-" كان ناس ياتون رسول الله صلى الله عليه وسلم من اليهود، فيقولون السام عليك! فيقول: وعليكم. ففطنت بهم عائشة فسبتهم، (وفي رواية: قالت عائشة: بل عليكم السام والذام) فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مه يا عائشة! [لا تكوني فاحشة] فإن الله لا يحب الفحش ولا التفحش. قالت: فقلت: يا رسول الله إنهم يقولون كذا وكذا. فقال: اليس قد رددت عليهم؟ فانزل الله عز وجل: * (وإذا جاؤك حيوك بما لم يحيك به الله) * إلى آخر الآية".-" كان ناس يأتون رسول الله صلى الله عليه وسلم من اليهود، فيقولون السام عليك! فيقول: وعليكم. ففطنت بهم عائشة فسبتهم، (وفي رواية: قالت عائشة: بل عليكم السام والذام) فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مه يا عائشة! [لا تكوني فاحشة] فإن الله لا يحب الفحش ولا التفحش. قالت: فقلت: يا رسول الله إنهم يقولون كذا وكذا. فقال: أليس قد رددت عليهم؟ فأنزل الله عز وجل: * (وإذا جاؤك حيوك بما لم يحيك به الله) * إلى آخر الآية".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: یہودی لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر ( السلام علیکم کی بجائے) «اَلسَّامُ عَلَيكُم»( تم پر ہلاکت اور موت واقع ہو) کہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواباً فرماتے: «وعليك»(اور تم پر بھی ہو)۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی بات سمجھ گئیں اور انہیں بر بھلا کہا (اور ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا: بلکہ تم ہلاکت اور مذمت ہو)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! رہنے دو، ناپسندیدہ باتیں مت کیا کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ بدگوئی اور بدزبانی کو ناپسند کرتا ہے۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ تو آپ کو یوں یوں کہہ رہے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں نے ان کو (اچھے انداز میں) جواب دے نہیں دیا۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: «وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّـهُ»(۵۸-المجادلة:۸)”اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو تجھے ان لفظوں میں سلام کرتے ہیں جن لفظوں میں اللہ تعالیٰ نے نہیں کہا“ . . . آیت کے آخر تک (سورۃ المجادلہ: ۸)۔