الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
The Book of Tauhid (Islamic Monotheism)
9. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا بَصِيرًا} :
9. باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”اور اللہ بہت سننے والا، بہت دیکھنے والا ہے“۔
(9) Chapter. The Statement of Allah: “And Allah is Ever All-Heater, All-Seer.” (V.4:134)
حدیث نمبر: 7388
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا يحيى بن سليمان، حدثني ابن وهب، اخبرني عمرو، عن يزيد، عن ابي الخير، سمع عبد الله بن عمرو، ان ابا بكر الصديق رضي الله عنه، قال للنبي صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، علمني دعاء ادعو به في صلاتي، قال: قل اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا انت، فاغفر لي من عندك مغفرة إنك انت الغفور الرحيم".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي دُعَاءً أَدْعُو بِهِ فِي صَلَاتِي، قَالَ: قُلِ اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مِنْ عِنْدِكَ مَغْفِرَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو عمرو نے خبر دی، انہیں یزید نے، انہیں ابوالخیر نے، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ! مجھے ایسی دعا سکھائیے جو میں اپنی نماز میں کیا کروں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ پڑھا کرو «اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا يغفر الذنوب إلا أنت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فاغفر لي من عندك مغفرة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إنك أنت الغفور الرحيم‏"‏‏.‏» اے اللہ! میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا اور تیرے سوا گناہوں کو اور کوئی نہیں بخشتا، پس میرے گناہ اپنے پاس سے بخش دے، بلاشبہ تو بڑا مغفرت کرنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

Narrated `Abdullah bin `Amr: Abu Bakr As-Siddiq said to the Prophet "O Allah's Apostle! Teach me an invocation with which I may invoke Allah in my prayers." The Prophet said, "Say: O Allah! I have wronged my soul very much (oppressed myself), and none forgives the sins but You; so please bestow Your Forgiveness upon me. No doubt, You are the Oft-Forgiving, Most Merciful."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 485

   صحيح البخاري7388عبد الله بن عثمانعلمني دعاء أدعو به في صلاتي اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي من عندك مغفرة إنك أنت الغفور الرحيم
   صحيح البخاري834عبد الله بن عثمانعلمني دعاء أدعو به في صلاتي اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم
   صحيح البخاري6326عبد الله بن عثمانعلمني دعاء أدعو به في صلاتي اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم
   صحيح مسلم6869عبد الله بن عثمانعلمني دعاء أدعو به في صلاتي اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كبيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم
   جامع الترمذي3531عبد الله بن عثمانعلمني دعاء أدعو به في صلاتي اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم
   سنن النسائى الصغرى1303عبد الله بن عثمانعلمني دعاء أدعو به في صلاتي اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم
   سنن ابن ماجه3835عبد الله بن عثمانعلمني دعاء أدعو به في صلاتي اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم
   بلوغ المرام251عبد الله بن عثمان قل : اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3835  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا بیان۔`
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئیے جسے میں نماز میں پڑھا کروں، آپ نے فرمایا: تم یہ دعا پڑھا کرو «اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم» اے اللہ! میں نے اپنے نفس پر بہت ظلم کیا ہے اور گناہوں کا بخشنے والا صرف تو ہی ہے، تو اپنی عنایت سے میرے گناہ بخش دے، اور مجھ پر رحم فرما، تو غفور و رحیم (بخشنے والا مہربان) ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3835]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
نماز میں سلام سے پہلے خوب دعائیں مانگنی چاہئیں۔

(2)
گناہوں کی بخشش کےلیے دعا کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔

(3)
دعائے مغفرت کے لیے ضروری نہیں کہ کوئی گناہ سر زد ہوا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3835   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 251  
´نماز کی صفت کا بیان`
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے ایسی دعا سکھائیں جسے میں اپنی نماز میں پڑھا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دعا پڑھا کرو «اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم» اے پروردگار! میں نے اپنی جان پر بہت ہی ظلم کیا ہے۔ تیرے سوا کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہیں۔ لہذا تو مجھے اپنی جناب سے معاف فرما دے اور مجھ پر رحم فرما۔ بیشک تو ہی بخشنے والا اور ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 251»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأذان، باب الدعاء قبل السلام، حديث:834، ومسلم، الذكر والدعاء، باب استحباب خفض الصوت بالذكر، حديث:2705.»
تشریح:
اس حدیث سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ ہر انسان کو اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کی معافی مانگتے رہنا چاہیے کیونکہ انسان سے ہر وقت لغزش اور غلطی و خطا کا امکان رہتا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسا انسان بھی اپنے آپ کو اس سے مستغنی نہیں سمجھتا‘ حالانکہ ان کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صدیق کا خطاب عطا ہوا تھا۔
راوئ حدیث: «حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابوبکر کنیت اور صدیق لقب ہے۔
عبداللہ بن عثمان نام ہے۔
ان کے والد عثمان‘ ابو قحافہ کی کنیت سے مشہور تھے۔
تیم قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلے خلیفۂ راشد تھے۔
انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد تمام انسانوں میں سے افضل انسان ہیں۔
ہجرت مدینہ کے سفر کے دوران میں غار ثور میں آپ کے ساتھی تھے۔
اسی بنا پر ان کو یارِ غار کہا جاتا ہے۔
گورے چٹے‘ نرم مزاج اور دبلے پتلے جسم کے انسان تھے۔
تعریف سے مستغنی ہیں۔
بڑے عزم و استقلال اور صمیم الارادہ تھے۔
احباب و رفقاء کے لیے رحیم و رقیق اور اعدائے اسلام اور دشمنان دین کے لیے ناقابل تسخیر چٹان تھے۔
۱۳ ہجری میں جمادی الاخریٰ میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 251   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3531  
´باب:۔۔۔`
ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: آپ مجھے کوئی ایسی دعا بتا دیجئیے جسے میں اپنی نماز میں مانگا کروں ۱؎، آپ نے فرمایا: کہو: «اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم» اے اللہ! میں نے اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا ہے، جب کہ گناہوں کو تیرے سوا کوئی اور بخش نہیں سکتا، اس لیے تو مجھے اپنی عنایت خاص سے بخش دے، اور مجھ پر رحم فرما، تو ہی بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3531]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
نماز میں سے مراد ہے آخری رکعت میں سلام سے پہلے۔

2؎:
اے اللہ! میں نے اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا ہے،
جب کہ گناہوں کو تیرے سوا کوئی اور بخش نہیں سکتا،
اس لیے تو مجھے اپنی عنایت خاص سے بخش دے،
اور مجھ پر رحم فرما،
تو ہی بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3531   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7388  
7388. سیدنا ابو بکر ؓ سے روایت ہے انہوں نے نبی ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے ایسی دعا سکھائیں جسے میں اپنی نماز میں پڑھا کروں۔ آپ نے فرمایا: یہ دعا پڑھاکرو: اے اللہ! میں نے اپنے آپ پر بہت ظلم کیا ہے۔ تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کو معاف کرنے والا نہیں۔ مجھے اپنے پاس سے مغفرت عطا فرما یقیناً تو ہی بہت زیادہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7388]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مناسبت ترجمہ بات سے مشکل ہے۔
بعضوں نے کہا اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ہے دعا کرنا اسی وقت فائدہ دے گا جب وہ سنتا دیکھتا ہو تو آپ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ دعا مانگنے کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ وہ سنتا دیکھتا ہے۔
میں کہتا ہوں سبحان اللہ امام بخاری کی باریکی فہم اس دعا میں اللہ تعالیٰ کو مخاطب کیا ہے بہ صیغہ امر اور بکاف خطاب اور اللہ تعالیٰ کا مخاطب کرنا اسی وقت صحیح ہوگا جب وہ سنتا دیکھتا اور حاضر ہو ورنہ غائب شخص کو کون مخاطب کرے گا پس اس دعا سے باب کا مطلب ثابت ہو گیا۔
دوسرے یہ کہ حدیث میں وارد ہے جب کوئی تم میں سے نماز پڑھتا ہے تو اپنے پروردگار سے سر گوشی کرتا ہے اور سر گوشی کی حالت میں کوئی بات کہنا اسی وقت مؤثر ہوگی جب مخاطب بخوبی سنتا ہو تو اس حدیث کو اس حدیث کے ساتھ ملانے سے یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ کا سمع بے انتہاء ہے وہ عرش پر رہ کر بھی نمازی کی سر گوشی سن لیتا ہے اور یہی باب کا مطلب ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7388   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7388  
7388. سیدنا ابو بکر ؓ سے روایت ہے انہوں نے نبی ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے ایسی دعا سکھائیں جسے میں اپنی نماز میں پڑھا کروں۔ آپ نے فرمایا: یہ دعا پڑھاکرو: اے اللہ! میں نے اپنے آپ پر بہت ظلم کیا ہے۔ تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کو معاف کرنے والا نہیں۔ مجھے اپنے پاس سے مغفرت عطا فرما یقیناً تو ہی بہت زیادہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7388]
حدیث حاشیہ:

کچھ شارحین نے کہا ہے کہ مذکورہ حدیث عنوان کے مطابق نہیں کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے سمیع اور بصیر ہونے کا ذکر نہیں ہے۔
اس کا جواب علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ نے دیا ہے کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں جنھیں دیکھا یا سنا جاتا ہے اس دعا کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ان گناہوں کو دیکھتا اور سنتا ہے پھر بندے کی دعا کے مطابق اس کی مغفرت عمل میں آتی ہے۔
(فتح الباري: 459/13)

اس مقام پر حدیث سے مقصود یہ ہے کہ جس ذات کو پکارنے والا پکارتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سمیع ہوتا کہ پکارنے والےکی پکار کو ہر آن سنے اور وہ بصیر ہو۔
تاکہ اس کی حالت کو دیکھ کر اپنی قدرت کاملہ سے اس کے مطلوب کو اس تک پہنچائے اگر وہ ایسا نہیں ہو گا۔
تو دعا کرنے والے کی پکار ضائع اور بے کار ہے۔
بندے کی دعا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے شرف قبولیت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سمیع بصیر، قادر زندہ اور جاننے والا ہے، اللہ تعالیٰ نے ایسے معبودان باطلہ کی بے بسی بایں الفاظ میں بیان کی ہے جو سنتے یا دیکھتے نہیں ہیں۔
اور اس شخص سے بڑھ کراور کون گمراہ ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر انھیں پکارے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہیں کریں گے۔
اور وہ (اس قسم کے معبودان باطلہ تو)
ان کی دعا و پکار ہی سے بے خبرہیں۔
(الأحقاف: 5)
نیز جس سے دعا کی جائے اس کے چند ایک لوازمات حسب ذیل ہیں۔
"وجود" کیونکہ جو موجود نہ ہو اس سے دعا نہیں کی جاتی۔
"غنی" کیونکہ فقیر و محتاج سے کوئی نہیں مانگتا۔
"سمیع" کیونکہ بہرے کو کوئی نہیں پکارتا۔
"کریم" کیونکہ بخیل سے کوئی سوال نہیں کرتا۔
"رحیم" کیونکہ سنگدل سے کوئی التجانہیں کرتا۔
"قادر"کیونکہ عاجز اور بے بس کوکوئی نہیں پکارتا۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 196/1)

ان حقائق کی بنا پر مذکورہ حدیث عنوان کے عین مطابق ہے کیونکہ اس دعا میں انسان اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر عرض کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہونا اسی وقت صحیح ہوگا جب وہ سنتا دیکھتا اور حاضرہو۔
بصورت دیگر غائب کوکون مخاطب کرتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7388   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.