الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: فرائض یعنی ترکہ کے حصوں کے بیان میں
The Book of Al-Farad (The Laws of Inheritance)
7. بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ:
7. باب: پوتے کی میراث (کتنی ہے) جب بیٹا نہ ہو۔
(7) Chapter. The inheritance of one’s grandchild if one has no child.
حدیث نمبر: Q6735
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال زيد ولد الابناء بمنزلة الولد إذا لم يكن دونهم ولد ذكرهم كذكرهم وانثاهم كانثاهم يرثون كما يرثون ويحجبون كما يحجبون ولا يرث ولد الابن مع الابنوَقَالَ زَيْدٌ وَلَدُ الْأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ وَلَا يَرِثُ وَلَدُ الِابْنِ مَعَ الِابْنِ
زید بن ثابت نے کہا کہ بیٹوں کی اولاد بیٹوں کے درجہ میں ہے۔ اگر مرنے والے کا کوئی بیٹا نہ ہو۔ ایسی صورت میں پوتے بیٹوں کی طرح اور پوتیاں بیٹیوں کی طرح ہوں گی۔ انہیں اسی طرح وراثت ملے گی جس طرح بیٹوں اور بیٹیوں کو ملتی ہے اور ان کی وجہ سے بہت سے عزیز و اقارب اسی طرح وراثت کے حق سے محروم ہو جائیں گے جس طرح بیٹوں اور بیٹیوں کی موجودگی میں محروم ہو جاتے ہیں، البتہ اگر بیٹا موجود ہو تو پوتا وراثت میں کچھ نہیں پائے گا۔

حدیث نمبر: 6735
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا وهيب، حدثنا ابن طاوس، عن ابيه، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الحقوا الفرائض باهلها فما بقي، فهو لاولى رجل ذكر".حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِيَ، فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ ابن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پہلے میراث ان کے وارثوں تک پہنچا دو اور جو باقی رہ جائے وہ اس کو ملے گا جو مرد میت کا بہت نزدیکی رشتہ دار ہو۔

Narrated Ibn `Abbas: Allah's Apostle said, "Give the Fara'id (shares prescribed in the Qur'an) to those who are entitled to receive it; and whatever remains, should be given to the closest male relative of the deceased.'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 80, Number 727

   صحيح البخاري6746عبد الله بن عباسألحقوا الفرائض بأهلها فما تركت الفرائض فلأولى رجل ذكر
   صحيح البخاري6732عبد الله بن عباسألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فهو لأولى رجل ذكر
   صحيح البخاري6737عبد الله بن عباسألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فلأولى رجل ذكر
   صحيح البخاري6735عبد الله بن عباسألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فهو لأولى رجل ذكر
   صحيح مسلم4142عبد الله بن عباسألحقوا الفرائض بأهلها فما تركت الفرائض فلأولى رجل ذكر
   صحيح مسلم4143عبد الله بن عباساقسموا المال بين أهل الفرائض على كتاب الله فما تركت الفرائض فلأولى رجل ذكر
   صحيح مسلم4141عبد الله بن عباسألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فهو لأولى رجل ذكر
   جامع الترمذي2098عبد الله بن عباسألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فهو لأولى رجل ذكر
   سنن أبي داود2898عبد الله بن عباساقسم المال بين أهل الفرائض على كتاب الله فما تركت الفرائض فلأولى ذكر
   سنن ابن ماجه2740عبد الله بن عباساقسموا المال بين أهل الفرائض على كتاب الله فما تركت الفرائض فلأولى رجل ذكر
   بلوغ المرام805عبد الله بن عباس ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فهو لأولى رجل ذكر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2740  
´عصبہ کی میراث کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مال کو اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق ذوی الفروض (میراث کے حصہ داروں) میں تقسیم کرو، پھر جو ان کے حصوں سے بچ رہے وہ اس مرد کا ہو گا جو میت کا زیادہ قریبی ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2740]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اصحاب الفروض سے مراد وہ وارث ہیں جن کے حصے قرآن مجید اور حدیث شریف میں مقرر کردیے گئے ہیں۔
یہ بارہ افراد ہیں جن میں چار مرد ہیں اور آٹھ عورتیں ہیں۔
ان کی تفصیل حدیث: 2737 کے ذیل میں گزر چکی ہے۔

(2)
  مندرجہ بالا افراد میں سے بعض افراد ایک حالت میں اصحاب الفروض میں شامل ہوتے ہیں اور ایک حالت میں عصبہ بن جاتے ہیں، مثلاً:
ایک بیٹی یا ایک سے زیادہ بیٹیاں اس وقت اصحاب الفروض میں شامل ہیں جب میت کا کوئی بیٹا موجود نہ ہو، اگر بیٹا موجود ہو تو بیٹی یا بیٹیاں عصبہ بن جاتی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2740   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2898  
´عصبہ کی میراث کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذوی الفروض ۱؎ میں مال کتاب اللہ کے مطابق تقسیم کر دو اور جو ان کے حصوں سے بچ رہے وہ اس مرد کو ملے گا جو میت سے سب سے زیادہ قریب ہو ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2898]
فوائد ومسائل:
شریعت نے جن کے حصے مقرر کردیئے ہیں۔
انہیں اصحاب الفروض اور اہل الفرض کہتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2898   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6735  
6735. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مقرر حصے ان کے حق داروں کو دو باقی رہ جائے وہ اس (میت) کے قریبی مذکر رشتے دار کے لیے ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6735]
حدیث حاشیہ:
مثلاً بیٹا ہو تو پوتے کو کچھ نہ ملے گا پوتا ہو تو پڑ پوتے کو کچھ نہ ملے گا۔
اگر کوئی میت خاوند اور باپ اور بیٹی اور پوتا چھوڑ جائے تو خاوند کو چوتھائی باپ کا چھٹا حصہ بیٹی کو آدھا حصہ دے کر مابقی پوتا پوتی میں تقسیم ہوگا۔
﴿للذکرِ مِثلُ حَظِّ الأُنثیینِ﴾ (النساء: 11)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6735   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6735  
6735. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مقرر حصے ان کے حق داروں کو دو باقی رہ جائے وہ اس (میت) کے قریبی مذکر رشتے دار کے لیے ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6735]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے حجب حرمان کا دوسرا اصول معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتے دار کی موجودگی میں دور والا رشتے دار محروم ہو جاتا ہے، مثلاً:
بیٹا ہو تو پوتے کو کچھ نہیں ملتا اور پوتا موجود ہوتو پڑپوتا محروم ہو جاتا ہے۔
(2)
اگر میت، خاوند، باپ، بیٹی، پوتا اور پوتی چھوڑ جائے تو خاوند کو 1/4، باپ کو1/(6)
، بیٹی کو 1/2 دیا جائے گا اور باقی پوتے اور پوتی میں اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ پوتے کو پوتی سے دوگنا ملے گا۔
(3)
یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ:
عصر حاضر میں وراثت کے متعلق جس مسئلے کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے وہ میت کی اپنی حقیقی اولاد کے ہوتے ہوئے یتیم پوتے اور پوتی کی وراثت کا مسئلہ ہے۔
ان کی بے چارگی اور محتاجی کو بنیاد بنا کر اسے بہت اچھالا گیا ہے، حالانکہ اس مسئلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے لے کر بیسویں صدی تک کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا، چنانچہ اس مسئلے میں نہ صرف مشہور فقہی مذاہب، حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ، نیز شیعہ، زیدیہ، امامیہ اور ظاہریہ سب متفق ہیں، بلکہ غیر معروف ائمہ وفقہاء کا بھی اس کے خلاف کوئی قول منقول نہیں کہ دادا کے انتقال پر اگر اس کا بیٹا موجود ہو تو اس کے دوسرے مرحوم بیٹے کی اولاد، یعنی پوتوں کو اس کی جائیداد سے کچھ نہیں ملے گا، البتہ حکومت پاکستان نے 1961ء میں مارشل لاء کا ایک آرڈی نینس (ordinance)
جاری کیا جس کے تحت یہ قانون نافذ کر دیا گیا کہ اگر کوئی شخص مر جائے اور اپنے پیچھے ایسے لڑکے یا لڑکی اولاد چھوڑ جائے جس نے اس کی زندگی میں وفات پائی ہو تو مرحوم یا مرحومہ کی اولاد دیگر بیٹوں کی موجودگی میں اس حصے کو لینے کی حق دار ہوگی جو ان کے باپ یا ماں کو ملنا تھا اگر وہ اس شخص کی وفات کے وقت زندہ ہوتے۔
پاکستان میں اس قانون کے خلاف شریعت ہونے کے متعلق بہت بڑی اکثریت نے دو ٹوک فیصلہ کر دیا تھا کہ یہ قانون امت مسلمہ کے اجتماعی نقطۂ نظر کے خلاف ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے۔
(النساء 4: 11)
اس آیت کریمہ میں لفظ اولاد، ولد کی جمع ہے جو جنے ہوئے کہ معنی میں استعمال ہوا ہے۔
عربی زبان میں لفظ ولد دو طرح سے مستعمل ہے:
٭حقیقی جو بلا واسطہ جنا ہوا ہو، یعنی بیٹا اور بیٹی وغیرہ۔
٭مجازی جو کسی واسطے سے جنا ہوا ہو، یعنی پوتا اور پوتی۔
بیٹیوں کی اولاد، یعنی نواسی اور نواسے اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہی نہیں کیونکہ نسب باپ سے چلتا ہے، اس بنا پر نواسا اور نواسی لفظ ولد میں شامل ہی نہیں کہ انھیں اولاد سمجھ کر حصہ دیا جائے، نیز یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک حقیقی معنی کا وجود ہوگا مجازی معنی مراد لینے جائز نہیں ہیں، یعنی لفظ ولد کے حقیقی معنی بیٹے اور بیٹی کی موجودگی میں پوتا اور پوتی مراد نہیں لیے ج اسکتے، لہٰذا آیت کریمہ کا واضح مطلب یہ ہوا کہ حقیقی بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے اور پوتی کا کوئی حق نہیں ہے، خواہ وہ پوتا پوتی زندہ بیٹے سے ہوں یا مرحوم بیٹے سے۔
اس کے متعلق امام جصاص اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
امت کا اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف کہ حق تعالیٰ کے مذکورہ ارشاد میں صرف اولاد مراد ہے، اور اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ پوتا، حقیقی بیٹے کے ساتھ اس میں شامل نہیں ہے، نیز اس امر میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ اگر حقیقی بیٹا موجود نہ ہو تو اس سے مراد بیٹوں کی اولاد ہے، بیٹیوں کی نہیں، لہٰذا یہ لفظ صلبی اولاد کے لیے ہے اور جب صلبی اولاد نہ ہو تو بیٹے کی اولاد اس میں شامل ہے۔
(احکام القرآن: 96/2) (3)
امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مقررہ حصے لینے والوں کے بعد وہ وارث ہوگا جومیت سے قریب تر ہوگا، چنانچہ بیٹا، درجے کے اعتبار سے پوتے کی نسبت قریب تر ہے، اس لیے پوتے کے مقابلے میں صرف بیٹا وارث ہوگا اور پوتا محروم رہے گا، چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے جس کی تشریح ہم پہلے کر آئے ہیں۔
(4)
واضح رہے کہ شریعت نے وراثت کے سلسلے میں الاقرب فالاقرب كے قانون كو پسند كيا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ہر ایک کے لیے ہم نے اس ترکے کے وارث بنائے ہیں جسے والدین اور قریب تر رشتے دار چھوڑ جائیں۔
(النساء 4: 33)
اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتے دار کی موجودگی میں دور والا رشتے دار محروم ہوگا، لہٰذا بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت سے حصہ نہیں پائے گا۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اسلام نے وراثت کے سلسلے میں رشتے داروں کے فقرواحتیاج اور ان کی بے چارگی کو سرے سے بنیاد ہی نہیں بنایا جیسا کہ یتیم پوتے کے متعلق یہ تأثر دے کر جذباتی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، بلکہ مستقبل میں مالی معاملات کے متعلق ان کی ذمہ داری کو بنیاد قرار دیا ہے۔
اگر اس سلسلے میں کسی کا محتاج اور بے بس ہونا بنیاد ہوتا تو لڑکی کو لڑکے کے مقابلے میں دوگنا حصہ ملنا چاہیے تھا کیونکہ لڑکے کے مقابلے میں لڑکی مال ودولت کی زیادہ ضرورت مند ہے، اور اس کی بے چارگی کے سبب میت کے مال میں اسے زیادہ حق دار قرار دیا جانا چاہیے تھا جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔
اس کا واضح مطلب ہے کہ وراثت میں حاجت مندی عدم کسب معاش یا بے چارگی قطعاً ملحوظ نہیں ہے، البتہ اسلام نے اس جذباتی مسئلے کا حل یوں پیش کیا ہے کہ مرنے والا اپنے یتیم پوتے، پوتیوں اور دیگر غیر وارث حاجت مند رشتہ داروں کے حق میں مرنے سے پہلے اپنے ترکے سے 1/3 حصے کی وصیت کر جائے۔
اگر یتیم پوتے پوتیوں کے موجودگی میں دیگر غیر وارث افراد یا کسی خیراتی ادارے کے لیے وصیت کرتا ہے تو حاکم وقت کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اس وصیت کو ان کے حق میں کالعدم قرار دے کر ضرورت مند یتیم پوتے پوتیوں کے حق میں اسے نافذ قرار دے، ہاں اگر دادا نے اپنی زندگی میں یتیم پوتے پوتیوں کو بذریعۂ ہبہ جائیداد سے کچھ حصہ پہلے ہی دے دیا ہے تو اس صورت میں وصیت کو کالعدم قرار دینے کے بجائے اسے جوں کا توں نافذ کر دیا جائے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6735   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.