الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
The Book of (The Wedlock)
37. بَابُ مَنْ قَالَ لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِوَلِيٍّ:
37. باب: بغیر ولی کے نکاح صحیح نہیں ہوتا۔
(37) Chapter. Whoever said, A marriage is not valid except through the Wali (i.e., her father or her brother or her relative etc.)
حدیث نمبر: Q5127
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
لقول الله تعالى: فلا تعضلوهن سورة البقرة آية 232 فدخل فيه الثيب وكذلك البكر، وقال: ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا سورة البقرة آية 221، وقال: وانكحوا الايامى منكم سورة النور آية 32.لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: فَلا تَعْضُلُوهُنَّ سورة البقرة آية 232 فَدَخَلَ فِيهِ الثَّيِّبُ وَكَذَلِكَ الْبِكْرُ، وَقَالَ: وَلا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا سورة البقرة آية 221، وَقَالَ: وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ سورة النور آية 32.
‏‏‏‏ کیونکہ اللہ تعالیٰ (سورۃ البقرہ) میں ارشاد فرماتا ہے «فلا تعضلوهن‏» جب تم عورتوں کو طلاق دو پھر وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو عورتوں کے اولیاء تم کو ان کا روک رکھنا درست نہیں۔ اس میں ثیبہ اور باکرہ سب قسم کی عورتیں آ گئیں اور اللہ تعالیٰ نے اسی سورت میں فرمایا «ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا‏» عورتوں کے اولیاء، تم عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کرو اور سورۃ النور میں فرمایا «وأنكحوا الأيامى منكم‏» جو عورتیں خاوند نہیں رکھتیں ان کا نکاح کر دو۔

حدیث نمبر: 5127
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
قال يحيى بن سليمان، حدثنا ابن وهب، عن يونس. ح وحدثنا احمد بن صالح، حدثنا عنبسة، حدثنا يونس، عن ابن شهاب، قال:اخبرني عروة بن الزبير، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم اخبرته،" ان النكاح في الجاهلية كان على اربعة انحاء: فنكاح منها نكاح الناس، اليوم يخطب الرجل إلى الرجل وليته او ابنته فيصدقها ثم ينكحها، ونكاح آخر كان الرجل يقول لامراته إذا طهرت من طمثها: ارسلي إلى فلان فاستبضعي منه، ويعتزلها زوجها ولا يمسها ابدا حتى يتبين حملها من ذلك الرجل الذي تستبضع منه، فإذا تبين حملها اصابها زوجها إذا احب، وإنما يفعل ذلك رغبة في نجابة الولد، فكان هذا النكاح نكاح الاستبضاع، ونكاح آخر يجتمع الرهط ما دون العشرة فيدخلون على المراة كلهم يصيبها فإذا حملت ووضعت ومر عليها ليال بعد ان تضع حملها ارسلت إليهم فلم يستطع رجل منهم ان يمتنع حتى يجتمعوا عندها تقول لهم قد عرفتم الذي كان من امركم وقد ولدت فهو ابنك يا فلان تسمي من احبت باسمه فيلحق به ولدها لا يستطيع ان يمتنع به الرجل، ونكاح الرابع يجتمع الناس الكثير فيدخلون على المراة لا تمتنع ممن جاءها وهن البغايا كن ينصبن على ابوابهن رايات تكون علما فمن ارادهن دخل عليهن فإذا حملت إحداهن ووضعت حملها جمعوا لها ودعوا لهم القافة ثم الحقوا ولدها بالذي يرون فالتاط به ودعي ابنه لا يمتنع من ذلك، فلما بعث محمد صلى الله عليه وسلم بالحق هدم نكاح الجاهلية كله إلا نكاح الناس اليوم".قَالَ يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ:أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ،" أَنَّ النِّكَاحَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ كَانَ عَلَى أَرْبَعَةِ أَنْحَاءٍ: فَنِكَاحٌ مِنْهَا نِكَاحُ النَّاسِ، الْيَوْمَ يَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ وَلِيَّتَهُ أَوِ ابْنَتَهُ فَيُصْدِقُهَا ثُمَّ يَنْكِحُهَا، وَنِكَاحٌ آخَرُ كَانَ الرَّجُلُ يَقُولُ لِامْرَأَتِهِ إِذَا طَهُرَتْ مِنْ طَمْثِهَا: أَرْسِلِي إِلَى فُلَانٍ فَاسْتَبْضِعِي مِنْهُ، وَيَعْتَزِلُهَا زَوْجُهَا وَلَا يَمَسُّهَا أَبَدًا حَتَّى يَتَبَيَّنَ حَمْلُهَا مِنْ ذَلِكَ الرَّجُلِ الَّذِي تَسْتَبْضِعُ مِنْهُ، فَإِذَا تَبَيَّنَ حَمْلُهَا أَصَابَهَا زَوْجُهَا إِذَا أَحَبَّ، وَإِنَّمَا يَفْعَلُ ذَلِكَ رَغْبَةً فِي نَجَابَةِ الْوَلَدِ، فَكَانَ هَذَا النِّكَاحُ نِكَاحَ الِاسْتِبْضَاعِ، وَنِكَاحٌ آخَرُ يَجْتَمِعُ الرَّهْطُ مَا دُونَ الْعَشَرَةِ فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ كُلُّهُمْ يُصِيبُهَا فَإِذَا حَمَلَتْ وَوَضَعَتْ وَمَرَّ عَلَيْهَا لَيَالٍ بَعْدَ أَنْ تَضَعَ حَمْلَهَا أَرْسَلَتْ إِلَيْهِمْ فَلَمْ يَسْتَطِعْ رَجُلٌ مِنْهُمْ أَنْ يَمْتَنِعَ حَتَّى يَجْتَمِعُوا عِنْدَهَا تَقُولُ لَهُمْ قَدْ عَرَفْتُمُ الَّذِي كَانَ مِنْ أَمْرِكُمْ وَقَدْ وَلَدْتُ فَهُوَ ابْنُكَ يَا فُلَانُ تُسَمِّي مَنْ أَحَبَّتْ بِاسْمِهِ فَيَلْحَقُ بِهِ وَلَدُهَا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَمْتَنِعَ بِهِ الرَّجُلُ، وَنِكَاحُ الرَّابِعِ يَجْتَمِعُ النَّاسُ الْكَثِيرُ فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ لَا تَمْتَنِعُ مِمَّنْ جَاءَهَا وَهُنَّ الْبَغَايَا كُنَّ يَنْصِبْنَ عَلَى أَبْوَابِهِنَّ رَايَاتٍ تَكُونُ عَلَمًا فَمَنْ أَرَادَهُنَّ دَخَلَ عَلَيْهِنَّ فَإِذَا حَمَلَتْ إِحْدَاهُنَّ وَوَضَعَتْ حَمْلَهَا جُمِعُوا لَهَا وَدَعَوْا لَهُمُ الْقَافَةَ ثُمَّ أَلْحَقُوا وَلَدَهَا بِالَّذِي يَرَوْنَ فَالْتَاطَ بِهِ وَدُعِيَ ابْنَهُ لَا يَمْتَنِعُ مِنْ ذَلِكَ، فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ هَدَمَ نِكَاحَ الْجَاهِلِيَّةِ كُلَّهُ إِلَّا نِكَاحَ النَّاسِ الْيَوْمَ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ زمانہ جاہلیت میں نکاح چار طرح ہوتے تھے۔ ایک صورت تو یہی تھی جیسے آج کل لوگ کرتے ہیں، ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیر پرورش لڑکی یا اس کی بیٹی کے نکاح کا پیغام بھیجتا اور اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کر لیتا۔ دوسرا نکاح یہ تھا کہ کوئی شوہر اپنی بیوی سے جب وہ حیض سے پاک ہو جاتی تو کہتا تو فلاں شخص کے پاس چلی جا اور اس سے منہ کالا کرا لے اس مدت میں شوہر اس سے جدا رہتا اور اسے چھوتا بھی نہیں۔ پھر جب اس غیر مرد سے اس کا حمل ظاہر ہو جاتا جس سے وہ عارضی طور پر صحبت کرتی رہتی، تو حمل کے ظاہر ہونے کے بعد اس کا شوہر اگر چاہتا تو اس سے صحبت کرتا۔ ایسا اس لیے کرتے تھے تاکہ ان کا لڑکا شریف اور عمدہ پیدا ہو۔ یہ نکاح استبضاع کہلاتا تھا۔ تیسری قسم نکاح کی یہ تھی کہ چند آدمی جو تعداد میں دس سے کم ہوتے کسی ایک عورت کے پاس آنا جانا رکھتے اور اس سے صحبت کرتے۔ پھر جب وہ عورت حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو وضع حمل پر چند دن گزرنے کے بعد وہ عورت اپنے ان تمام مردوں کو بلاتی۔ اس موقع پر ان میں سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ وہ سب اس عورت کے پاس جمع ہو جاتے اور وہ ان سے کہتی کہ جو تمہارا معاملہ تھا وہ تمہیں معلوم ہے اور اب میں نے یہ بچہ جنا ہے۔ پھر وہ کہتی کہ اے فلاں! یہ بچہ تمہارا ہے۔ وہ جس کا چاہتی نام لے دیتی اور وہ لڑکا اسی کا سمجھا جاتا، وہ شخص اس سے انکار کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ چوتھا نکاح اس طور پر تھا کہ بہت سے لوگ کسی عورت کے پاس آیا جایا کرتے تھے۔ عورت اپنے پاس کسی بھی آنے والے کو روکتی نہیں تھی۔ یہ کسبیاں ہوتی تھیں۔ اس طرح کی عورتیں اپنے دروازوں پر جھنڈے لگائے رہتی تھیں جو نشانی سمجھے جاتے تھے۔ جو بھی چاہتا ان کے پاس جاتا۔ اس طرح کی عورت جب حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو اس کے پاس آنے جانے والے جمع ہوتے اور کسی قیافہ جاننے والے کو بلاتے اور بچہ کا ناک نقشہ جس سے ملتا جلتا ہوتا اس عورت کے اس لڑکے کو اسی کے ساتھ منسوب کر دیتے اور وہ بچہ اسی کا بیٹا کہا جاتا، اس سے کوئی انکار نہیں کرتا تھا۔ پھر جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم حق کے ساتھ رسول ہو کر تشریف لائے آپ نے جاہلیت کے تمام نکاحوں کو باطل قرار دے دیا صرف اس نکاح کو باقی رکھا جس کا آج کل رواج ہے۔

Narrated 'Urwa bin Az-Zubair: 'Aishah, the wife of the Prophet (saws) told him that there were four types of marriage during Pre-Islamic period of Ignorance. One type was similar to that of the present day i.e. a man used to ask somebody else for the hand of a girl under his guardianship or for his daughter's hand, and give her Mahr and then marry her. The second type was that a man would say to his wife after she had become clean from her period. "Send for so-and-so and have sexual intercourse with him." Her husband would then keep awy from her and would never sleep with her till she got pregnant from the other man with whom she was sleeping. When her pregnancy became evident, he husband would sleep with her if he wished. Her husband did so (i.e. let his wife sleep with some other man) so that he might have a child of noble breed. Such marriage was called as Al-Istibda'. Another type of marriage was that a group of less than ten men would assemble and enter upon a woman, and all of them would have sexual relation with her. If she became pregnant and delivered a child and some days had passed after delivery, she would sent for all of them and none of them would refuse to come, and when they all gathered before her, she would say to them, "You (all) know waht you have done, and now I have given birth to a child. So, it is your child so-and-so!" naming whoever she liked, and her child would follow him and he could not refuse to take him. The fourth type of marriage was that many people would enter upon a lady and she would never refuse anyone who came to her. Those were the prostitutes who used to fix flags at their doors as sign, and he who would wished, could have sexual intercourse with them. If anyone of them got pregnant and delivered a child, then all those men would be gathered for her and they would call the Qa'if (persons skilled in recognizing the likeness of a child to his father) to them and would let the child follow the man (whom they recognized as his father) and she would let him adhere to him and be called his son. The man would not refuse all that. But when Muhammad (saws) was sent with the Truth, he abolished all the types of marriages observed in pre-Islamic period of Ignorance except the type of marriage the people recognize today.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 58

   صحيح البخاري5127عائشة بنت عبد اللههدم نكاح الجاهلية كله إلا نكاح الناس اليوم
   سنن أبي داود2272عائشة بنت عبد اللههدم نكاح أهل الجاهلية كله إلا نكاح أهل الإسلام اليوم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2272  
´زمانہ جاہلیت والوں کے نکاحوں کا بیان۔`
محمد بن مسلم بن شہاب کہتے ہیں کہ عروہ بن زبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا کہ زمانہ جاہلیت میں چار قسم کے نکاح ہوتے تھے: ایک تو ایسے ہی جیسے اس زمانے میں ہوتا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی بہن یا بیٹی وغیرہ کے لیے نکاح کا پیغام دیتا ہے وہ مہر ادا کرتا ہے اور نکاح کر لیتا ہے۔ نکاح کی دوسری قسم یہ تھی کہ آدمی اپنی بیوی سے حیض سے پاک ہونے کے بعد کہہ دیتا کہ فلاں شخص کو بلوا لے، اور اس کا نطفہ حاصل کر لے پھر وہ شخص تب تک اپنی بیوی سے صحبت نہ کرتا جب تک کہ مطلوبہ شخص سے حمل نہ قرار پا جاتا، حمل ظاہر ہونے کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2272]
فوائد ومسائل:
اہل اسلام کے معروف نکاح اور ملک یمن کے علاوہ (متعہ وغیرہ) جتنے بھی انداز ہیں سب حرام ہیں نیز ولی کے بغیر کسی عورت کا نکاح جائز نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2272   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5127  
5127. نبی ﷺ کی زوجہ محترم ام المو منین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ دور جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں: ایک صورت تو یہی تھی جیسا کہ آج کل لوگ کرتے ہیں، ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیر پرورش لڑکی یا س کی بیٹی سے نکاح کا پیغام بھیجتا، پھر اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کرتا، دوسری صورت یہ تھی کہ ایک آدمی اپنی بیوی سے کہتا جب وہ حیض سے پاک ہو جاتی: تو فلاں شخص کے پاس چلی جا اور اس سے منہ کالا کرلے، اس مدت میں شوہر خود اس سے جدا رہتا اور اس سے ہم بستر نہ ہوتا، پھر جب اس غیر مرد سے اس کا حمل ظاہر ہو جاتا جس سے اس نے منہ کالا کیا تھا، اس نے بعد اگر خاوند کی طبیعت چاہتی تو اس سے صحبت کرتا، اور ایسا اس لیے کرتے تھے تا کہ ان کا لڑکا اچھا اور خوبصورت پیدا ہو۔ یہ نکاح ''نکاح ستبضاع'' کہلاتا تھا۔ تیسری صورت یہ تھی کہ چند آدمی جو دس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5127]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا کہ نکاح ولی کے اختیار میں ہے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلی قسم نکاح کی جو اسلام کے زمانہ میں بھی باقی رہی ہے بیا ن کی کہ ایک مرد عورت کے ولی کو پیغام بھیجتا وہ مہر ٹھہرا کر اس کا نکاح کر دیتا۔
معلوم ہوا کہ نکاح کے لئے ولی کا ہونا ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5127   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5127  
5127. نبی ﷺ کی زوجہ محترم ام المو منین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ دور جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں: ایک صورت تو یہی تھی جیسا کہ آج کل لوگ کرتے ہیں، ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیر پرورش لڑکی یا س کی بیٹی سے نکاح کا پیغام بھیجتا، پھر اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کرتا، دوسری صورت یہ تھی کہ ایک آدمی اپنی بیوی سے کہتا جب وہ حیض سے پاک ہو جاتی: تو فلاں شخص کے پاس چلی جا اور اس سے منہ کالا کرلے، اس مدت میں شوہر خود اس سے جدا رہتا اور اس سے ہم بستر نہ ہوتا، پھر جب اس غیر مرد سے اس کا حمل ظاہر ہو جاتا جس سے اس نے منہ کالا کیا تھا، اس نے بعد اگر خاوند کی طبیعت چاہتی تو اس سے صحبت کرتا، اور ایسا اس لیے کرتے تھے تا کہ ان کا لڑکا اچھا اور خوبصورت پیدا ہو۔ یہ نکاح ''نکاح ستبضاع'' کہلاتا تھا۔ تیسری صورت یہ تھی کہ چند آدمی جو دس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5127]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دور جاہلیت کے صرف چار نکاحوں کا ذکر کیا ہے۔
ان کے علاوہ نکاح کی تین قسمیں اور تھیں جنھیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے بیان نہیں کیا اور وہ یہ ہیں:
٭ خفیہ نکاح:
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وہ خفیہ طور پر آشنا بنانے والی نہ ہوں۔
(النساء: 25)
دور جاہلیت میں لوگ کہتے تھے کہ خفیہ بدکاری میں کوئی حرج نہیں، البتہ علانیہ بدکاری قابل مذمت ہے۔
٭نکاح متعہ:
عارضی طور پر چند دنوں کے لیے نکاح کرنا۔
اسے اسلام نے ہمیشہ کے لیے حرام کر دیا ہے۔
٭نکاح بدل:
دور جاہلیت میں ایک آدمی دوسرے سے کہتا تو اپنی بیوی میرے حوالے کر دے، میں اپنی بیوی تیرے حوالے کر دیتا ہوں۔
چونکہ یہ نکاح بے غیرتی اور بے حیائی پر مشتمل تھے۔
اس لیے اسلام نے حرام کر دیا۔
صرف نکاح کی پہلی صورت کو برقرار رکھا۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی پہلی صورت سے عنوان ثابت کیا ہے کہ نکاح سرپرست کے اختیار میں ہے کیونکہ حدیث میں اس امر کی وضاحت ہے کہ ایک مرد عورت کے سرپرست کو پیغام نکاح بھیجتا اور وہ حق مہر ٹھہرا کر اپنی زیر پرورش کا اس سے نکاح کر دیتا۔
اس سے معلوم ہوا کہ نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5127   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.