الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
The Book of The Times of As-Salat (The Prayers) and Its Superiority
33. بَابُ مَا يُصَلَّى بَعْدَ الْعَصْرِ مِنَ الْفَوَائِتِ وَنَحْوِهَا:
33. باب: عصر کے بعد قضاء نمازیں یا اس کے مانند مثلاً جنازہ کی نماز وغیرہ پڑھنا۔
(33) Chapter. To offer the missed Salat (prayers) and the like after the Asr prayer.
حدیث نمبر: Q590
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
قال ابو عبد الله: وقال كريب: عن ام سلمة، صلى النبي صلى الله عليه وسلم بعد العصر ركعتين، وقال: شغلني ناس من عبد القيس عن الركعتين بعد الظهر.قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَقَالَ كُرَيْبٌ: عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ، وَقَالَ: شَغَلَنِي نَاسٌ مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ.
‏‏‏‏ اور کریب نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے واسطہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعات پڑھیں، پھر فرمایا کہ بنو عبدالقیس کے وفد سے گفتگو کی وجہ سے ظہر کی دو رکعتیں نہیں پڑھ سکا تھا۔

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري Q590  
´عصر کے بعد قضاء نمازیں یا اس کے مانند مثلاً جنازہ کی نماز وغیرہ پڑھنا`
«. . . وَقَالَ كُرَيْبٌ: عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ، وَقَالَ: شَغَلَنِي نَاسٌ مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ . . . .»
. . . ‏‏‏‏ اور کریب نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے واسطہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعات پڑھیں، پھر فرمایا کہ بنو عبدالقیس کے وفد سے گفتگو کی وجہ سے ظہر کی دو رکعتیں نہیں پڑھ سکا تھا۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ مَا يُصَلَّى بَعْدَ الْعَصْرِ مِنَ الْفَوَائِتِ وَنَحْوِهَا:: Q590]

تشریح:
چنانچہ ان کو آپ نے بعد عصر ادا فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں ان کو ادا کرتے ہی رہے۔ اور یہ آپ کی خصوصیات میں سے ہے، امت کے لیے یہ منع ہے۔ مگر قسطلانی نے کہا کہ محدثین نے اس سے دلیل لی ہے کہ فوت شدہ نوافل کا عصر کے بعد پڑھنا بھی درست ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی رجحان معلوم ہوتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 590   

حدیث نمبر: 590
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا عبد الواحد بن ايمن، قال: حدثني ابي، انه سمع عائشة، قالت:" والذي ذهب به ما تركهما حتى لقي الله، وما لقي الله تعالى حتى ثقل عن الصلاة، وكان يصلي كثيرا من صلاته قاعدا تعني الركعتين بعد العصر، وكان النبي صلى الله عليه وسلم يصليهما، ولا يصليهما في المسجد مخافة ان يثقل على امته، وكان يحب ما يخفف عنهم".حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" وَالَّذِي ذَهَبَ بِهِ مَا تَرَكَهُمَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ، وَمَا لَقِيَ اللَّهَ تَعَالَى حَتَّى ثَقُلَ عَنِ الصَّلَاةِ، وَكَانَ يُصَلِّي كَثِيرًا مِنْ صَلَاتِهِ قَاعِدًا تَعْنِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهِمَا، وَلَا يُصَلِّيهِمَا فِي الْمَسْجِدِ مَخَافَةَ أَنْ يُثَقِّلَ عَلَى أُمَّتِهِ، وَكَانَ يُحِبُّ مَا يُخَفِّفُ عَنْهُمْ".
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہ کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ ایمن نے حدیث بیان کی کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، آپ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے یہاں بلا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد کی دو رکعات کو کبھی ترک نہیں فرمایا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ پاک سے جا ملے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے پہلے نماز پڑھنے میں بڑی دشواری پیش آتی تھی۔ پھر اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پوری پابندی کے ساتھ پڑھتے تھے لیکن اس خوف سے کہ کہیں (صحابہ بھی پڑھنے لگیں اور اس طرح) امت کو گراں باری ہو، انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کا ہلکا رکھنا پسند تھا۔

Narrated `Aisha: By Allah, Who took away the Prophet. The Prophet never missed them (two rak`at) after the `Asr prayer till he met Allah and he did not meet Allah till it became heavy for him to pray while standing so he used to offer most of the prayers while sitting. (She meant the two rak`at after `Asr) He used to pray them in the house and never prayed them in the mosque lest it might be hard for his followers and he loved what was easy for them .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 10, Number 564

   صحيح البخاري593عائشة بنت عبد اللهما كان النبي يأتيني في يوم بعد العصر إلا صلى ركعتين
   صحيح البخاري590عائشة بنت عبد اللهيصلي كثيرا من صلاته قاعدا كان النبي يصليهما ولا يصليهما في المسجد مخافة أن يثقل على أمته وكان يحب ما يخفف عنهم
   صحيح مسلم1937عائشة بنت عبد اللهما كان يومه الذي كان يكون عندي إلا صلاهما رسول الله في بيتي تعني الركعتين بعد العصر
   صحيح مسلم1935عائشة بنت عبد اللهما ترك رسول الله ركعتين بعد العصر عندي قط
   صحيح مسلم1934عائشة بنت عبد اللهيصليهما قبل العصر ثم إنه شغل عنهما أو نسيهما فصلاهما بعد العصر أثبتهما وكان إذا صلى صلاة أثبتها
   سنن أبي داود1279عائشة بنت عبد اللهما من يوم يأتي على النبي إلا صلى بعد العصر ركعتين
   سنن النسائى الصغرى576عائشة بنت عبد اللهما دخل علي رسول الله بعد العصر إلا صلاهما
   سنن النسائى الصغرى575عائشة بنت عبد اللهما ترك رسول الله السجدتين بعد العصر عندي قط
   سنن النسائى الصغرى577عائشة بنت عبد اللهإذا كان عندي بعد العصر صلاهما
   سنن النسائى الصغرى579عائشة بنت عبد اللهيصليهما قبل العصر ثم إنه شغل عنهما أو نسيهما فصلاهما بعد العصر إذا صلى صلاة أثبتها
   مسندالحميدي194عائشة بنت عبد اللهما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين بعد العصر عندي قط

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 590  
´عصر کے بعد قضاء نمازیں یا اس کے مانند مثلاً جنازہ کی نماز وغیرہ پڑھنا`
«. . . أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " وَالَّذِي ذَهَبَ بِهِ مَا تَرَكَهُمَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ، وَمَا لَقِيَ اللَّهَ تَعَالَى حَتَّى ثَقُلَ عَنِ الصَّلَاةِ، وَكَانَ يُصَلِّي كَثِيرًا مِنْ صَلَاتِهِ قَاعِدًا تَعْنِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهِمَا، وَلَا يُصَلِّيهِمَا فِي الْمَسْجِدِ مَخَافَةَ أَنْ يُثَقِّلَ عَلَى أُمَّتِهِ، وَكَانَ يُحِبُّ مَا يُخَفِّفُ عَنْهُمْ " . . . .»
. . . انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، آپ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے یہاں بلا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد کی دو رکعات کو کبھی ترک نہیں فرمایا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ پاک سے جا ملے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے پہلے نماز پڑھنے میں بڑی دشواری پیش آتی تھی۔ پھر اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پوری پابندی کے ساتھ پڑھتے تھے لیکن اس خوف سے کہ کہیں (صحابہ بھی پڑھنے لگیں اور اس طرح) امت کو گراں باری ہو، انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کا ہلکا رکھنا پسند تھا۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ مَا يُصَلَّى بَعْدَ الْعَصْرِ مِنَ الْفَوَائِتِ وَنَحْوِهَا:: 590]

تشریح:
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں داخل تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 590   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 590  
590. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: قسم ہے اس (اللہ) کی جو رسول اللہ ﷺ کو دنیا سے لے گیا! آپ نے عصر کے بعد دو رکعت کبھی ترک نہیں فرمائیں تا آنکہ آپ اللہ سے جا ملے اور جب اللہ سے ملے تو اس وقت بوجہ ضعف آپ نماز سے تھک جاتے تھے اور آپ اکثر نماز کی ادائیگی بیٹھ کر فرماتے تھے، یعنی عصر کے بعد کی دو رکعتیں۔ اور آپ عصر کے بعد دو رکعات ہمیشہ پڑھا کرتے تھے، لیکن انہیں مسجد میں نہیں پڑھتےتھے اس ڈر سے کہ کہیں آپ کی امت پر گراں نہ گزرے، کیونکہ آپ کو اپنی امت کے حق میں تخفیف پسند تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:590]
حدیث حاشیہ:
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ نماز آپ ﷺ کی خصوصیات میں داخل تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 590   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 575  
´عصر کے بعد نماز کی اجازت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد کی دو رکعت کبھی بھی نہیں چھوڑیں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 575]
575 ۔ اردو حاشیہ: اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ کہا گیا ہے لیکن یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ بعض صحابہ اور تابعین نے بھی یہ رکعتیں پڑھی ہیں، جیسے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے متعلق ملتا ہے کہ یہ بھی عصر کے بعد دورکعت پڑھا کرتے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 575   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 579  
´عصر کے بعد نماز کی اجازت کا بیان۔`
ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان دونوں رکعتوں کے متعلق سوال کیا جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد پڑھتے تھے، تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں عصر سے پہلے پڑھا کرتے تھے پھر آپ کسی کام میں مشغول ہو گئے یا بھول گئے تو انہیں عصر کے بعد ادا کیا، اور آپ جب کوئی نماز شروع کرتے تو اسے برقرار رکھتے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 579]
579 ۔ اردو حاشیہ: عصر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو رکعت پرھنے کی یہ توجیہ ہے کہ ایک دن آپ کی ظہر کے بعد والی سنتیں مصروفیت کی وجہ سے رہ گئیں، وہ ادا فرمائی تھیں اور بعد ازاں اپنی عادت طیبہ کے مطابق اس پر دوام فرمایا۔ یہ حدیث بھی ان حضرات کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ ممنوعہ اوقات میں کوئی بھی سببی نماز پڑھی جا سکتی ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتوں کی عصر کے بعد قضا ادا کی۔ اور مسند احمد کی روایت کے آخر میں جو یہ اضافہ منقول ہے: «افنقضیھما اذا فاتتا؟ قال: (لا)» کیا ہم بھی ان کی قضا ادا کر لیا کریں جب یہ دو رکعتیں رہ جایا کریں تو فرمایا: نہیں۔ سنداً ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ دیکھیے: [الموسوعة الحدیثیة، مسندالإمام أحمد: 44؍277]
لہٰذا رہ جانے والی نماز، عصر کے بعد ادا کی جا سکتی ہے۔ یہ صرف آپ ہی کی خصوصیت نہیں ہے کیونکہ مذکورہ الفاظ ضعیف ہیں، مزید برآں یہ کہ جب تک سورج روشن اور چمک دار ہو تو مطلقاً نوافل بھی پڑھے جاسکتے ہیں جیسا کہ پیچھے تفصیل گزر چکی ہے۔ واللہ اعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 579   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1279  
´ان لوگوں کی دلیل جنہوں نے سورج بلند ہو تو عصر کے بعد دو رکعت سنت پڑھنے کی اجازت دی ہے۔`
اسود اور مسروق کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد دو رکعت نہ پڑھتے رہے ہوں ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1279]
1279۔ اردو حاشیہ:
یہ ہمیشگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی اور ان رکعتوں کی اصل ابتداء ظہر کی سنتیں قضا پڑھنے سے ہوئی تھی۔ دیکھیے حدیث سنن ابي داود: [1273]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1279   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:590  
590. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: قسم ہے اس (اللہ) کی جو رسول اللہ ﷺ کو دنیا سے لے گیا! آپ نے عصر کے بعد دو رکعت کبھی ترک نہیں فرمائیں تا آنکہ آپ اللہ سے جا ملے اور جب اللہ سے ملے تو اس وقت بوجہ ضعف آپ نماز سے تھک جاتے تھے اور آپ اکثر نماز کی ادائیگی بیٹھ کر فرماتے تھے، یعنی عصر کے بعد کی دو رکعتیں۔ اور آپ عصر کے بعد دو رکعات ہمیشہ پڑھا کرتے تھے، لیکن انہیں مسجد میں نہیں پڑھتےتھے اس ڈر سے کہ کہیں آپ کی امت پر گراں نہ گزرے، کیونکہ آپ کو اپنی امت کے حق میں تخفیف پسند تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:590]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ عصر کے بعد دورکعات ہمیشہ پڑھا کرتے تھے۔
جبکہ متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ انھیں ادا کیا تھا لیکن ایک مرتبہ پڑھنے والی روایات ضعیف ہیں اور ہمیشہ پڑھنے والی روایات قوی ہیں، اس لیے ان کو ترجیح ہوگی۔
آپ کے اس عمل کے بارے میں متعدد توجیہات کی گئی ہیں، مثلاً:
یہ آپ کاخاصہ تھا، بیان جواز کے لیے تھا، آپ ایک مرتبہ جو عمل کرلیتے، اس پر دوام فرماتے تھے، وغیرہ وغیرہ، نیز ہمیشہ پڑھنے کا مطلب یہ نہیں کہ جب سے نماز فرض ہوئی تھی آپ ان رکعات کی ادائیگی کا اہتمام کرتے تھے، بلکہ واقعۂ وفد عبدالقیس کے بعد ان کے ادا کرنے پر دوام فرمایا۔
والله أعلم. (2)
رسول اللہ ﷺ کے افعال کی دو اقسام ہیں:
ایک وہ ہیں جنھیں آپ نے بطور اسوہ اور نمونہ ادا فرمایا ہے، وہ شریعت کا حصہ ہیں اور امت کےلیے ایسے افعال کی پیروی کرنا ضروری ہے۔
دوسری قسم ان افعال کی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت پر محمول ہیں، وہ امت کےلیے نمونہ یا اسوہ نہیں۔
عصر کے بعد دورکعت پڑھنا اور پھر اس پردوام بھی خصوصیت کی قبیل سےہے، جیسا کہ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے، چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ انھیں عصر سے پہلے (ظہرکے بعد)
پڑھا کرتے تھے، پھر کسی مصروفیت یا بھولنے کی وجہ سے انھیں نہ پڑھ سکے تو عصر کے بعد ادا فرمایا، پھر اس کو برقرار رکھا۔
اور آپ جب کسی نماز کو شروع کرلیتے تو اس پر دوام فرماتے۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1934(835)
حضرت عائشہ ؓ ہی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ انھیں عصر کے بعد خود ادا فرماتے لیکن آپ دوسروں کو منع فرماتے تھے۔
(سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1280)
حضرت ام سلمہ ؒ کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے میرے گھر عصر کے بعد دو رکعت ادا کیں تو میں نے عرض کیا:
اللہ کے رسول!آپ نے پہلے تو کبھی انھیں ادا کرنے کا اہتمام نہیں کیا تھا؟ آپ نے فرمایا:
میرے پاس کچھ مال آگیا تھا، میں اس کی تقسیم میں ایسا مصروف ہوا کہ ظہر کے بعد دو رکعت نہ پڑھ سکا، وہ میں نے اب پڑھی ہیں۔
میں نے عرض کیا:
اللہ کے رسول!اگر ہم کسی وجہ سے ان دو رکعات کو نہ پڑھ سکیں تو بعد میں پڑھ سکتے ہیں؟آپ نے فرمایا:
نہیں۔
(مسند أحمد: 315/6)
ان روایات کا مدعا یہ ہے کہ ظہر کی دو سنت عصر کے بعد ادا کرنا، پھر اس پر مداومت فرمانا رسول اللہ ﷺ کا خاصہ ہے اور یہ امت کے لیے اسوہ یا نمونہ نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 590   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.