● صحيح البخاري | 35 | عبد الرحمن بن صخر | من يقم ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● صحيح البخاري | 38 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● صحيح البخاري | 37 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● صحيح البخاري | 2009 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● صحيح البخاري | 2014 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● صحيح البخاري | 1901 | عبد الرحمن بن صخر | من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● صحيح مسلم | 1781 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● صحيح مسلم | 1780 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● صحيح مسلم | 1782 | عبد الرحمن بن صخر | من يقم ليلة القدر فيوافقها أراه قال إيمانا واحتسابا غفر له |
● صحيح مسلم | 1779 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● جامع الترمذي | 808 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● جامع الترمذي | 683 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان وقامه إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن أبي داود | 1371 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن أبي داود | 1372 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2201 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2200 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2199 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2198 | عبد الرحمن بن صخر | من قامه إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2196 | عبد الرحمن بن صخر | من قامه إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 1604 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2202 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 1603 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 5030 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 5029 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 5030 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 5028 | عبد الرحمن بن صخر | من قام شهر رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2203 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2207 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2205 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2204 | عبد الرحمن بن صخر | من قام شهر رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2206 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2208 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن النسائى الصغرى | 2209 | عبد الرحمن بن صخر | من قام شهر رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن ابن ماجه | 1326 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان وقامه إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● سنن ابن ماجه | 1641 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 157 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● صحيح البخاري | 2008 | عبد الرحمن بن صخر | من قامه إيمانا واحتسابا، غفر له ما تقدم من ذنبه |
● بلوغ المرام | 568 | عبد الرحمن بن صخر | من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
● مسندالحميدي | 980 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان إيمانا، واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه، ومن قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا، غفر له ما تقدم من ذنبه |
● مسندالحميدي | 1037 | عبد الرحمن بن صخر | من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه، ومن قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1326
´ماہ رمضان میں قیام اللیل (تراویح) کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، اور (اس کی راتوں میں) قیام کیا، تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1326]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
(1)
ہر عمل کے لئے خلوص نیت بہت ضروری ہے۔
روزے اور قیام کا ثواب بھی تب ہی مل سکتا ہے۔
جب یہ عمل محض اللہ کی رضا کے حصول کےلئے ہو۔
ریاکاری کے طور پرنہ ہو۔
(2)
گزشتہ گناہوں کی معافی سے عام طور پر صغیرہ گناہوں کی معافی مراد لی گئی ہے۔
لیکن بعض اوقات کسی بڑی نیکی کی وجہ سے کبیرہ گناہ معاف ہوسکتا ہے۔
روزہ اور قیام جس قدر خلوص نیت کا حامل اور سنت کے مطابق ہوگا۔
اتنا ہی زیادہ گناہوں کی معافی کا باعث ہوگا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1326
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 568
´اعتکاف اور قیام رمضان کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو شخص ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کرتا ہے اس کے پہلے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔“ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 568]
568 لغوی تشریح:
«بَابُ الْاعَتِكَافُ» اعتکاف کے لغوی معنی روکنے، بند کرنے، ٹھہرنے اور لازم رہنے کے ہیں۔ اور شرعی مفہوم یہ کہ مسجد میں ایک خاص کیفیت سے اپنے آپ کو روکنا۔ اور قیام رمضان سے مراد رات کو نماز یا قرآن پاک کی تلاوت کے ساتھ عبادت میں مصروف رہنا ہے۔ اور اس کا غالب استعمال نماز تراویح پر ہوتا ہے۔
«اِيْمَاناً» مفعول لہ ہونے کی بنا پر منصوب ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب کے وعدے پر یقین رکھتے ہوئے۔ اور یہ بھی مفہوم ہو سکتا ہے کہ اپنے ایمان کی وجہ سے قیام کرتا ہے، یعنی اس کا ایمان ہی اسے قیام رمضان پر آمادہ کرتا ہے جس میں اخلاص نیت کی طرف اشارہ اور ریا و نمائش سے اجتناب مقصود ہے۔
«اِحْتِسَابًا» یعنی اللہ تعالیٰ سے ثواب اور اس کی رضا کی نیت سے قیام کرتا ہے۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کی راتوں کا قیام کس قدر عظیم اجر و ثواب کا باعث ہے۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں عموماً آٹھ رکعت اور تین وتر پڑھتے اور قیام بہت لمبا کرتے تھے بلکہ جن تین راتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح پڑھائی ان میں بھی آپ نے گیارہ رکعات ہی پڑھیں۔ [قيام الليل للمروزي، كتاب قيام رمضان، ص: 155۔ طبع المكتبة الاثرية، سانگله هل]
اس لیے سنت نبوی تو بہر نوع گیارہ رکعت ہی ہے۔ علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی اس سے زائد رکعتوں کو سنت نہیں بلکہ نفل قرار دیا ہے۔ [فتح القدير: 334] ٭
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 568
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 683
´ماہ رمضان کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور اس کی راتوں میں قیام کیا تو اس کے سابقہ گناہ ۱؎ بخش دئیے جائیں گے۔ اور جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام کیا تو اس کے بھی سابقہ گناہ بخش دئیے جائیں گے۔“ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 683]
اردو حاشہ:
1؎:
اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 683
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1371
´ماہ رمضان میں قیام اللیل (تراویح) کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر تاکیدی حکم دئیے رمضان کے قیام کی ترغیب دلاتے، پھر فرماتے: ”جس نے رمضان میں ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک معاملہ اسی طرح رہا، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع تک یہی معاملہ رہا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسی طرح عقیل، یونس اور ابواویس نے «من قام رمضان» کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے اور عقیل کی روایت میں «من صام رمضان وقامه» ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1371]
1371. اردو حاشیہ: فائدہ: رمضان کی راتوں کا قیام مسنون و مستحب عمل ہے اور انتہائی فضیلت کا حامل، مگر واجب نہیں ہے۔ اور اس میں غفلت کرنا بہت بڑی محرومی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1371
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:35
35. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص ایمان کا تقاضا سمجھ کر ثواب کی نیت سے شب قدر کا قیام کرے گا، اس کے سابقہ گناہ بخش دئیے جائیں گے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:35]
حدیث حاشیہ:
1۔
کفرو نفاق کی اقسام ذکر کرنے کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اصل کی طرف رجوع فرماتے ہیں یعنی ایمان اور اس کے متعلقات کو پھر شروع کیا تاکہ مرجیہ کرامیہ اور خوارج وغیرہ کے عقائد و خیالات کا بطلان پورے طور پر ثابت ہو جائے اس سے پہلے ایسے اعمال کا ذکر تھا جن سے نفاق کا اندازہ ہوتا ہے اب ایسی علامتوں کو بیان کیا جاتا ہے جن سے ایمان اور اخلاص کا پتہ چلتا ہے نیز لیلۃ القدر کا معاملہ بڑی محنت وکاوش کا ہے۔
یہ کام وہی کر سکتا ہے جس کے دل میں اخلاص اور جسے دین سے بے پناہ تعلق اور لگاؤ ہو۔
اس باب سے بھی ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو اعمال کو ایمان سے بالکل بے تعلق بتاتے ہیں، حالانکہ ایمان کی حفاظت کے لیے اعمال کی قدم قدم پر ضرورت پڑتی ہے۔
حتی کہ شب قدر کے قیام کی تاکید کی جا رہی ہے۔
2۔
اس حدیث میں ایمان واحتساب کے الفاظ بطور خاص ذکر کیے گئے ہیں۔
لفظ ایمان میں تنبیہ ہے کہ اس رات کا قیام ایمانی تقاضے کے تحت ہونا چاہیے کوئی دوسرا مقصد پیش نظر نہ ہو۔
اس قسم کے ایمانی تقاضوں سے ایمان میں ترقی ہوگی اور جس ایمان میں اس قسم کے تقاضے شامل نہیں ہوں گے، وہ ایمان کمزور ہوگا۔
اسی طرح لفظ احتساب جس کے معنی نیت کا استحضار ہیں یہ اصل نیت سے زائد شئے ہے۔
عمل کے وقت استحضار نیت اجر میں ترقی کا باعث ہے۔
مثلا:
ایک شخص بیدار ہے اور عمل خیر میں مشغول ہے تو یقیناً یہ بڑی سعادت ہے لیکن اگر شب بیداری کے ساتھ نیت کا استحضار بھی ہو جائے تو درجات ثواب میں بہت زیادتی ہوجاتی ہے۔
3۔
لیلۃ القدرکی وجہ تسمیہ کے متعلق مندرجہ ذیل اقوال ہیں۔
(1)
قدر کے معنی عزت و شرف کے ہیں یعنی عزت کی رات یہ عزت رات سے بھی متعلق ہوسکتی ہے یعنی جو رات دیگر تمام راتوں میں خاص امتیاز اور وزن رکھتی ہے۔
اور عابدین سے بھی یہ عزت متعلق ہو سکتی ہے یعنی وہ رات جس میں عبادت کرنے والوں کی بڑی قدر و منزلت ہے نیز یہ عزت عبادت سے بھی متعلق ہو سکتی ہے یعنی اس رات میں کی گئی عبادت دوسری راتوں کے مقابلے میں بڑی قدرومنزلت کی حامل ہے۔
(2)
قدر کا لفظ تقدیر سے ہے تو اس سے مراد وہ رات ہے جس میں فرشتوں کو اس سال سے متعلق تقدیرات کا علم دیا جاتا ہے۔
اس میں سال بھر کے لیے فیصلے کیے جاتے ہیں اس لیے اسے لیلة الحکم بھی کہتے ہیں۔
(3)
قدر کے معنی تنگی کے بھی ہیں یعنی اس رات اتنی کثرت سے فرشتے زمین پر اترتے ہیں کہ زمین ان کی وجہ سے تنگ ہو جاتی ہے اس رات کی تعیین میں خاصا اختلاف ہے تاہم احادیث و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔
اس کو مبہم رکھنے میں یہ حکمت ہے کہ لوگ طاق راتوں میں اس کی فضیلت حاصل کرنے کے شوق میں اللہ کی خوب عبادت کریں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 35