الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
The Book of Al-Ahkam (Judgements)
21. بَابُ الشَّهَادَةِ تَكُونُ عِنْدَ الْحَاكِمِ فِي وِلاَيَتِهِ الْقَضَاءِ أَوْ قَبْلَ ذَلِكَ لِلْخَصْمِ:
21. باب: اگر قاضی خود عہدہ قضاء حاصل ہونے کے بعد یا اس سے پہلے ایک امر کا گواہ ہو تو کیا اس کی بنا پر فیصلہ کر سکتا ہے؟
(21) Chapter. If a judge has to witness in favour of a litigant when he is a judge or he had it before he became a judge (can he pass a judgement in his favour accordingly or should he refer the case to another judge before whom he would bear witness?).
حدیث نمبر: Q7170
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال شريح القاضي وساله إنسان الشهادة، فقال: ائت الامير حتى اشهد لك، وقال عكرمة، قال عمر لعبد الرحمن بن عوف: لو رايت رجلا على حد زنا او سرقة وانت امير، فقال: شهادتك شهادة رجل من المسلمين، قال: صدقت، قال عمر: لولا ان يقول الناس زاد عمر في كتاب الله لكتبت آية الرجم بيدي واقر ماعز عند النبي صلى الله عليه وسلم بالزنا اربعا، فامر برجمه ولم يذكر ان النبي صلى الله عليه وسلم اشهد من حضره، وقال حماد إذا اقر مرة عند الحاكم رجم، وقال الحكم اربعاوَقَالَ شُرَيْحٌ الْقَاضِي وَسَأَلَهُ إِنْسَانٌ الشَّهَادَةَ، فَقَالَ: ائْتِ الْأَمِيرَ حَتَّى أَشْهَدَ لَكَ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ، قَالَ عُمَرُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ: لَوْ رَأَيْتَ رَجُلًا عَلَى حَدٍّ زِنًا أَوْ سَرِقَةٍ وَأَنْتَ أَمِيرٌ، فَقَالَ: شَهَادَتُكَ شَهَادَةُ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ عُمَرُ: لَوْلَا أَنْ يَقُولَ النَّاسُ زَادَ عُمَرُ فِي كِتَابِ اللَّهِ لَكَتَبْتُ آيَةَ الرَّجْمِ بِيَدِي وَأَقَرَّ مَاعِزٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالزِّنَا أَرْبَعًا، فَأَمَرَ بِرَجْمِهِ وَلَمْ يُذْكَرْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشْهَدَ مَنْ حَضَرَهُ، وَقَالَ حَمَّادٌ إِذَا أَقَرَّ مَرَّةً عِنْدَ الْحَاكِمِ رُجِمَ، وَقَالَ الْحَكَمُ أَرْبَعًا
‏‏‏‏ اور شریح (مکہ کے قاضی) سے ایک آدمی (نام نامعلوم) نے کہا تم اس مقدمہ میں گواہی دو۔ انہوں نے کہا تو بادشاہ کے پاس جا کر کہنا تو میں وہاں دوں گا۔ اور عکرمہ کہتے ہیں عمر رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اگر تو خود اپنی آنکھ سے کسی کو زنا یا چوری کا جرم کرتے دیکھے اور تو امیر ہو تو کیا اس کو حد لگا دے گا۔ عبدالرحمٰن نے کہا کہ نہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آخر تیری گواہی ایک مسلمان کی گواہی کی طرح ہو گی یا نہیں۔ عبدالرحمٰن نے کہا بیشک سچ کہتے ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اگر لوگ یوں نہ کہیں کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اپنی طرف سے بڑھا دیا تو میں رجم کی آیت اپنے ہاتھ سے مصحف میں لکھ دیتا۔ اور ماعز اسلمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چار بار زنا کا اقرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا اور یہ منقول نہیں ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اقرار پر حاضرین کو گواہ کیا ہو۔ اور حماد بن ابی سلیمان (استاد امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ) نے کہا اگر زنا کرنے والا حاکم کے سامنے ایک بار بھی اقرار کر لے تو وہ سنگسار کیا جائے گا اور حکم بن عتیبہ نے کہا، جب تک چار بار اقرار نہ کر لے سنگسار نہیں ہو سکتا۔

حدیث نمبر: 7170
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن يحيى، عن عمر بن كثير، عن ابي محمد مولى ابي قتادة، ان ابا قتادة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين:" من له بينة على قتيل قتله فله سلبه، فقمت لالتمس بينة على قتيلي فلم ار احدا يشهد لي، فجلست ثم بدا لي، فذكرت امره إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رجل من جلسائه: سلاح هذا القتيل الذي يذكر عندي، قال: فارضه منه، فقال ابو بكر: كلا لا يعطه اصيبغ من قريش ويدع اسدا من اسد الله يقاتل عن الله ورسوله، قال: فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاداه إلي، فاشتريت منه خرافا، فكان اول مال تاثلته، قال لي عبد الله، عن الليث، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فاداه إلي، وقال اهل الحجاز: الحاكم لا يقضي بعلمه شهد بذلك في ولايته او قبلها، ولو اقر خصم عنده لآخر بحق في مجلس القضاء فإنه لا يقضي عليه في قول بعضهم حتى يدعو بشاهدين فيحضرهما إقراره، وقال بعض اهل العراق: ما سمع او رآه في مجلس القضاء قضى به وما كان في غيره لم يقض إلا بشاهدين، وقال آخرون منهم: بل يقضي به لانه مؤتمن، وإنما يراد من الشهادة معرفة الحق، فعلمه اكثر من الشهادة، وقال بعضهم: يقضي بعلمه في الاموال ولا يقضي في غيرها، وقال القاسم: لا ينبغي للحاكم ان يمضي قضاء بعلمه دون علم غيره مع ان علمه اكثر من شهادة غيره ولكن فيه تعرضا لتهمة نفسه عند المسلمين وإيقاعا لهم في الظنون، وقد كره النبي صلى الله عليه وسلم الظن، فقال: إنما هذه صفية".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ:" مَنْ لَهُ بَيِّنَةٌ عَلَى قَتِيلٍ قَتَلَهُ فَلَهُ سَلَبُهُ، فَقُمْتُ لِأَلْتَمِسَ بَيِّنَةً عَلَى قَتِيلِي فَلَمْ أَرَ أَحَدًا يَشْهَدُ لِي، فَجَلَسْتُ ثُمَّ بَدَا لِي، فَذَكَرْتُ أَمْرَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ: سِلَاحُ هَذَا الْقَتِيلِ الَّذِي يَذْكُرُ عِنْدِي، قَالَ: فَأَرْضِهِ مِنْهُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: كَلَّا لَا يُعْطِهِ أُصَيْبِغَ مِنْ قُرَيْشٍ وَيَدَعَ أَسَدًا مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، قَالَ: فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَدَّاهُ إِلَيَّ، فَاشْتَرَيْتُ مِنْهُ خِرَافًا، فَكَانَ أَوَّلَ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ، قَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ، عَنِ اللَّيْثِ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَدَّاهُ إِلَيَّ، وَقَالَ أَهْلُ الْحِجَازِ: الْحَاكِمُ لَا يَقْضِي بِعِلْمِهِ شَهِدَ بِذَلِكَ فِي وِلَايَتِهِ أَوْ قَبْلَهَا، وَلَوْ أَقَرَّ خَصْمٌ عِنْدَهُ لِآخَرَ بِحَقٍّ فِي مَجْلِسِ الْقَضَاءِ فَإِنَّهُ لَا يَقْضِي عَلَيْهِ فِي قَوْلِ بَعْضِهِمْ حَتَّى يَدْعُوَ بِشَاهِدَيْنِ فَيُحْضِرَهُمَا إِقْرَارَهُ، وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِرَاقِ: مَا سَمِعَ أَوْ رَآهُ فِي مَجْلِسِ الْقَضَاءِ قَضَى بِهِ وَمَا كَانَ فِي غَيْرِهِ لَمْ يَقْضِ إِلَّا بِشَاهِدَيْنِ، وَقَالَ آخَرُونَ مِنْهُمْ: بَلْ يَقْضِي بِهِ لِأَنَّهُ مُؤْتَمَنٌ، وَإِنَّمَا يُرَادُ مِنَ الشَّهَادَةِ مَعْرِفَةُ الْحَقِّ، فَعِلْمُهُ أَكْثَرُ مِنَ الشَّهَادَةِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: يَقْضِي بِعِلْمِهِ فِي الْأَمْوَالِ وَلَا يَقْضِي فِي غَيْرِهَا، وَقَالَ الْقَاسِمُ: لَا يَنْبَغِي لِلْحَاكِمِ أَنْ يُمْضِيَ قَضَاءً بِعِلْمِهِ دُونَ عِلْمِ غَيْرِهِ مَعَ أَنَّ عِلْمَهُ أَكْثَرُ مِنْ شَهَادَةِ غَيْرِهِ وَلَكِنَّ فِيهِ تَعَرُّضًا لِتُهَمَةِ نَفْسِهِ عِنْدَ الْمُسْلِمِينَ وَإِيقَاعًا لَهُمْ فِي الظُّنُونِ، وَقَدْ كَرِهَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظَّنَّ، فَقَالَ: إِنَّمَا هَذِهِ صَفِيَّةُ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے، ان سے عمر بن کثیر نے، ان سے ابوقتادہ کے غلام ابو محمد نافع نے اور ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کی جنگ کے دن فرمایا جس کے پاس کسی مقتول کے بارے میں جسے اس نے قتل کیا ہو گواہی ہو تو اس کا سامان اسے ملے گا۔ چنانچہ میں مقتول کے لیے گواہ تلاش کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو میرے لیے گواہی دے سکے، اس لیے میں بیٹھ گیا۔ پھر میرے سامنے ایک صورت آئی اور میں نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو وہاں بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے کہا کہ اس مقتول کا سامان جس کا ابوقتادہ ذکر کر رہے ہیں، میرے پاس ہے۔ انہیں اس کے لیے راضی کر دیجئیے (کہ وہ یہ ہتھیار وغیرہ مجھے دے دیں) اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہرگز نہیں۔ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو نظر انداز کر کے جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کرتا ہے وہ قریش کے معمولی آدمی کو ہتھیار نہیں دیں گے۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور انہوں نے ہتھیار مجھے دے دئیے اور میں نے اس سے ایک باغ خریدا۔ یہ پہلا مال تھا جو میں نے (اسلام کے بعد) حاصل کیا تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے عبداللہ بن صالح نے بیان کیا، ان سے لیث بن سعد نے کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور مجھے وہ سامان دلا دیا، اور اہل حجاز، امام مالک وغیرہ نے کہا کہ حاکم کو صرف اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرنا درست نہیں۔ خواہ وہ معاملہ پر عہدہ قضاء حاصل ہونے کے بعد گواہ ہوا ہو یا اس سے پہلے اور اگر کسی فریق نے اس کے سامنے دوسرے کے لیے مجلس قضاء میں کسی حق کا اقرار کیا تو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس بنیاد پر وہ فیصلہ نہیں کرے گا بلکہ دو گواہوں کو بلا کر ان کے سامنے اقرار کرائے گا۔ اور بعض اہل عراق نے کہا ہے کہ جو کچھ قاضی نے عدالت میں دیکھا یا سنا اس کے مطابق فیصلہ کرے گا لیکن جو کچھ عدالت کے باہر ہو گا اس کی بنیاد پر دو گواہوں کے بغیر فیصلہ نہیں کر سکتا اور انہیں میں سے دوسرے لوگوں نے کہا کہ اس کی بنیاد پر بھی فیصلہ کر سکتا ہے کیونکہ وہ امانت دار ہے۔ شہادت کا مقصد تو صرف حق کا جاننا ہے پس قاضی کا ذاتی علم گواہی سے بڑھ کر ہے۔ اور بعض ان میں سے کہتے ہیں کہ اموال کے بارے میں تو اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا اور اس کے سوا میں نہیں کرے گا اور قاسم نے کہا کہ حاکم کے لیے درست نہیں کہ وہ کوئی فیصلہ صرف اپنے علم کی بنیاد پر کرے اور دوسرے کے علم کو نظر انداز کر دے گو قاضی کا علم دوسرے کی گواہی سے بڑھ کر ہے لیکن چونکہ عام مسلمانوں کی نظر میں اس صورت میں قاضی کے مہتمم ہونے کا خطرہ ہے اور مسلمانوں کو اس طرح بدگمانی میں مبتلا کرنا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدگمانی کو ناپسند کیا تھا اور فرمایا تھا کہ یہ صفیہ میری بیوی ہیں۔

Narrated Abu Qatada: Allah's Apostle said on the Day of (the battle of) Hunain, "Whoever has killed an infidel and has a proof or a witness for it, then the salb (arms and belongings of that deceased) will be for him." I stood up to seek a witness to testify that I had killed an infidel but I could not find any witness and then sat down. Then I thought that I should mention the case to Allah's Apostle I (and when I did so) a man from those who were sitting with him said, "The arms of the killed person he has mentioned, are with me, so please satisfy him on my behalf." Abu Bakr said, "No, he will not give the arms to a bird of Quraish and deprive one of Allah's lions of it who fights for the cause of Allah and His Apostle." Allah's Apostle I stood up and gave it to me, and I bought a garden with its price, and that was my first property which I owned through the war booty. The people of Hijaz said, "A judge should not pass a judgment according to his knowledge, whether he was a witness at the time he was the judge or before that" And if a litigant gives a confession in favor of his opponent in the court, in the opinion of some scholars, the judge should not pass a judgment against him till the latter calls two witnesses to witness his confession. And some people of Iraq said, "A judge can pass a judgement according to what he hears or witnesses (the litigant's confession) in the court itself, but if the confession takes place outside the court, he should not pass the judgment unless two witnesses witness the confession." Some of them said, "A judge can pass a judgement depending on his knowledge of the case as he is trust-worthy, and that a witness is Required just to reveal the truth. The judge's knowledge is more than the witness." Some said, "A judge can judge according to his knowledge only in cases involving property, but in other cases he cannot." Al-Qasim said, "A judge ought not to pass a judgment depending on his knowledge if other people do not know what he knows, although his knowledge is more than the witness of somebody else because he might expose himself to suspicion by the Muslims and cause the Muslims to have unreasonable doubt. "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 282

   صحيح البخاري4321حارث بن ربعيمن قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه
   صحيح البخاري3142حارث بن ربعيمن قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه
   صحيح البخاري7170حارث بن ربعيمن له بينة على قتيل قتله فله سلبه
   صحيح البخاري2100حارث بن ربعيخرجنا مع رسول الله عام حنين فأعطاه يعني درعا فبعت الدرع فابتعت به مخرفا في بني سلمة فإنه لأول مال تأثلته في الإسلام
   صحيح مسلم3142حارث بن ربعيمن قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه
   جامع الترمذي1562حارث بن ربعيمن قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه
   سنن أبي داود2717حارث بن ربعيمن قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه
   سنن ابن ماجه2837حارث بن ربعينفله سلب قتيل قتله يوم حنين
   المعجم الصغير للطبراني601حارث بن ربعي اللهم اغفر له ثلاثا ونفلني سلب مسعدة
   مسندالحميدي427حارث بن ربعينفلني رسول الله صلى الله عليه وسلم سلب قتيل قتلته يوم حنين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1562  
´کافر کا قاتل مقتول کے سامان کا حقدار گا۔`
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی کافر کو قتل کرے اور اس کے پاس گواہ موجود ہو تو مقتول کا سامان اسی کا ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1562]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
یہ قصہ صحیح البخاری کی حدیث: 4322، 3143 اورصحیح مسلم کی حدیث: 1751 میں دیکھا جا سکتا ہے،
واقعہ دلچسپ ہے ضرورمطالعہ کریں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1562   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2717  
´جو شخص کسی کافر کو قتل کر دے تو اس سے چھینا ہوا مال اسی کو ملے گا۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کے سال نکلے، جب کافروں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی، میں نے مشرکین میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر چڑھا ہوا ہے، تو میں پلٹ پڑا یہاں تک کہ اس کے پیچھے سے اس کے پاس آیا اور میں نے تلوار سے اس کی گردن پر مارا تو وہ میرے اوپر آ پڑا، اور مجھے ایسا دبوچا کہ میں نے اس سے موت کی مہک محسوس کی، پھر اسے موت آ گئی اور اس نے مجھے چھوڑ دیا، پھر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے پوچھا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2717]
فوائد ومسائل:
جو مال مقتول کے پاس ہو۔
اس کا قاتل ہی اس کا حق دار سمجھا جاتا ہے۔
اور اسے اصطلاحا ً سلب کہتے ہیں۔
یعنی لباس سواری اور اسلحہ پیچھے اس کے ٹھکانے پر جو کچھ ہو وہ اس میں شامل اور شمار نہیں ہوتا۔
اس کی نقدی اور زیورات جو مخفی ہوتے ہیں۔
ان کے بارے میں اختلاف ہے۔
(نیل الأوطار: 305/7)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2717   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7170  
7170. سیدنا ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے حنین کے دن فرمایا: جس کے پاس کسی مقتول کے بارے میں گواہی ہو جسے اس نے قتل کیا ہوتو اسکا سامان اسے ملے گا۔ چنانچہ میں ایک مقتول کے متعلق گواہ تلاش کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو میں نے کسی کونہ دیکھا جو میرے لیے گواہی دے، اس لیے میں بیٹھ گیا۔ پھر مجھے خیال آیا تو میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ کے سامنے کر دیا۔ وہاں بیٹھےہوئے لوگوں میں سے ایک صاحب نے کہا: جس مقتول کا انہوں نے ذکر کیا ہے اس کا سامان میرے پاس ہے، آپ اسے میری طرف سے راضی کر دیں۔ اس پر سیدنا ابو بکر ؓ گویا ہوئے: ہرگز نہیں، وہ قریش کے بد رنگ (معمولی) آدمی کو سامان دے دیں اور اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو نظر انداز کر دیں جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جہاد کرتا ہے۔ سیدنا ابو قتادہ ؓ نے کہا: پھر رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تو اس نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7170]
حدیث حاشیہ:
جب دو انصاریوں نے آپ کو مسجد سے باہر ان کے ساتھ چلتے دیکھا تھا تو ان کی بدگمانی دور کرنے کے لیے آپ نے یہ فرمایا تھا جس کی تفصیل آگے والی حدیث میں وارد ہے۔
تو اگر حاکم یا قاضی نے کسی شخص کو زنا یا چوری یا خون کرتے دیکھا تو صرف اپنے علم کی بنا پر مجرم کو سزا نہیں دے سکتا جب تک باقاعدہ شہادت سے ثبوت نہ ہو۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں قیاس تو یہ تھا کہ ان سب مقدمات میں بھی قاضی کو اپنے علم پر فیصلہ کرنا جائز ہوتا لیکن میں قیاس کو چھوڑ دیتا ہوں اور استحسان کے رو سے یہ کہتا ہوں کہ قاضی ان مقدمات میں اپنے علم کی بنا پر حکم نہ دے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7170   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7170  
7170. سیدنا ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے حنین کے دن فرمایا: جس کے پاس کسی مقتول کے بارے میں گواہی ہو جسے اس نے قتل کیا ہوتو اسکا سامان اسے ملے گا۔ چنانچہ میں ایک مقتول کے متعلق گواہ تلاش کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو میں نے کسی کونہ دیکھا جو میرے لیے گواہی دے، اس لیے میں بیٹھ گیا۔ پھر مجھے خیال آیا تو میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ کے سامنے کر دیا۔ وہاں بیٹھےہوئے لوگوں میں سے ایک صاحب نے کہا: جس مقتول کا انہوں نے ذکر کیا ہے اس کا سامان میرے پاس ہے، آپ اسے میری طرف سے راضی کر دیں۔ اس پر سیدنا ابو بکر ؓ گویا ہوئے: ہرگز نہیں، وہ قریش کے بد رنگ (معمولی) آدمی کو سامان دے دیں اور اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو نظر انداز کر دیں جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جہاد کرتا ہے۔ سیدنا ابو قتادہ ؓ نے کہا: پھر رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تو اس نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7170]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی حاکم یا قاضی کسی شخص کو زنا یا چوری یا قتل کرتے دیکھتا ہے تو صرف اپنے علم کی بنیاد پر مجرم کو سزا نہیں دے سکتا جب تک باضابطہ شہادت سے اسے ثابت نہ کیا جائے، اگر ایسا کیا جائے اور شہادت کے بغیر کوئی فیصلہ کر دیا جائے تو اس سے کئی ایک مفاسد پیدا ہوتے ہیں پھر قاضی جسے چاہے گا، اسے سزادے ڈالے گا۔

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی کہتے ہیں کہ قیاس کے مطابق ان سب مقدمات میں قاضی کے لیے اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرنا جائز ہے لیکن میں قیاس کو چھوڑ کر بطور استحسان کہتا ہوں کہ کوئی قاضی اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ نہ کرے، اس میں عافیت کا راستہ ہے۔
(فتح الباري: 200/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7170   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.