الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan
19. بَابُ هَلْ يَتَتَبَّعُ الْمُؤَذِّنُ فَاهُ هَاهُنَا وَهَا هُنَا، وَهَلْ يَلْتَفِتُ فِي الأَذَانِ:
19. باب: کیا مؤذن اذان میں اپنا منہ ادھر ادھر (دائیں بائیں) پھرائے اور کیا اذان کہتے وقت ادھر ادھر دیکھ سکتا ہے؟
(19) Chapter. Should the Muadh-dhin turn his mouth (face) and look from side to side during the Adhan?
حدیث نمبر: Q634
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
ويذكر عن بلال، انه جعل إصبعيه في اذنيه، وكان ابن عمر لا يجعل إصبعيه في اذنيه، وقال إبراهيم: لا باس ان يؤذن على غير وضوء، وقال عطاء: الوضوء حق وسنة، وقالت عائشة: كان النبي صلى الله عليه وسلم يذكر الله على كل احيانه.وَيُذْكَرُ عَنْ بِلَالٍ، أَنَّهُ جَعَلَ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا يَجْعَلُ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ، وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: لَا بَأْسَ أَنْ يُؤَذِّنَ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ، وَقَالَ عَطَاءٌ: الْوُضُوءُ حَقٌّ وَسُنَّةٌ، وَقَالَتْ عَائِشَةُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ اللَّهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ.
‏‏‏‏ اور بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اذان میں اپنی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں داخل کیں۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اذان میں کانوں میں انگلیاں نہیں ڈالتے تھے۔ اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ بےوضو اذان دینے میں کوئی برائی نہیں اور عطاء نے کہا کہ اذان میں وضو ضروری اور سنت ہے۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب وقتوں میں اللہ کو یاد فرمایا کرتے تھے۔

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 73  
´وضو توڑنے والی چیزوں کا بیان`
«. . . وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى عليه وسلم يذكر الله على كل أحيانه. رواه مسلم،‏‏‏‏ وعلقه البخاري. . . .»
. . . ´سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے۔
اسے مسلم نے روایت کیا اور بخاری نے اس کو تعلیقاً نقل کیا ہے۔ . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/باب نواقض الوضوء: 73]

فوائد و مسائل:
➊ اس کا مطلب یہ ہے کہ جماع اور بول و براز وغیرہ کی حالت میں ذکر سے اجتناب کرنا ہے باقی اوقات میں ذکر کی اجازت ہے۔
➋ احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جنابت کی حالت کے علاوہ قرآن پڑھا کرتے تھے۔ چونکہ زبان پاک ہے اس لیے زبانی ذکر الہی ہر وقت کیا جا سکتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 73   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 73  
´وضو توڑنے والی چیزوں کا بیان`
«. . . وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى عليه وسلم يذكر الله على كل أحيانه. رواه مسلم،‏‏‏‏ وعلقه البخاري. . . .»
. . . ´سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے۔
اسے مسلم نے روایت کیا اور بخاری نے اس کو تعلیقاً نقل کیا ہے۔ . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/باب نواقض الوضوء: 73]

فوائد و مسائل:
➊ اس کا مطلب یہ ہے کہ جماع اور بول و براز وغیرہ کی حالت میں ذکر سے اجتناب کرنا ہے باقی اوقات میں ذکر کی اجازت ہے۔
➋ احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جنابت کی حالت کے علاوہ قرآن پڑھا کرتے تھے۔ چونکہ زبان پاک ہے اس لیے زبانی ذکر الہی ہر وقت کیا جا سکتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 73   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 18  
´آدمی بغیر طہارت و پاکی کے بھی ذکر الٰہی کر سکتا ہے`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ . . .»
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عزوجل کا ذکر ہر وقت کیا کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 18]
فوائد و مسائل:
کسی بھی مسلمان کو مرد ہو یا عورت کسی حال میں بھی اللہ کے ذکر سے غافل نہیں رہنا چاہئیے (سوائے بیت الخلاء وغیرہ کے) باوضو ہو یا بےوضو، طاہر ہو یا جنبی۔ قرآن مجید بھی اللہ کا ذکر ہے مگر حالت جنابت میں ناجائز ہے۔ خواتین کو بھی ایام مخصوصہ میں عام ذکر اذکار کی پابندی کرنی چاہیے۔ مگر ان کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کے مسئلہ میں اختلاف ہے۔ امام مالک، طبری، ابن المنذر، داؤد اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہم کا میلان مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں یہ ہے کہ مباح اور جائز ہے۔ بالخصوص ایسی خواتین جو قرآن مجید کی حافظہ ہوں یا علوم شرعیہ کے درس و تدریس سے متعلق ہوں ان کے لیے یہ تعطل انتہائی حارج ہوتا ہے۔ جبکہ جنابت کا حدث بہت مختصر وقت کے لیے ہوتا ہے۔ اگرچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ جنبی کے لیے بھی تلاوت میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [صحيح البخاري وفتح الباري، كتاب الحيض، باب تقضي الحائض المناسك كلها....]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 18   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث302  
´پاخانہ میں اللہ کا ذکر کرنے اور اس میں انگوٹھی پہن کر جانے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا ذکر ہر وقت کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 302]
اردو حاشہ:
(1)
تمام اوقات سے مراد یہ ہے کہ خواہ باوضو ہو یا نہ ہوں اللہ کا ذکر فرماتے تھے۔
یعنی زبانی ذکر کے لیے طہارت کا وہ اہتمام ضروری نہیں جو نماز وغیرہ کے لیے ضروری ہے۔
تمام اوقات کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح نماز کے لیے بعض اوقات مکروہ ہیں اللہ کے ذکر کے لیے اس طرح کوئی وقت مکروہ نہیں۔

(2)
بعض علماء نے اس سے استدلال کیا ہے کہ تلاوت قرآن مجید کے لیے جس طرح حدث اصغر سے پاک ہونا یعنی باوضو ہونا ضروری نہیں۔
اسی طرح حدث اکبر یعنی جنابت سے پاک ہونا بھی شرط نہیں۔
کیونکہ قرآن مجید بھی ذکر ہے۔
لیکن اولاً تو اللہ کے ذکر کا متبادر مفہوم سُبْحَانَ اللهِ، اَلحَمدُلِلهِ وغیرہ جیسے اذکار ہیں جن کے زبان سے ادا کرنے کو تلاوت قرآن نہیں سمجھاجاتا۔
ثانیاً حالت جنابت میں تلاوت ممنوع ہونے کی متعدد احادیث مروی ہیں۔
جو اگرچہ الگ الگ ضعیف ہیں لیکن علماء کے ایک گروہ کے نزدیک باہم مل کر وہ قابل استدلال ہوجاتی ہیں کیونکہ ان کا ضعف شدید نہیں اس لیے ان کے نزدیک احتیاط اس میں ہے کہ جنابت کی حالت میں تلاوت سے حتی الامکان اجتناب کیا جائے الا یہ کہ کوئی ناگزیر صورت پیش آجائے۔
لیکن علماء کا ایک دوسرا گروہ جس میں امام بخاری ؒ امام ابن تیمیہ ؒ اور امام ابن حزم ؒ  جیسے حضرات بھی شامل ہیں کہتا ہے کہ ممانعت کی تمام احادیث ضعیف ہیں، اس لیے جنبی اور حائضہ بھی قرآن مجید کی تلاوت کرسکتے ہیں۔
واللہ أعلم
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 302   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3384  
´مسلمان کی دعا کے مقبول ہونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اللہ کو یاد کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3384]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سبھی اوقات سے یہ اوقات مستثنیٰ ہیں مثلاً:
پاخانہ،
پیشاب کی حالت اور جماع کی حالت،
کیوں کہ ان حالات میں ذکر الٰہی نہ کرنا،
اسی طرح ان حالتوں میں موذن کے کلمات کا جواب نہ دینا اور چھینک آنے پر (اَلحَمدُ لِلّٰه) نہ کہنا اور سلام کا جواب نہ دینا بہتر ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3384   

حدیث نمبر: 634
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا محمد بن يوسف، قال: حدثنا سفيان، عن عون بن ابي جحيفة، عن ابيه،" انه راى بلالا يؤذن، فجعلت اتتبع فاه ههنا وههنا بالاذان".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ،" أَنَّهُ رَأَى بِلَالًا يُؤَذِّنُ، فَجَعَلْتُ أَتَتَبَّعُ فَاهُ هَهُنَا وَهَهُنَا بِالْأَذَانِ".
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے عون بن ابی حجیفہ سے بیان کیا، انہوں نے اپنے باپ سے کہ انھوں نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دیتے ہوئے دیکھا۔ وہ کہتے ہیں میں بھی ان کے منہ کے ساتھ ادھر ادھر منہ پھیرنے لگا۔

Narrated `Aun bin Abi Juhaifa: My father said, "I saw Bilal turning his face from side to side while pronouncing the Adhan for the prayer."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 607

   صحيح البخاري376وهب بن عبد اللهرأيت رسول الله في قبة حمراء من أدم رأيت بلالا أخذ وضوء رسول الله ورأيت الناس يبتدرون ذاك الوضوء فمن أصاب منه شيئا تمسح به ومن لم يصب منه شيئا أخذ من بلل يد صاحبه رأيت بلالا أخذ عنزة فركزها وخرج النبي صلى الله عليه
   صحيح البخاري634وهب بن عبد اللهرأى بلالا يؤذن فجعلت أتتبع فاه ها هنا وها هنا بالأذان
   صحيح البخاري5859وهب بن عبد اللهأتيت النبي في قبة حمراء من أدم رأيت بلالا أخذ وضوء النبي والناس يبتدرون الوضوء فمن أصاب منه شيئا تمسح به ومن لم يصب منه شيئا أخذ من بلل يد صاحبه
   صحيح مسلم1120وهب بن عبد اللهرأى رسول الله في قبة حمراء من أدم رأيت بلالا أخرج وضوءا فرأيت الناس يبتدرون ذلك الوضوء فمن أصاب منه شيئا تمسح به ومن لم يصب منه أخذ من بلل يد صاحبه رأيت بلالا أخرج عنزة فركزها وخرج رسول الله في حلة حمراء مشمرا فصل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 634  
´ کیا مؤذن اذان میں اپنا منہ ادھر ادھر (دائیں بائیں) پھرائے`
«. . . عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ،" أَنَّهُ رَأَى بِلَالًا يُؤَذِّنُ، فَجَعَلْتُ أَتَتَبَّعُ فَاهُ هَهُنَا وَهَهُنَا بِالْأَذَانِ . . .»
. . . عون بن ابی حجیفہ سے بیان کیا، انہوں نے اپنے باپ سے کہ انھوں نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دیتے ہوئے دیکھا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 634]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں اذان کے وقت اِدھر اُدھر منہ کرنے کو پیش فرمایا ہے یہاں مناسبت یہ معلوم ہوتی ہے کہ نماز کے لئے وضو شرط ہے اور بندہ نماز میں التفات اِدھر اُدھر اپنے منہ نہیں کر سکتا اس لئے کہ نماز میں قبلہ رو ہونا شرط ہے، لہٰذا جب اذان میں اِدھر اُدھر بندہ اپنا منہ کر سکتا ہے تو معلوم ہوا کہ اس کے لئے وضو شرط نہیں ہے جیسا کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل نقل کیا کہ آپ علیہ السلام ہر حالت میں ذکر فرماتے تھے تو معلوم ہوا کہ ہر حالت میں ذکر کرنے کے لئے وضو شرط نہیں اور اذان دینا بھی ایک ذکر ہے اور اس پر بھی وضو شرط نہیں ہے۔
◈ ابوجحیفہ سے جو اثر منقول ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ اذان میں اِدھر اُدھر منہ کیا کرتے تھے یہ بھی اسی مسئلہ پر دال ہے۔ «والله اعلم»
◈ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «غرضه اثبات ان الأذان غير ملحق بالصلاة فى الاحكام ولا يشترط فيه الاستقبال، وبهذا يتحقق المناسبة بين الترجمة والاثار الواردة فيه» [شرح تراجم ابواب البخاري، ص202]
امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ آپ ثابت کر رہے ہیں کہ اذان نماز کے ساتھ ملحق نہیں ہے اور نہ ہی اس میں (بیت اللہ کی طرف منہ کرنا) استقبال کی کوئی شرط ہے۔
لہٰذا یہی مناسبت ہے ترجمۃ الباب کی ان آثار کے ساتھ جو وارد ہوئے ہیں۔
◈ امام عبدالله بن سالم البصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لأن الأذان من جملة الاذكار فلا يشترط فيه ما يشترط فى الصلاة من الطهارة ولا من استقبال القبلة كما لا يستحب فيه الخشوع الذى ينافيه الالتفات» [ضياء الباري فى مالك ابواب البخاري، ج7، ص74]
اذان دراصل اذکار میں سے ہے اس (کی ادائیگی کے لئے) وہ شرائط نہیں ہیں جو نماز کی ہیں۔ جیسے کہ طہارت کا ہونا، قبلہ رو ہونا اور اس میں خشوع کا ہونا بھی مستحب نہیں ہے جو التفات کے منافی ہو (یعنی اذان میں التفات کر سکتے ہیں)۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب میں یہ مقصود ہے کہ مؤذن دائیں اور بائیں طرف التفات کر سکتا ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ میں (اذان دیتے ہوئے) اپنے منہ کو ادھر ادھر یعنی دائیں اور بائیں پھیرتا «حي على الصلاة» اور «حي على الفلاح» پر۔
ان تصریحات کا حاصل یہ ہے کہ اذان میں جب التفات ہو سکتا ہے تو اس کا حکم نماز کا نہیں ہے کیونکہ نماز میں خشوع اور خضوع کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ بس جب اذان کا حکم نماز جیسا نہیں تو اس کے لئے طہارت بھی شرط نہیں۔ یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 182   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 634  
634. حضرت ابوجحیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے حضرت بلال ؓ کو اذان کہتے ہوئے دیکھا۔ (وہ کہتے ہیں:) میں بھی اذان دیتے وقت ان کے چہرے کی اتباع کرتے ہوئے اذان میں اپنے چہرے کو اِدھر اُدھر پھیرتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:634]
حدیث حاشیہ:
اس باب کے ذیل میں حضرت الامام ؒ نے کئی ایک مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔
مثلاً مؤذن کو حي علی الصلوٰة، حي علی الفلاح کے وقت دائیں بائیں منہ پھیرنا درست ہے نیز کانوں میں انگلیاں داخل کرنا بھی جائز ہے تاکہ آواز میں بلندی پیدا ہو۔
کوئی کانوں میں انگلیاں نہ ڈالیں توبھی کوئی حرج نہیں۔
وضو کر کے اذان کہنا بہتر ہے مگراس کے لیے وضو شرط نہیں ہے جن لوگوں نے وضو ضروری قرار دیا ہے، انھوں نے فضیلت کا پہلواختیار کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 634   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:634  
634. حضرت ابوجحیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے حضرت بلال ؓ کو اذان کہتے ہوئے دیکھا۔ (وہ کہتے ہیں:) میں بھی اذان دیتے وقت ان کے چہرے کی اتباع کرتے ہوئے اذان میں اپنے چہرے کو اِدھر اُدھر پھیرتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:634]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اذان دیتے ہوئے چہرے کو دائیں بائیں کیا جاسکتا ہے، نماز کی طرح قبلے کی طرف منہ کیے رکھنا ضروری نہیں۔
ایک روایت میں اس وقت کی تعیین بیان ہوئی ہے جب مؤذن اپنے چہرے کو دائیں بائیں پھیرے، یعنی حي على الصلاة اور حي على الفلاح کے موقع پر اپنا چہرہ دائیں بائیں پھیرنا چاہیے۔
امام ابن خزیمہ ؒ نے اس روایت پر جو عنوان قائم کیا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ پورے بدن کو پھیرنے کے بجائے صرف اپنے چہرے کو پھیرنا چاہیے۔
مصنف عبدالرزاق کی روایت میں دو اضافے ہیں:
ایک پورے بدن کو پھیرنا اور دوسرا اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالنا۔
ترمذی کی روایت سے بھی پتہ چلتا ہےکہ دائیں بائیں چہرہ پھیرنے کے بجائے پورے جسم سے گھومتے تھے لیکن بعض روایات میں گھومنے کی نفی بھی آئی ہے۔
ان کے درمیان بایں طور تطبیق دی گئی ہے کہ جن روایات میں گھومنے کا اثبات ہے اس سے مراد صرف چہرے کا پھیرنا ہے اور جن روایات میں گھومنے کی نفی ہے اس سے مراد پورے جسم کا پھیرنا ہے۔
(فتح الباري: 151/2)
بہرحال امام بخاری ؒ نے عنوان میں لفظ هل لا کر اشارہ کیا ہے کہ ان مسائل میں متقدمین کے ہاں اختلاف ہے، پھر آثار و احادیث سے اپنے رجحان کو واضح کیا ہے۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 634   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.