الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan
14. بَابُ كَمْ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ وَمَنْ يَنْتَظِرُ الإِقَامَةَ:
14. باب: اس بیان میں کہ اذان اور تکبیر کے درمیان کتنا فاصلہ ہونا چاہیے؟
(14) Chapter. How long should the interval between the Adhan and the Iqama be? (And something concerning) the person who waits for the Iqama.
حدیث نمبر: 625
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن بشار، قال: حدثنا غندر، قال: حدثنا شعبة، قال: سمعت عمرو بن عامر الانصاري، عن انس بن مالك، قال:" كان المؤذن إذا اذن قام ناس من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يبتدرون السواري حتى يخرج النبي صلى الله عليه وسلم، وهم كذلك يصلون الركعتين قبل المغرب، ولم يكن بين الاذان والإقامة شيء"، قال عثمان بن جبلة: وابو داود، عن شعبة، لم يكن بينهما إلا قليل.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ عَامِرٍ الْأَنْصَارِيَّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" كَانَ الْمُؤَذِّنُ إِذَا أَذَّنَ قَامَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْتَدِرُونَ السَّوَارِيَ حَتَّى يَخْرُجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُمْ كَذَلِكَ يُصَلُّونَ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ، وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ شَيْءٌ"، قَالَ عُثْمَانُ بْنُ جَبَلَةَ: وَأَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، لَمْ يَكُنْ بَيْنَهُمَا إِلَّا قَلِيلٌ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر غندر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عمرو بن عامر انصاری سے سنا، وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ آپ نے فرمایا کہ (عہدرسالت میں) جب مؤذن اذان دیتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ستونوں کی طرف لپکتے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ سے باہر تشریف لاتے تو لوگ اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے ملتے۔ یہ جماعت مغرب سے پہلے کی دو رکعتیں تھیں۔ اور (مغرب میں) اذان اور تکبیر میں کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا تھا۔ اور عثمان بن جبلہ اور ابوداؤد طیالسی نے شعبہ سے اس (حدیث میں یوں نقل کیا ہے کہ) اذان اور تکبیر میں بہت تھوڑا سا فاصلہ ہوتا تھا۔

Narrated Anas bin Malik: "When the Mu'adh-dhin pronounced the Adhan, some of the companions of the Prophet would proceed to the pillars of the mosque (for the prayer) till the Prophet arrived and in this way they used to pray two rak`at before the Maghrib prayer. There used to be a little time between the Adhan and the Iqama." Shu`ba said, "There used to be a very short interval between the two (Adhan and Iqama).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 598


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 625  
625. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب مؤذن اذان کہتا تھا تو نبی ﷺ کے صحابہ کرام میں سے کچھ حضرات کھڑے ہوتے اورستونوں کے پاس جانے میں جلدی کرتے تھے یہاں تک کہ جب رسول اللہ ﷺ تشریف لاتے تو بھی اسی طرح مغرب سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ رہے ہوتے تھے، نیز اذان اور تکبیر کے درمیان کچھ زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا تھا۔ عثمان بن جبلہ اور ابوداود حضرت شعبہ سے بیان کرتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان بہت کم فاصلہ ہوتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:625]
حدیث حاشیہ:
مغرب کی جماعت سے قبل دورکعت سنت پڑھنے کا صحابہ کرام میں عام معمول تھا۔
حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد باب یہ ہے کہ اذان اورتکبیر کے درمیان کم از کم اتنا فاصلہ توہونا ہی چاہیے کہ دو رکعت نماز نفل پڑھی جاسکیں۔
حتیٰ کہ مغرب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
بعض فضلائے دیوبند نے لکھا ہے کہ بعد میں ان رکعتوں کے پڑھنے سے روک دیا گیا تھا۔
مگر یہ وضاحت نہیں کی کہ روکنے والے کون صاحب تھے۔
شاید آنحضرت ﷺ سے ممانعت کے لیے کوئی حدیث ان کے علم میں ہو۔
مگرہماری نظر سے وہ حدیث نہیں گزری۔
یہ لکھنے کے باوجود ان ہی حضرات نے ان رکعتوں کو مباح بھی قرار دیا ہے۔
(دیکھو تفہیم البخاری، پ3، ص:
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 625   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:625  
625. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب مؤذن اذان کہتا تھا تو نبی ﷺ کے صحابہ کرام میں سے کچھ حضرات کھڑے ہوتے اورستونوں کے پاس جانے میں جلدی کرتے تھے یہاں تک کہ جب رسول اللہ ﷺ تشریف لاتے تو بھی اسی طرح مغرب سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ رہے ہوتے تھے، نیز اذان اور تکبیر کے درمیان کچھ زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا تھا۔ عثمان بن جبلہ اور ابوداود حضرت شعبہ سے بیان کرتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان بہت کم فاصلہ ہوتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:625]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اذان اور تکبیر کے درمیان کم از کم اتنا فاصلہ تو ضرور ہونا چاہیے کہ دورکعت پڑھی جاسکیں، چنانچہ اس حدیث میں وضاحت ہےکہ رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مغرب کی اذان کے وقت مسجد کے ستونوں کا رخ کرتے تاکہ انھیں سترہ بنا کر جماعت سے پہلے پہلے دو نفل پڑھ سکیں، پھر جب رسول اللہ ﷺ گھر سے مسجد میں تشریف لاتے تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ابھی نماز میں مشغول ہوتے تھے، چنانچہ ایک اور حدیث میں ہے، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ہم غروب آفتاب کے بعد دورکعت ادا کرتے جبکہ رسول اللہ ﷺ ہمیں دیکھ رہے ہوتے۔
آپ نہ تو ہمیں اس کا حکم دیتے اور نہ منع ہی فرماتے۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1938(836)
رسول اللہ ﷺ سے اذان کے بعد اور جماعت سے پہلے دورکعت پڑھنے کا حکم بھی بعض روایات میں ہے۔
آپ نے فرمایا:
مغرب سے پہلے نماز پڑھو، مغرب سے پہلے نماز پڑھو۔
پھر تیسری مرتبہ فرمایا:
یہ حکم صرف اس شخص کےلیے ہےجو پڑھنا چاہے۔
آپ نے یہ بات اس اندیشے کے پیش نظر فرمائی کہ کہیں لوگ اسے سنت لازمہ نہ بنالیں۔
(صحیح البخاري، الجمعة، حدیث: 1183)
خود رسول اللہ ﷺ سے بھی ان دورکعتوں کا پڑھنا ثابت ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مغرب سے پہلے دو رکعت ادا فرمائیں۔
(صحیح ابن حبان (الإحسان)
، حدیث: 1586)

خود رسول اللہ ﷺ نے مغرب سے پہلے دو رکعت ادا فرمائیں۔
ان الفاظ کو شیخ البانی نے شاذ قرار دیا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے:
(الضعیفة، رقم الحدیث: 5662)
الغرض امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ اذان اور تکبیر کے درمیان کچھ فاصلہ ضرور ہونا چاہیے۔
وہ فاصلہ کم از کم اتنا ضرور ہو کہ دورکعت پڑھی جاسکیں۔
جب مغرب کی نماز سے پہلے دورکعت پڑھنے کا وقت دیا جاتا تھا، حالانکہ نماز مغرب کا وقت محدود ہے تو دوسری نماز وں کےلیے تو بالاولیٰ اتنا فاصلہ ثابت ہوگا۔
(2)
حدیث کے آخر میں (لَمْ يَكُنْ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ شَيْءٌ)
اس کا مفہوم یہ نہیں کہ اذان اور اقامت کے درمیان کچھ فاصلہ نہ ہوتا تھا بلکہ شئي پر تنوین، تعظیم کےلیے ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ان دونوں کے درمیان کچھ زیادہ فاصلہ نہ ہوتا تھا۔
اس کی وضاحت امام بخاری ؒ نے عثمان بن جبلہ اور ابو داود کی روایت سے کی ہے کہ ان دونوں کے درمیان بہت کم فاصلہ ہوتا تھا، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ روایت میں نفئ مطلق مجازی طور پر مبالغے کے لیے ہے اور دوسری روایت میں جو قلت وقت کو ثابت کیا گیا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔
(فتح الباري: 142/2)
واضح رہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان قلت وقت کا فاصلہ صرف نماز مغرب سے متعلق ہے کیونکہ اس کاوقت کچھ محدود ہوتا ہے، دوسری نمازوں کےلیے اس سے زیادہ وقت بھی رکھا جاسکتا ہے، لیکن مغرب سے پہلے بھی اتنا وقت ضرور ہونا چاہیے کہ کم از کم دو رکعت پڑھی جاسکیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 625   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.