حدثنا مسدد، حدثنا بشر بن المفضل، عن حميد الطويل، حدثنا بكر، انه ذكر لابن عمر، ان انسا حدثهم: ان النبي صلى الله عليه وسلم اهل بعمرة وحجة، فقال اهل النبي صلى الله عليه وسلم بالحج واهللنا به معه، فلما قدمنا مكة قال:" من لم يكن معه هدي فليجعلها عمرة"، وكان مع النبي صلى الله عليه وسلم هدي، فقدم علينا علي بن ابي طالب من اليمن حاجا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" بم اهللت، فإن معنا اهلك؟" قال: اهللت بما اهل به النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" فامسك، فإن معنا هديا".حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، حَدَّثَنَا بَكْرٌ، أَنَّهُ ذَكَرَ لِابْنِ عُمَرَ، أَنَّ أَنَسًا حَدَّثَهُمْ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ، فَقَالَ أَهَلَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ وَأَهْلَلْنَا بِهِ مَعَهُ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ قَالَ:" مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً"، وَكَانَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدْيٌ، فَقَدِمَ عَلَيْنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ مِنْ الْيَمَنِ حَاجًّا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِمَ أَهْلَلْتَ، فَإِنَّ مَعَنَا أَهْلَكَ؟" قَالَ: أَهْلَلْتُ بِمَا أَهَلَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فَأَمْسِكْ، فَإِنَّ مَعَنَا هَدْيًا".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے، کہا ہم سے بکر بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا کہ انس رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھا تھا اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ حج ہی کا احرام باندھا تھا۔ پھر ہم جب مکہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو وہ اپنے حج کے احرام کو عمرہ کا احرام کر لے (اور طواف اور سعی کر کے احرام کھول دے) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کا جانور تھا۔ پھر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یمن سے لوٹ کر حج کا احرام باندھ کر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم نے کس طرح احرام باندھا ہے؟ ہمارے ساتھ تمہاری زوجہ فاطمہ بھی ہیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اسی طرح کا احرام باندھا ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اپنے احرام پر قائم رہو، کیونکہ ہمارے ساتھ قربانی کا جانور ہے۔
Narrated Ibn `Umar: The Prophet assumed the state of Ihram for Umra and Hajj, and we to assumed it for Hajj with him. When we arrived at Mecca, the Prophet said, "Whoever does not possess a Hadi should regard his Ihram for Umra only." The Prophet had a Hadi with him. `Ali bin Abi Talib came to us from Yemen with the intention of performing Hajj. The Prophet said (to him), "With what intention have you assumed the Ihram, for your wife is with us?" `Ali said, "I assumed the lhram with the same intention as that of the Prophet ." The Prophet said, "Keep on the state of lhram, as we have got the Hadi."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 640
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 956
´حج سے متعلق ایک اور باب۔` انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ علی رضی الله عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یمن سے آئے تو آپ نے پوچھا: ”تم نے کیا تلبیہ پکارا، اور کون سا احرام باندھا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: میں نے وہی تلبیہ پکارا، اور اسی کا احرام باندھا ہے جس کا تلبیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا، اور جو احرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے ۱؎ آپ نے فرمایا: ”اگر میرے ساتھ ہدی کے جانور نہ ہوتے تو میں احرام کھول دیتا“۲؎، [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 956]
اردو حاشہ: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے احرام کو دوسرے کے احرام پر معلق کرناجائزہے۔ 2؎: یعنی: عمرہ کے بعد احرام کھول دیتا، پھر 8؍ذی الحجہ کو حج کے لیے دوبارہ احرام باندھتا، جیسا کہ حج تمتع میں کیا جاتا ہے، مذکورہ مجبوری کی وجہ سے آپ نے قران ہی کیا، ورنہ تمتع کرتے، اس لیے تمتع افضل ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 956
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1796
´حج قران کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات ذی الحلیفہ میں گزاری، یہاں تک کہ صبح ہو گئی پھر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب سواری آپ کو لے کر بیداء پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تحمید، تسبیح اور تکبیر بیان کی، پھر حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا، اور لوگوں نے بھی ان دونوں کا احرام باندھا، پھر جب ہم لوگ (مکہ) آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو (احرام کھولنے کا) حکم دیا، انہوں نے احرام کھول دیا، یہاں تک کہ جب یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) آیا تو لوگوں نے حج کا احرام باندھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات اونٹنیاں کھڑی کر کے اپنے ہاتھ سے نحر کیں ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جو بات اس روایت میں منفرد ہے وہ یہ کہ انہوں نے (یعنی انس رضی اللہ عنہ نے) کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے «الحمدلله، سبحان الله والله أكبر» کہا پھر حج کا تلبیہ پکارا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1796]
1796. اردو حاشیہ: ان احادیث کے بیانات میں تعارض نہیں بلکہ تنوع ہے۔ حضرات صحابہ سامعین وناظرین کو جو جو معلوم ہوا انہوں نے وہی بیان کر دیا۔گزشتہ احادیث میں ہے کہ آپ نے نماز ظہر کے بعد اپنے مصلے ہی پر تلبیہ کہا پھر سواری پر بیٹھ کر کہا پھر بیداء کی بلندی پر چڑھنے ہوئے کہا اور یہ سب برحق ہیں اور اس اثنا میں تسبیح وتکبیر بلاشبہ جائز بلکہ مطلوب عمل ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1796