(مرفوع) حدثنا قتيبة , حدثنا الليث , عن ابن شهاب , عن سالم بن عبد الله , عن ابيه , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اقتلوا الحيات , واقتلوا ذا الطفيتين , والابتر , فإنهما يلتمسان البصر , ويسقطان الحبلى " , قال: وفي الباب , عن ابن مسعود , وعائشة , وابي هريرة , وسهل بن سعد , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , وقد روي عن ابن عمر , عن ابي لبابة , ان النبي صلى الله عليه وسلم: " نهى بعد ذلك عن قتل حيات البيوت وهي: العوامر " , ويروى عن ابن عمر , عن زيد بن الخطاب ايضا , وقال عبد الله بن المبارك: إنما يكره من قتل الحيات قتل الحية التي تكون دقيقة , كانها فضة , ولا تلتوي في مشيتها.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْتُلُوا الْحَيَّاتِ , وَاقْتُلُوا ذَا الطُّفْيَتَيْنِ , وَالْأَبْتَرَ , فَإِنَّهُمَا يَلْتَمِسَانِ الْبَصَرَ , وَيُسْقِطَانِ الْحُبْلَى " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ , وَعَائِشَةَ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ , عَنْ أَبِي لُبَابَةَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى بَعْدَ ذَلِكَ عَنْ قَتْلِ حَياتِ الْبُيُوتِ وَهِيَ: الْعَوَامِرُ " , وَيُرْوَى عَنْ ابْنِ عُمَرَ , عَنْ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ أَيْضًا , وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: إِنَّمَا يُكْرَهُ مِنْ قَتْلِ الْحَيَّاتِ قَتْلُ الْحَيَّةِ الَّتِي تَكُونُ دَقِيقَةً , كَأَنَّهَا فِضَّةٌ , وَلَا تَلْتَوِي فِي مِشْيَتِهَا.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سانپوں کو مارو، خاص طور سے اس سانپ کو مارو جس کی پیٹھ پہ دو (کالی) لکیریں ہوتی ہیں اور اس سانپ کو جس کی دم چھوٹی ہوتی ہے اس لیے کہ یہ دونوں بینائی کو زائل کر دیتے ہیں اور حمل کو گرا دیتے ہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے وہ ابولبابہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد گھروں میں رہنے والے سانپوں کو جنہیں «عوامر»(بستیوں میں رہنے والے سانپ) کہا جاتا ہے، مارنے سے منع فرمایا ۲؎: ابن عمر اس حدیث کو زید بن خطاب ۳؎ سے بھی روایت کرتے ہیں، ۳- اس باب میں ابن مسعود، عائشہ، ابوہریرہ اور سہل بن سعد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: سانپوں کے اقسام میں سے اس سانپ کو بھی مارنا مکروہ ہے جو پتلا (اور سفید) ہوتا ہے گویا کہ وہ چاندی ہو، وہ چلنے میں بل نہیں کھاتا بلکہ سیدھا چلتا ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی ان دونوں میں ایسا زہر ہوتا ہے کہ انہیں دیکھنے والا نابینا ہو جاتا ہے اور حاملہ کا حمل گر جاتا ہے۔
۲؎: یہ ممانعت اس لیے ہے کہ یہ جن و شیاطین بھی ہو سکتے ہیں، انہیں مارنے سے پہلے وہاں سے غائب ہو جانے یا اپنی شکل تبدیل کر لینے کی تین بار آگاہی دے دینی چاہیئے، اگر وہ وہاں سے غائب نہ ہو پائیں یا اپنی شکل نہ بدلیں تو وہ ابو سعید خدری سے مروی حدیث کی روشنی میں انہیں مار سکتے ہیں۔
۳؎: زید بن خطاب عمر بن خطاب (رضی الله عنہما) کے بڑے بھائی ہیں، یہ عمر رضی الله عنہ سے پہلے اسلام لائے، بدر اور دیگر غزوات میں شریک رہے، ان سے صرف ایک حدیث گھروں میں رہنے والے سانپوں کو نہ مارنے سے متعلق آئی ہے۔
(مرفوع) حدثنا هناد , حدثنا ابن ابي زائدة , حدثنا ابن ابي ليلى , عن ثابت البناني , عن عبد الرحمن بن ابي ليلى , قال: قال ابو ليلى، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا ظهرت الحية في المسكن , فقولوا لها: إنا نسالك بعهد نوح , وبعهد سليمان بن داود , ان لا تؤذينا , فإن عادت فاقتلوها " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب , لا نعرفه من حديث ثابت البناني , إلا من هذا الوجه من حديث ابن ابي ليلى.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى , عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى , قَالَ: قَالَ أَبُو لَيْلَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا ظَهَرَتِ الْحَيَّةُ فِي الْمَسْكَنِ , فَقُولُوا لَهَا: إِنَّا نَسْأَلُكِ بِعَهْدِ نُوحٍ , وَبِعَهْدِ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ , أَنْ لَا تُؤْذِيَنَا , فَإِنْ عَادَتْ فَاقْتُلُوهَا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ , لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ , إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى.
ابولیلیٰ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب گھر میں سانپ نکلے تو اس سے کہو: ہم نوح اور سلیمان بن داود کے عہد و اقرار کی رو سے یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمیں نہ ستاؤ پھر اگر وہ دوبارہ نکلے تو اسے مار دو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس حدیث کو ثابت بنانی کی روایت سے صرف ابن ابی لیلیٰ ہی کے طریق سے جانتے ہیں۔