الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
The Book of Adhan (Sufa-tus-Salat)
115. بَابُ إِتْمَامِ التَّكْبِيرِ فِي الرُّكُوعِ:
115. باب: رکوع کرنے کے وقت بھی تکبیر کہنا۔
(115) Chapter. Itmam At-Takbir (i.e., to end the number of Takbir or to say the Takbir perfectly) on bowing. [See Fath Al-Bari ].
حدیث نمبر: Q784
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
قاله ابن عباس: عن النبي صلى الله عليه وسلم فيه مالك بن الحويرث.قَالَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے اور مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے بھی اس باب میں روایت کی ہے۔

حدیث نمبر: 784
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا إسحاق الواسطي، قال: حدثنا خالد، عن الجريري، عن ابي العلاء، عن مطرف، عن عمران بن حصين، قال: صلى مع علي رضي الله عنه بالبصرة، فقال: ذكرنا هذا الرجل صلاة كنا نصليها مع رسول الله صلى الله عليه وسلم،" فذكر انه كان يكبر كلما رفع وكلما وضع".حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْوَاسِطِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: صَلَّى مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِالْبَصْرَةِ، فَقَالَ: ذَكَّرَنَا هَذَا الرَّجُلُ صَلَاةً كُنَّا نُصَلِّيهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَذَكَرَ أَنَّهُ كَانَ يُكَبِّرُ كُلَّمَا رَفَعَ وَكُلَّمَا وَضَعَ".
ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے سعید بن ایاس جریری سے بیان کیا، انہوں نے ابوالعلاء یزید بن عبداللہ سے، انہوں نے مطرف بن عبداللہ سے، انہوں نے عمران بن حصین سے کہ انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بصرہ میں ایک مرتبہ نماز پڑھی۔ پھر کہا کہ ہمیں انہوں نے وہ نماز یاد دلا دی جو کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ پھر کہا کہ علی رضی اللہ عنہ جب سر اٹھاتے اور جب سر جھکاتے اس وقت تکبیر کہتے۔

Narrated `Imran bin Husain: I offered the prayer with `Ali in Basra and he made us remember the prayer which we used to pray with Allah's Apostle. `Ali said Takbir on each rising and bowing.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 12, Number 751

   صحيح البخاري784عمران بن الحصينيكبر كلما رفع وكلما وضع
   صحيح البخاري786عمران بن الحصينإذا سجد كبر وإذا رفع رأسه كبر وإذا نهض من الركعتين كبر
   صحيح البخاري826عمران بن الحصينإذا سجد كبر وإذا رفع كبر وإذا نهض من الركعتين كبر
   صحيح مسلم873عمران بن الحصينسجد كبر وإذا رفع رأسه كبر وإذا نهض من الركعتين كبر
   سنن أبي داود835عمران بن الحصينإذا سجد كبر وإذا ركع كبر وإذا نهض من الركعتين كبر
   سنن النسائى الصغرى1181عمران بن الحصينيكبر في كل خفض ورفع يتم التكبير
   سنن النسائى الصغرى1083عمران بن الحصينإذا سجد كبر وإذا رفع رأسه من السجود كبر وإذا نهض من الركعتين كبر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 835  
´تکبیر پوری کہنے کا بیان۔`
مطرف کہتے ہیں میں نے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو جب وہ سجدہ کرتے تو «الله اكبر» کہتے، جب رکوع کرتے تو «الله اكبر» کہتے اور جب دو رکعت پڑھ کر تیسری کے لیے اٹھتے تو «الله اكبر» کہتے، جب ہم فارغ ہوئے تو عمران رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: ابھی انہوں نے ایسی نماز پڑھی ہے (راوی کو شک ہے) یا ابھی ہمیں ایسی نماز پڑھائی ہے، جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہوتی تھی۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 835]
835۔ اردو حاشیہ:
دراصل لوگوں نے تکبیرات انتقال کہنی چھوڑ دی تھیں، تو حضرت عمران رضی اللہ عنہ نے اسی سنت کی طرف اشارہ فرمایا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 835   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1083  
´سجدہ کرنے کے لیے اللہ اکبر کہنے کا بیان۔`
مطرف کہتے ہیں کہ میں نے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہما دونوں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، جب وہ سجدہ کرتے تو اللہ اکبر کہتے، اور جب سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے تو اللہ اکبر کہتے، اور جب دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے تو اللہ اکبر کہتے، جب وہ نماز پڑھ چکے تو عمران رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: انہوں نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یاد دلا دی۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1083]
1083۔ اردو حاشیہ:
➊ پیچھے گزر چکا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم ہی کے دور میں بعض ائمہ نے تکبیر کہنے میں سستی شروع کر دی تھی۔ یا تو کہتے ہی نہیں تھے یا بہت آہستہ بلکہ زیر لب کتے تھے۔ یہ نزاکت تھی، کوئی عذر نہ تھا، لہٰذا ایسا کرنا مذموم تھا۔ ہاں عذر ہو تو الگ بات ہے، جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے ان کی تکبیر کی آواز پچھلی صفوں کو سنائی نہ دیتی تھی۔
➋ حضرت علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ وہ کس قدر سنت نبوی کے محافظ اور عامل تھے کہ جب اکثر لوگ تکبیرات انتقال چھوڑ چکے تھے بلکہ بعض ان کی مشروعیت کا انکار بھی کرتے تھے، ایسے وقت میں انہوں نے ان کا احیا (انہیں زندہ) کیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1083   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:784  
784. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، انہوں نے ایک مرتبہ حضرت علی ؓ کے ہمراہ بصرہ میں نماز ادا کی تو فرمایا: اس شخص (حضرت علی ؓ) نے ہمیں وہ نماز یاد دلا دی ہے جو ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ پڑھا کرتے تھے۔ پھر انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ جب نماز میں سر اٹھاتے اور سر جھکاتے تو اس وقت اللہ أکبر کہتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:784]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ کی وفات سے کچھ عرصہ بعد حضرت عثمان ؓ کی خلافت میں ائمۂ مساجد نے نماز پڑھتے وقت تکبیرات انتقال کو ترک کر دیا تھا جیسا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی روایت میں ہے کہ حضرت علی ؓ نے ہمیں وہ نماز یاد دلا دی جو ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ادا کرتے تھے۔
ہم نے ان تکبیرات انتقال کو بھلا دیا تھا یا دانستہ طور پر چھوڑ بیٹھے تھے۔
(فتح الباري: 349/2) (2)
ترک کا سبب یہ ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی آواز طبعی حیا کی وجہ سے پست تھی یا بڑھاپے کی بنا پر کمزور ہو گئی تھی، چنانچہ نماز پڑھاتے وقت لوگوں کو ان کی تکبیرات سنائی نہیں دیتی تھیں جس سے یہ خیال کر لیا گیا کہ نماز میں تکبیرات انتقال ضروری نہیں۔
(3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت عثمان اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما اور جناب زیاد کے ترک تکبیرات کے متعلق روایات پیش کی ہیں، مزید لکھا ہے کہ زیاد نے حضرت معاویہ ؓ کو دیکھ کر تکبیرات کو ترک کیا اور حضرت معاویہ نے حضرت عثمان ؓ کو دیکھ کر انہیں نظر انداز کر دیا۔
(فتح الباري: 349/2) (4)
اس دور میں تکبیرات انتقال کے ترک سے مراد مطلق طور پر تکبیرات چھوڑ دینا نہیں بلکہ بآواز بلند ترک کر دینا ہے، البتہ امام طحاوی نے کچھ لوگوں کے متعلق نقل کیا ہے کہ وہ رکوع اور سجدے میں جاتے وقت تکبیرات نہیں کہا کرتے تھے۔
بہرحال جمہور کے نزدیک تکبیر تحریمہ واجب اور باقی تمام تکبیرات مستحب ہیں، لیکن ہمارے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ تمام تکبیرات واجب ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا ترک ثابت نہیں بلکہ آپ ہمیشہ انہیں کہتے رہے ہیں۔
آپ کا فرمان گرامی ہے کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 784   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.