تصدیق کی تو خوشی سے اس نے اللہ أکبرکانعرہ بلند کیا لیکن حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اس کے تینوں سوالوں کا تفصیل سے جواب دے کر اسے کہا:
اب جاؤ اپنا عقیدہ صحیح کرو اور غلط پروپیگنڈا بند کردو۔

حافظ ابن حجر ؒ نے مسند بزار کے حولاے سے لکھا ہے ایک مرتبہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ نے بھی یہی اعتراضات کیے تھے تو حضرت عثمان ؓ نے خود ان کو وہی جوابات دیے جو حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اعتراض کرنے والے کو دیے۔
(فتح الباري: 75/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3698   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.