الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
The Book of (The Wedlock)
34. بَابُ عَرْضِ الإِنْسَانِ ابْنَتَهُ أَوْ أُخْتَهُ عَلَى أَهْلِ الْخَيْرِ:
34. باب: کسی انسان کا اپنی بیٹی یا بہن کو اہل خیر سے نکاح کے لیے پیش کرنا۔
(34) Chapter. The presentation of one’s own daughter or sister (for marriage) to a religious man.
حدیث نمبر: 5123
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن يزيد بن ابي حبيب، عن عراك بن مالك، ان زينب بنت ابي سلمة اخبرته ان ام حبيبة، قالت لرسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنا قد تحدثنا انك ناكح درة بنت ابي سلمة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اعلى ام سلمة، لم انكح ام سلمة ما حلت لي، إن اباها اخي من الرضاعة".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّا قَدْ تَحَدَّثْنَا أَنَّكَ نَاكِحٌ دُرَّةَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَعَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، لَمْ أَنْكِحْ أُمَّ سَلَمَةَ مَا حَلَّتْ لِي، إِنَّ أَبَاهَا أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے، ان سے عراک بن مالک نے اور انہیں زینب بنت ابی سلمہ نے خبر دی کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ درہ بنت ابی سلمہ سے نکاح کرنے والے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں اس سے اس کے باوجود نکاح کر سکتا ہوں کہ (ان کی ماں) ام سلمہ میرے نکاح میں پہلے ہی سے موجود ہے اور اگر میں ام سلمہ سے نکاح نہ کئے ہوتا جب بھی وہ درہ میرے لیے حلال نہیں تھی۔ کیونکہ اس کے والد (ابوسلمہ رضی اللہ عنہ) میرے رضاعی بھائی تھے۔

Narrated Zainab bint Salama: Um Habiba said to Allah's Apostle "We have heard that you want to marry Durra bint Abu-Salama." Allah's Apostle said, "Can she be married along with Um Salama (her mother)? Even if I have not married Um Salama, she would not be lawful for me to marry, for her father is my foster brother."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 56

   صحيح البخاري5372رملة بنت صخربنت أخي من الرضاعة أرضعتني وأبا سلمة ثويبة لا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن
   صحيح البخاري5101رملة بنت صخرابنة أخي من الرضاعة أرضعتني وأبا سلمة ثويبة لا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن
   صحيح البخاري5107رملة بنت صخرابنة أخي من الرضاعة أرضعتني وأبا سلمة ثويبة لا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن
   صحيح البخاري5106رملة بنت صخرلو لم تكن ربيبتي ما حلت لي أرضعتني وأباها ثويبة لا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن
   صحيح البخاري5123رملة بنت صخرأباها أخي من الرضاعة
   صحيح مسلم3588رملة بنت صخرابنة أخي من الرضاعة أرضعتني وأبا سلمة ثويبة لا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن
   صحيح مسلم3586رملة بنت صخرابنة أخي من الرضاعة أرضعتني وأباها ثويبة لا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن
   سنن النسائى الصغرى3289رملة بنت صخرابنة أخي من الرضاعة لا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن
   سنن النسائى الصغرى3288رملة بنت صخرأباها أخي من الرضاعة
   سنن النسائى الصغرى3287رملة بنت صخرابنة أخي من الرضاعة أرضعتني وأبا سلمة ثويبة لا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن
   سنن النسائى الصغرى3286رملة بنت صخرابنة أخي من الرضاعة أرضعتني وأبا سلمة ثويبة لا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن
   سنن ابن ماجه1939رملة بنت صخرابنة أخي من الرضاعة أرضعتني وأباها ثويبة لا تعرضن علي أخواتكن ولا بناتكن
   مسندالحميدي309رملة بنت صخرفأفعل ماذا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5372  
´آزاد اور لونڈی دونوں انا ہو سکتی ہیں یعنی دودھ پلا سکتی ہیں`
«. . . أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ،" أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، انْكِحْ أُخْتِي بِنْتَ أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ: وَتُحِبِّينَ ذَلِكِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، لَسْتُ لَكَ بِمُخْلِيَةٍ وَأَحَبُّ مَنْ شَارَكَنِي فِي الْخَيْرِ أُخْتِي، فَقَالَ: إِنَّ ذَلِكِ لَا يَحِلُّ لِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَوَاللَّهِ إِنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّكَ تُرِيدُ أَنْ تَنْكِحَ دُرَّةَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ، فَقَالَ: بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَاللَّهِ لَوْ لَمْ تَكُنْ رَبِيبَتِي فِي حَجْرِي مَا حَلَّتْ لِي، إِنَّهَا بِنْتُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ أَرْضَعَتْنِي وَأَبَا سَلَمَةَ ثُوَيْبَةُ، فَلَا تَعْرِضْنَ عَلَيَّ بَنَاتِكُنَّ وَلَا أَخَوَاتِكُنَّ . . .»
. . . ابوسلمہ کی صاحبزادی زینب نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری بہن (عزہ بنت ابی سفیان) بنت ابی سفیان سے نکاح کر لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اور تم اسے پسند بھی کرو گی (کہ تمہاری بہن تمہاری سوکن بن جائے)؟ میں نے عرض کیا جی ہاں، اس سے خالی تو میں اب بھی نہیں ہوں اور میں پسند کرتی ہوں کہ اپنی بہن کو بھی بھلائی میں اپنے ساتھ شریک کر لوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ یہ میرے لیے جائز نہیں ہے۔ (دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا) میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! واللہ اس طرح کی باتیں ہو رہی ہیں کہ آپ درہ بنت ابی سلمہ سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ ام سلمہ کی بیٹی۔ جب میں نے عرض کیا، جی ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ میری پرورش میں نہ ہوتی جب بھی وہ میرے لیے حلال نہیں تھی وہ تو میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہے۔ مجھے اور ابوسلمہ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا۔ پس تم میرے لیے اپنی لڑکیوں اور بہنوں کو نہ پیش کیا کرو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النَّفَقَاتِ: 5372]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5372کا باب: «بَابُ الْمَرَاضِعِ مِنَ الْمَوَالِيَاتِ وَغَيْرِهِنَّ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں آزاد اور لونڈی دونوں دایہ کے ذریعے دودھ پلانے کا جواز قائم فرمایا ہے، جبکہ تحت الباب حدیث میں لونڈی دایہ کے بارے میں واضح الفاظ موجود نہیں ہیں۔

ابن المنیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«يشير بقوله: المواليات وغيرهن إلى أن حرمة الرضاع تنتشر، كانت المرضعة حرة أصلية، مولاة، او امه لأن ثويبة كانت مولاة أبى لهب .» [المتوري: ص 307]
امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اشارہ فرمایا ہے، «المواليات وغيرهن» کے ذریعے کہ رضاعت کی حرمت منتشر ہے، چاہے دودھ پلانے والی «حره» ہو یا «أمة» کیوں کہ ثویبہ ابولہب کی لونڈی تھیں۔

علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ثم حكم المواليات مستفاد من الحديث الذى أورده البخاري فى الباب، وأراد البخاري با يراد رواية عروة هنا، إيضاح ان ثويبة كانت مولاة ليطابق الترجمة» [لب اللباب فی تراجم والابواب: 293/4]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«وأراد بذكره هنا إيضاح أن ثويبة كانت مولاة ليطابق الترجمة .» [فتح الباري لابن حجر: 441/10]

خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہاں اس کے ذکر سے اس امر کا ایضا ہے کہ ثوبیہ مولاۃ تھیں، اسی بات کی طرف علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اشارہ فرما رہے ہیں پس ایک نکتہ کے ساتھ باب اور حدیث میں مناسبت قائم ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 123   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1939  
´رضاعت (دودھ پلانے) سے وہی رشتے حرام ہوتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔`
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ میری بہن عزہ سے نکاح کر لیجئیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس کو پسند کرتی ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں آپ کے پاس اکیلی نہیں ہوں (کہ سوکن کا ہونا پسند نہ کروں) خیر میں میرے ساتھ شریک ہونے کی سب سے زیادہ حقدار میری بہن ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ میرے لیے حلال نہیں ہے انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم میں باتیں ہو رہی تھیں کہ آپ درہ بنت ابی سلمہ سے نکاح کرنا چاہت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1939]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔

(2)
سوتیلی بیٹی سے نکاح جائز نہیں۔

(3)
رضاعی بھتیجی، بھانجی وغیرہ سے بھی اسی طرح نکاح حرام ہے جس طرح سگی بھتیجی اور بھانجی سے نکاح حرام ہے۔

(4)
رضاعت کے رشتوں کو یاد رکھنا چاہیے تاکہ غلط فہمی سے ایسی عورت سے نکاح نہ ہو جائے جس سے جائز نہیں۔

(5)
رسول اللہ ﷺ نے امہات المومنین رضی اللہ عنہن سے فرمایا:
اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی پیشکش نہ کریں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ام المومنین کی بہن سے نبی ﷺ اس لیے نکاح نہیں کر سکتے تھے کہ دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔
اور کسی بھی ام المومنین کی بیٹی جو نبی ﷺ کی ربیبہ (سوتیلی بیٹی)
تھی اس سے آپ کا نکاح جائز نہیں تھا۔

(6)
ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے یہ پیشکش غالباً اس لیے کر دی کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے شریعت کے بعض احکام امت سے مختلف تھے، مثلاً:
آپ کا چار سے زیادہ خواتین کو بیک وقت نکاح میں رکھنا۔
انہوں نے سوچا ہوگا کہ شاید یہ رشتے بھی جو عام مومنوں کے لیے ممنوع ہیں نبی ﷺ کے لیے جائز ہوں گے۔
آپ ﷺ نے واضح فرما دیا کہ ان مسائل میں آپ کے لیے الگ احکام نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1939   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5123  
5123. سیدہ ام حبیبہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ درہ بنت ابی سلمہ‬ ؓ س‬ے نکاح کرنے والے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں ام سلمہ کے ہوتے ہوئے اس سے نکاح کروں؟ اگر میں نے ام سلمہ سے نکاح نہ کیا ہوتا تو بھی وہ میرے لیے حلال نہ تھی کیونکہ اس کے والد (سیدنا ابو سلمہ ؓ) میرے رضاعی بھائی تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5123]
حدیث حاشیہ:
حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے مشکل ہے اور اصل یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق اس روایت کو لا کر اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا جو اوپر گزر چکا اس میں باب کا مطلب موجود ہے کہ ام المومنین حضرت ام حبیبہ نے اپنی بہن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کیا تھا کہ آپ ان سے نکاح کر لیں اسی سے باب سے مطابقت ہو جاتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5123   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5123  
5123. سیدہ ام حبیبہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ درہ بنت ابی سلمہ‬ ؓ س‬ے نکاح کرنے والے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں ام سلمہ کے ہوتے ہوئے اس سے نکاح کروں؟ اگر میں نے ام سلمہ سے نکاح نہ کیا ہوتا تو بھی وہ میرے لیے حلال نہ تھی کیونکہ اس کے والد (سیدنا ابو سلمہ ؓ) میرے رضاعی بھائی تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5123]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق یہ روایت لا کر ایک دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں وضاحت ہے کہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بہن سے نکاح کی پیش کش کی تھی۔
(صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5107)
اس پیش کش کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے رد کر دیا کہ دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں جمع نہیں کیا جا سکتا۔
(2)
بہرحال یہ ثابت ہوا کہ کسی نیک صالح مرد کو اپنی بہن، بیٹی وغیرہ سے نکاح کی پیش کش کی جا سکتی ہے اور اس میں کوئی عار یا بے عزتی والی بات نہیں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5123   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.